نومبر 23, 2024

9 گز لمبی قبروں میں کون دفن ہیں؟

تحریر: قیصر عباس صابر

دنیا بھر کی طرح ملتان اور اس کے نواح میں لمبی لمبی قبریں اپنی کہانیوں سمیت موجود بھی ہیں اور آباد بھی۔ جدید تحقیقاتی وسائل ہونے کے باوجود یہ قبریں ابھی تک معمہ بنی ہوئی ہیں۔

ہر قبر کی ایک کہانی اپنے ساتھ متوازی رد بھی رکھتی ہے۔ تاریخی حوالے متنازع اور داستانیں افسانوں سے ملتی جلتی ہیں۔

ان نو گزی قبروں میں، سب سے آباد قبر مخدوم پور پہوڑاں اور کبیروالا کے درمیان واقع، حضرت علی اصحاب کی ہے جس پر دربار بھی تعمیر کیا گیا ہے اور ملحقہ آبادی صاحب مزار کے لیے عقیدت بھرے جذبات رکھتی ہے۔

علی اصحاب کا عرس ہر سال بالکل اسی طرح منایا جاتا ہے جیسے سرکار شہباز قلندر اور حضرت داتا گنج بخش کا منایا جاتا ہے، مگر یہ عرس منانے والے عقیدت مند بھی صاحب مزار کے شجرۂ نسب اور تاریخ سے ناواقف ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ قبر کب بنی۔

یہی صورت حال نو، 13 اور 18 گزی دوسری قبروں کی ہے۔ ان تمام لمبی قبروں کے بھید میں یہی یکسانیت ہے کہ کوئی ان کی تاریخ یا درست خاندانی پس منظر نہیں جانتا۔ کسی کو نہیں پتہ کہ یہ کس کی اولاد تھے اور ان کا قد لمبا تھا یا شخصی منزلت کی وجہ سے ان کی قبریں لمبی بنائی گئیں۔

اجتماعی تدفین کی وجہ سے لمبی قبروں کی کہانی بھی روایات میں موجود ہے۔ علی اصحاب کے دربار سے چند کلومیٹر دور ایک اور لمبی قبر خواجہ احمد الدین المعروف ابوبکر بخاری کی ہے جس پر نصب کتبہ پر تاریخ وصال دو سو ہجری کنندہ ہے۔ کہروڑ پکا شہر میں بھی نو گزی قبر موجود ہے۔

سیالکوٹ، لاہور اور چنیوٹ میں موجود لمبی قبروں کی کہانی بھی ایک جیسی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 757 ہجری میں مدینہ سے آ کر ہندو راجہ سالوان سے لڑنے والے شہید یہاں دفن ہیں۔ دمشق سے 45 کلومیٹر دور حضرت ہابیل کی قبر بھی غیر معمولی لمبائی کی حامل ہے۔

غریب وال کی سیمنٹ فیکٹری کے قریب 18 میٹر لمبی قبر تباہ حال مندر کے ملبے کے اوپر بنائی گئی ہے اور مشہور ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت ہیم کی قبر ہے، اسی قبر کے ساتھ ایک سو میٹر لمبائی کی حامل حیران کن قبر حضرت ہیم کے بھائی کے نام سے منسوب ہے۔

لیکن کیا ان قبروں میں دفن حضرات کے قد بھی اتنے ہی لمبے تھے جتنی یہ قبریں لمبی ہیں؟

قدیم زمانے کے کئی افراد اور پیغمبروں کی غیر معمولی طویل قامتی کے بارے مختلف روایتیں ملتی ہیں۔ لیکن انسان کے لاکھوں سال پرانے فاسلز آج بھی موجود ہیں۔

اس کے علاوہ ہزاروں سال پرانے انسان کے ڈھانچے بھی دنیا کے مختلف علاقوں سے دریافت ہوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو موجودہ انسان سے غیر معمولی حد تک بلند قامت ہو۔

اس کے علاوہ مصری فرعونوں کی ممیاں آج بھی موجود ہیں، جن کا قد آج کے انسانوں کے برابر ہے۔ مزید یہ کہ دنیا کے سرد علاقوں سے برف میں دبے ہوئے ہزاروں برس قدیم انسانوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جو آج بھی بڑی حد تک سلامت ہیں۔ ان کے قد بھی موجودہ انسان کی طرح ہیں۔

