تحریر: ملیحہ لودھی
تقریباً ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں پاکستان اپنی آزادی کی 77ویں سالگرہ منائے گا۔ یہ جشن کا لمحہ ہوگا بلکہ عکاسی بھی کیوں کہ اس ملک نے بہت سے شعبوں میں قدم بڑھائے ہیں لیکن یہ اب بھی اپنی امید افزا صلاحیت حاصل کرنے سے بہت دور ہے۔
یہ اپنے بانیوں کے اس وژن سے بھی دور ہے جنہوں نے اسے عوام کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق ایک مستحکم، لبرل اور جمہوری ملک بنانے کا خواب دیکھا تھا۔
اپنی آزادی کے 77 ویں سال بھی پاکستان نازک موڑ پر کھڑا ہے، یہ عدم استحکام کا شکار ہے اور مستقبل کے بارے میں امیدیں بھی کم ہیں۔
آج اسے متعدد سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جن میں گورننس، معاشی اور سیاسی بحران، سکیورٹی، تعلیم اور بے قابو آبادی جیسے مسائل شامل ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت دینے کے لیے اکھٹے ہو رہے ہیں اور کسی ایک بحران سے کہیں زیادہ خوفناک صورت حال پیدا کر رہے ہیں۔
پاکستان کی استحکام کی خواہش گورننس کے فقدان، قانون پر عمل نہ ہونے، سیاسی خلل جہاں ملک نے فوجی اور سویلین حکمرانی کے درمیان اقتدار کو بدلتے دیکھا، کسی وژن کے بغیر قیادت اور یقیناً ایک پرتشدد پڑوس جس نے مستقل سلامتی کے مسائل کو جنم دیا ہے۔
ان عوامل کے ملاپ نے ملک کی ترقی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے اور اسی وجہ سے یہ اقتصادی ترقی اور انسانی ترقی کے تقریباً ہر انڈیکس میں اپنے علاقائی ساتھیوں اور پڑوسیوں سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
اس سب میں واحد سب سے اہم عنصر جس نے ملک کو پس پشت ڈال رکھا ہے، وہ ایک چھوٹا سا اشرافیہ کا طبقہ ہے جس نے طویل عرصے سے سیاست پر غلبہ حاصل اور ملک کی معیشت کو کنٹرول کیا ہے۔
ریاست پر اشرافیہ کا قبضہ اور قومی معاملات پر اس کے کنٹرول کا مطلب ہے کہ ایسا عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی و خوشحالی کی قیمت پر ہوا ہے۔
اس طاقت ور اشرافیہ نے ملکی مسائل کو حل کرنے پر اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے اور اپنی مراعات کے تحفظ کو ترجیح دی ہے، جس کے نتیجے میں حکمرانی کے چیلنجز شدت کے ساتھ کئی گنا بڑھ گئے ہیں اور ملک مستقل عدم استحکام اور عدم تحفظ کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔
برسوں کے دوران اس طاقتور اشرافیہ نے اصلاحات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی، چاہے زمینی اصلاحات ہوں، اقتصادی ڈھانچے میں اصلاحات یا گورننس انسٹرومنٹس میں اصلاحات۔ مطلب ہر وہ اصلاح جس سے ان کے سیاسی یا معاشی مفادات کو نقصان پہنچتا ہو۔
اس اشرافیہ نے ’کرایہ‘ حاصل کرنے جیسی خصوصیات بھی حاصل کر لی ہیں یعنی دولت کی منتقلی اور بغیر کمائے آمدن کے ذرائع حاصل کرنے کے لیے ریاستی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے سرکاری دفتر تک رسائی کا استعمال۔
یہ سویلین اور فوجی اشرافیہ دونوں کی مشترکہ خصوصیت رہی ہے۔ دونوں نے اپنے عروج کو تقویت دینے اور اپنے مفادات اور مراعات یافتہ حیثیت کے تحفظ کے لیے ’پیٹرن۔کلائنٹ‘ تعلقات کا استعمال کیا۔
سرپرستی پر مبنی سیاست جو منتخب اور فوجی آمر حکومتوں کے ذریعے یکساں طور پر چلائی جاتی ہے جو بنیادی طور پر بااثر سیاسی خاندانوں، رشتہ داریوں والے گروہوں اور مقامی بااثر افراد کے ورکنگ نیٹ ورکس پر انحصار کرتی ہے تاکہ وہ اپنی طاقت کو برقرار اور مستحکم کر سکیں۔
ظاہر ہے کہ حکمرانی کا یہ طریقہ معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے باوجود عوام کی ادھوری توقعات نے کبھی بھی اشرافیہ کو اس بات پر آمادہ نہیں کیا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کا خیال رکھتے ہوئے ہی لوگوں کے مطالبات کا بامعنی جواب دیں۔ عوام کو ہمیشہ سے ہی اہمیت نہیں دی گئی۔
