تحریر:نوید مسعود ہاشمی
نبی کریم ۖ کا فرمان تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک مسافر یا راہ گیر ہو، (جامع ترمذی.حدیث نمبر 233) نبی کریم ۖ کا فرمان تم میں سے کسی پر بھی موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ عزوجل کے متعلق اچھا گمان رکھتا ہو (صحیح مسلم.حدیث نمبر 7231) نبی کریم ۖ کا فرمان لذتوں کو توڑنے والی(یعنی موت)کو کثرت سے یاد کیا کرو،ان کی زندگی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی مظہر تھی،وہ جب تک زندہ رہے ”انسانیت سازی”کا فریضہ سر انجام دیتے رہے،وہ صرف جسمانی ہی نہیں، بلکہ روحانی مسیحا بھی تھے،جس دل میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سما جائے ،وہ اطیع اللہ واطیع الرسول کی طرف گامزن ہو جاتا ہے،ان کی زندگی بھی کچھ اسی قسم کی مثالی تھی، سابق وزیراعظم پاکستان چوہدری محمد علی مرحوم کے بیٹے اور جامعہ عبداللہ بن عباس کے مہتمم حضرت مولانا ڈاکٹر امجد احسن علی رحمہ اللہ علیہ جو 27اگست 2023ء بعد نماز عشاء اس دار فانی سے اللہ تعالیٰ کے جوار رحمت میں کوچ فرماگئے، ایک ایسی حیران کن شخصیت کے مالک تھے کہ جن کے بارے میں بہت سی باتوں سے لوگ لا علم ہیں، ان کے خواتین کے مدرسے کی ایک شاگردہ نے ان کے بعض کارناموں کے حوالے سے لکھا ہے کہ، لیاقت نیشنل ہسپتال کراچی جیسے بڑے ہسپتال میں بڑے جنرل فزیشن کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے ساتھ ساتھ ہسپتال کے عملے کو تبلیغ کے کام سے جوڑنے کی محنت میں لگے رہنا، صبح کے وقت ہسپتال میں سورہ یٰسین اور سورہ رحمن کی تلاوت کا اہتمام کروانا ، پھر اپنے ساتھ ہسپتال میں کام کرنے والی خواتین کو پردے کی ترغیب دینا ، پھر اس سے بڑھ کر ہسپتال کی سخت جاب کے ساتھ علم دین حاصل کرنے مختلف علماء کرام کی خدمت میں حاضر ہونا اور ماشاء اللہ مسلسل جدوجہد کے بعد جامعہ بنوری ٹائون سے دورہ حدیث مکمل کرنا ،پھر اسی پہ بس نہیں،بلکہ لیاقت نیشنل ہسپتال کے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کی سربراہی کا فریضہ ایک عرصہ تک خوش اسلوبی اور مستعدی سے انجام دینے کے ساتھ ساتھ دینی امور کے محنت کو بھی جاری رکھنا، سینے میں ایک ٹھاٹھیں مارتا فکر کا سمندر لے کر پھرنا، کہ کیسے پوری اُمت مسلمہ عربی زبان سیکھ لے کہ اس کے بغیر ہم قرآن اور احادیث مبارکہ اور علم دین کو مضبوطی سے حاصل نہیں کرسکتے، پھر اسی دوران دعوت و تبلیغ کے لئے پوری دنیا کے اسفار کا جاری رکھنا۔
حضرت ڈاکٹر صاحب کی بھی کیا خوب شان تھی؟ یہ اللہ کے ولی اپنی گھریلو زندگی ہو،ہسپتال کی دفتری زندگی ہو،دینی مدارس کی زندگی ہو ،یا تبلیغی زندگی ، کھانا پینا اُٹھنا بیٹھناہو،یا دوست، احباب،رشتہ داروں سے میل جول ،آپ نے ہر کام سنت رسولۖ کے مطابق ڈھال رکھا تھا، حضرت اقدس کی کوشش رہی کہ وہ اپنا ہر سانس سنت کے مطابق گزاریں، احقر کو بھی ایک بار ان کے گھر کا وہ حجرہ دیکھنے کا شرف حاصل ہوا، جہاں بڑے بنگلے کا مالک ہونے کے باوجود آپ زمین پہ ایک چٹائی پہ آرام کیا کرتے اور کمرے میں ہر طرف کتابیں رکھی ہوتی تھیں ، سبحان اللہ، لگتا نہیں تھا کہ یہ کوئی بڑے ماہر جنرل فزیشن کا کمرہ ہے، مزاج میں عاجزی اور قلندرانہ پن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا،آپ نے صرف دعوت و تبلیغ پر قناعت کرنے کی بجائے اپنی والدہ صاحبہ کی نصیحت اور حکم کے مطابق ان کی چھوڑی ہوئی جائیداد کے ذریعے مدرسہ عائشہ للبنات اور مدرسہ ابن عباس کی بنیاد رکھی اور دونوں مدارس کو مکمل عربی میڈیم کے ساتھ کامیابی سے جاری رکھا، پھر اس پر بس نہیں،بلکہ مدرسہ کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے مکتبہ بشریٰ کا قیام عمل میں لانا ، جس میں ڈھیروں دینی کتابوں کی طباعت تراجم اور اشاعت کا کام الحمدللہ پوری کامیابی سے جاری و ساری ہے،حضرت اقدس نے اپنی تمام فارغ التحصیل طالبات کے ذریعہ پنڈی لاہور چکوال پشاور اور ملک کے دیگر شہروں میں مدرسہ عائشہ کی شاخیں قائم کروائیں، خواتین میں بھی فقہ کی ماہر ہوں، لہٰذا اس مقصد کے لئے خصوصی مفتیہ کے کورس منعقد کروانا بھی آپ کا بڑا کارنامہ ہے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے درس نظامی سے فارغ التحصیل طالبات کی فکر کرنا کہ عموما ًان کی عربی کمزور ہوتی ہے لہٰذا ان کے لئے خصوصی کورس منعقد کروانا، مدرسہ میں عالمات کی چھ سالہ تعلیم کے علاوہ محلے اور قرب وجوار کی خواتین کی فکر کرتے ہوئے 3سالہ فاضلہ کورس اور تجوید کی کلاسز اور مختلف مختصر کورس منعقد کروانا، جن طالبات کی شادیاں ہو گئیں، ان کے بچوں کی فکر کرنا، کہ ان کا کیا ہوگا اور اس سلسلہ میں روضہ عائشہ کا قیام عمل میں لانا، جس میں ملک میں پہلی بار بچوں کو مونٹیسوری طرز تعلیم میں مکمل عربی میڈیم سے تعلیم جاری کروائی گئی،قوم کے بچوں کے مضبوط حفظ قرآن کریم کی تعلیم کا آغاز کیا گیا ، یہ ایک منفرد سوچ بھی ان کی تھی کہ جب پرانے سلف صالحین حدیث کے حافظ ہوسکتے تھے تو ہم اپنے بچوں کو بھی حافظ قرآن کے ساتھ، حافظ الحدیث بنائیں ،اور ماشااللہ اس میدان میں بھی کامیاب تجربہ کہ روضہ عائشہ کے سینکڑوں بچوں اور بچیوں نے ہزاروں احادیث روایت اور سند کے ساتھ یاد کیں، اعلیٰ پائے کے سرجن تو آپ تھے ہی مگر حجامہ کے سنت علاج پر یقین ، ان کے ایمان کی مضبوطی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت کہ اپنے جامعہ میں باقاعدہ حجامہ کی کلاسز اور علاج کا اہتمام جس سے سینکڑوں طلباء وطالبات کو سیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی، پھر اس پر بس نہیں اب یہ فکر لاحق ہوئی کہ جو پڑھ کر جارہے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے کہ کہیں بالکل علم وعمل اور فکر کے میدان سے کٹ نہ جائیں اس سلسلہ میں سالانہ اجتماعات کا قیام جس میں ملک بھر سے جامعہ کی فارغ التحصیل طالبات ومعلمات اساتذہ کرام سب کا ملکر جمع ہونا اور اپنی اور پوری امت کی زندگی میں دین کیسے آجائے اس پر غور کرنا، پھر اس پر بس نہیں اور بیرون ملک یعنی آسٹریلیا امریکہ، انگلینڈ ،سعودی عرب اور دیگر ممالک میں مدرسہ کی شاخوں کا قیام۔ ”اللہ اکبر” ان کی دینی اور انسانیت کی بھلائی کے لئے خدمات اس قدر ہیں۔۔۔ کہ اگر حقیقت میں پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہوتا تو آج انہیں ایک نہیں بلکہ کئی صدارتی ایوارڈ مل چکے ہوتے، ڈاکٹر صاحب نوراللہ مرقدہ کو قومی ہیرو قرار دیا جاتا،لیکن افسوس کہ اس وطن میں ناچنے گانے والوں کی تو قدر کی جاتی ہے، لیکن علم وعمل کے ایسے آفتاب و مہتاب کی قدر نہیں کی جاتی کہ جن کی روشنی سے جہالت کے اندھیرے کافور ہو جاتے ہیں۔