کیا نو فٹ سے لمبا قد ممکن ہے؟

جدید میڈیکل سائنس کے مطابق کسی انسان کا قد نو فٹ سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ یونیورسٹی آف آکسفورڈ سے وابستہ طویل قامت انسانوں پر تحقیق کرنے والے جان واس کے مطابق انسان کی زیادہ سے زیادہ قامت نو فٹ ہو سکتی ہے۔

برطانوی اخبار گارڈین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے لمبا قد اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ایسے انسان کے تمام جسم، اور خاص طور پر دماغ تک خون پہہنچانے کے لیے بلڈ پریشر اتنا زیادہ ہو گا کہ اس سے خون کی رگیں پھٹنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

اس کے علاوہ آٹھ فٹ سے لمبے انسانوں کے دل پر بھی بہت زیادہ دباؤ پڑتا ہے۔ بقول وائس: ’اتنے بڑے خون کے نظام کو خون کی ترسیل کرنا دل پر بےپناہ دباؤ کا باعث ہو گا۔‘

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بزرگ شخصیات کی عظمت کے اعتراف میں لمبی قبریں بنائی گئی ہیں۔

گینز بک آف ریکارڈز کے مطابق 1955 تک سب سے دراز قد آدمی ترکی کا سلطان کوسس تھا جس کا قد آٹھ فٹ آٹھ انچ تھا۔

یہ بات واضح ہے کہ لمبی قبروں میں نو یا 13 گزے آدمی دفن نہیں ہیں۔ ملتان میں 15 لمبی قبروں پر مجھے جانے کا اتفاق ہوا۔ کوئی تاریخ یا کوئی شخص ان کے خانوادے یا تاریخ وفات کی شہادت نہیں دیتی۔

دہلی دروازے کے باہر پیر گوہر سلطان کی 12 گزی قبر، اندرون پاک گیٹ محلہ جال ویڑا میں شیخ موسی کی نو گزی قبر، اندرون بوہڑ گیٹ محلہ درکھاناں میں پیر اودھم کی دس گزی قبر، بیرون بوہڑ گیٹ میں نو گز، اندرون حسین آگاہی میں 13 گز، محلہ حمام میں نو گز اور قبرستان مائی پاک دامن میں 13 گزی قبریں مقامی لوگوں کے لیے جائے عقیدت تو ہیں مگر کوئی ان کی وجۂ تعمیر سے واقف نہیں۔

دو جنوری، 1848 میں جب ملتان کے حاکم مول راج کے خلاف انگریز فوج نے کارروائی کی تو رائیڈر نام کا وقائع نگار بھی کارروائی میں شامل تھا۔

رائیڈر ’دی جنرل رپورٹ آف مائی ٹریول‘ میں لکھتا ہے کہ ’جب شہر میں زندہ لوگ مار دیے گئے تو ہم نے ان کی لاشوں کو لمبے لمبے گڑھے کھود کر دبا دیا۔‘

ایک اور جگہ رائیڈر لکھتا ہے کہ ’کسی مخبر نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو خبر دی کہ ان لمبی لمبی قبروں میں دشمنوں نے بارود دبا رکھا ہے، محلہ آغا پورہ میں ایک قبر کو کھولا گیا تو اندر سے ہڈیوں کے ڈھانچے برآمد ہوئے۔

علما کا کہنا ہے کہ تاریخ میں کئی انبیا علیہ السلام اوران کی اقوام سے متعلق لکھا ہے کہ ان کے قد بہت زیادہ طویل تھے مگر تاریخی شہادت اس کے برعکس ہے۔ جدہ میں ایک قبرستان میں نوگزی قبریں موجود ہیں۔ تاہم ہمارے یہاں موجود قبروں سے متعلق چونکہ کوئی مستند دستاویزات میسرنہیں ہیں۔

ان لمبی قبروں کی سو فیصد درست تحقیق اس لیے بھی نہیں ہو سکتی کہ مذہبی رجحان اور قبروں سے عقیدت نتائج تک پہنچنے کے رستے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

(بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو)

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

3 × 4 =