اس کے نتائج بھیانک نکلے ہیں۔ پاکستان کو ایک معاشی بحران سے دوسرے معاشی بحران کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ یکے بعد دیگرے سویلین، فوجی یا ہائبرڈ حکومتوں کی جانب سے اپنے وسائل سے باہر نکلنے، داخلی وسائل کو اکٹھا کرنے اور معاشی اصلاحات کے لیے تیار نہ ہونے کی وجہ سے ملک بار بار مالیاتی بحران میں پھنس گیا، جس کے نتیجے میں پچھلی کئی دہائیوں میں تقریباً ہر حکومت نے اپنے جانشینوں کے لیے معیشت کو بدتر حالت میں چھوڑا۔
مختلف سیاسی حکومتوں نے بجٹ اور ادائیگیوں کے توازن کے دوہرے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ملکی اور بیرون ملک سے بہت زیادہ قرضے لیتے ہوئے ایک جیسی معاشی پالیسیوں پر عمل کیا۔
اس نے آج ملک کو ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے بے مثال بوجھ سے دوچار کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنے 24ویں آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے جو اس مایوس کن معاشی ریکارڈ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
طاقت ور اشرافیہ کی انسانی ترقی کے لیے کوتاہی یا بے فکری پاکستان کے مستقبل کے لیے اور بھی زیادہ بھیانک رہی ہے۔ آج ملک انسانی ترقی کے بحران سے دوچار ہے جس میں خواندگی، تعلیم، صحت، غربت اور انسانی بہبود کے دیگر پہلوؤں کے زیادہ تر اشاریے حالیہ برسوں میں بدتر ہوئے ہیں۔
یو این ڈی پی نے انسانی ترقی کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کو 193 ممالک میں سے 164 نمبر پر رکھا ہے۔
پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے ایک بار کہا تھا کہ ’تعلیم ہمارے ملک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔‘ اس کے باوجود ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہے یعنی دو کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ بچے۔
اس کا مطلب ہے کہ پانچ سے 16 سال کی عمر کے 44 فیصد سے زیادہ بچے سکول نہیں جاتے۔ خواندگی کی سطح 59 فیصد پر جمود کا شکار ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک کے 40 فیصد سے زیادہ لوگ ناخواندہ ہیں۔ ناخواندگی اور تعلیمی کمی کی اس سطح کے ساتھ کوئی بھی ملک معاشی ترقی نہیں کر سکتا۔
اس کے باوجود اسے تبدیل کرنے کی حکومتی کوششیں اس عدم موجودگی سے نمایاں ہیں حالانکہ تعلیم میں سرمایہ کاری ملک کی تقدیر بدلنے کا سب سے یقینی طریقہ ہے۔
ایک پریشان کن رجحان بچوں کی نشوونما کا بھی ہے، جسے عالمی بینک کی رپورٹ بجا طور پر ’صحت عامہ کا بحران‘ قرار دیتی ہے۔ ہیومن کیپیٹل ریویو کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 40 فیصد پاکستانی بچے نشوونما کی کمی کا شکار ہیں-
یہ ایک پریشان کن تعداد ہے۔ ملک میں غربت کی حالت بھی پریشان کن ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق غربت اب تقریباً 40 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔
ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی، جنوبی ایشیا میں سب سے تیزی سے بڑھ رہی ہے، یہ ایک اور چیلنج ہے۔ اس کے دور رس معاشی اور سماجی نتائج اور ملکی سلامتی کے حوالے سے مضمرات ہیں۔ آبادی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کو قومی سطح پر لاگو کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے لیکن حکمران اشرافیہ اس میں بھی ناکام رہی ہے۔
آبادی میں اس بے قابو اضافے سے تعلیمی مواقع اور ملازمتوں کے ساتھ آبادیاتی تباہی بھی پھیل رہی ہے۔
اس ناسازگار صورت حال کو اب نظر انداز کرنا ملک کے لیے بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اب ملک کے لیے انتخاب سخت ہے، یا تو کمزور حکمرانی، غیر فعال سیاست، معاشی جمود، داخلی سلامتی کے خطرات، تعلیم کی کمی، آبادی میں بے قابو اضافہ اور ریاستی اداروں پر عوام کے عدم اعتماد کی دلدل میں پھنسے رہنا ہے یا گورننس میں بہتری لا کر ایک نیا راستہ طے کرنا، وسیع پیمانے پر اصلاحات کا آغاز کرنا اور چھوٹے سے اشرافیہ طبقے کے مفاد کی بجائے عوامی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
ستتر سال بعد یہ انتخاب ہی ملک کی تقدیر اور قسمت کا تعین کرے گا۔
بشکریہ عرب نیوز