تحریر: اختر عباس اسدی
اہلبیت رسول(ع) سے غافل ہونے کا تسلسل ہے کہ بہت سے مسلمانوں کو آج بھی معلوم نہیں کہ رسول اللہ(ص) کے فرزند کو زہر دے کر شہیدکر دیاگیا تھا اور آج ان کا یومِ شہادت ہے۔
فرزندِرسول(ص) فرزندِ علی وبتول(ع)حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام جانشین مصطفیٰ اورپانچویں امام ہیں۔
حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے بعدامام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے ١٩سالہ دور امّامت میں بنی امیہ کے پانچ ظالم و جابر حکمرانوں کےادواردیکھے اور سیاسی اعتبار سے شدید گھٹن اور تشدد آمیزماحول میں جس وقت حصول اقتدارکے لئے بنی امیہ اوربنی عباس برسرپیکارتھے امام علیہ السلام نے پُرسکون علمی و فکری تحریک کے ذریعے اسلام و قرآن کی الٰہی تعلیمات کی حفاظت اور نشر و تبلیغ کا عظیم فریضہ انجام دیا ہے۔ امام محمد باقرعلیہ السلام نے بنی امیہ کے وظیفہ خوارملاؤں کی اسلام دشمن ،تحریفات وتاویلات کی بے شرمانہ یورش کانہایت ہی تحمل اورعلمی واستدلالی بحثوں کے ذریعے مقابلہ کیااوراُن کے غلط عقائد و نظریات کی جڑیں اکھاڑکرپھینک دیں لیکن لب ولہجے کی لطافت،معنوی وقاراوربردبارانہ رفتار کے ذریعے راہ حق و حقیقت پرچلنے والوں کے لئے انمٹ نقوش چھوڑے۔
باقر العلوم، علم زہد اور عظمت و فضیلت میں بنی ہاشم کی عظیم شخصیات میں سے ایک تھے۔ آپ سے مختلف موضوعات پر احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں فقہ، توحید، سنت نبوی، قرآن اور اخلاق جیسے موضوعات قابل ذکر ہیں۔
افسوس کہ بہت سی احادیث جو اہل بیت علیہم السلام کا ذخیرہ تھیں ہم تک نہیں پہنچی ہیں اگرچہ ان احادیث کو جمع کرنے میں بہت زیادہ زحمت اٹھائی گئی تھی۔
لیکن احادیث جن کی تعداددسیوں ہزار سے زیادہ ہے، فقط پانچویں اور چھٹے امام یعنی محمد بن علی الباقر اور جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ان میں سے ایک حصہ آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں امام ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے تھے جب بنی امیہ و بنی عباس آپس میں جنگ کر رہے تھے، جس کی وجہ سے ان تینوں اماموں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث کو اپنے آباء و اجداد سے نقل کرکے ہم تک منتقل کی ہیں۔
مسلمانوں کےعلاوہ دیگرمذاہب کےلئےبھی ہدایت کافریضہ جاری رہا
امام محمد باقر علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج اور اسلامی معارف کو وسعت دینے کیلئے دوسرے توحیدی ادیان سے علمی مناظرات انجام دئیے ہیں۔ جب آپؑ دمشق سے واپس روانہ ہونے لگے تو لوگوں کے افکار کو بیدار کرنے اور اپنے علم کو آشکار کرنے کا بہت اچھا موقع فراہم ہوا جس کی وجہ سے شام کے لوگوں کے افکار تبدیل ہوگئے۔
امام محمدباقرعلیہ السلام شام میں تھے ایک مقام پرمجمع کثیرنظرآیاآپؑ نے پوچھاتومعلوم ہواکہ نصاریٰ کاایک راہب ہے جوسال میں صرف ایک باراپنے معبدسے نکلتاہے آج اس کے نکلنے کادن ہے حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اس مجمع میں عوام کے ساتھ جاکربیٹھ گئے راہب جوانتہائی ضعیف تھامقررہ وقت پرباہرآیااوراس نے چاروں طرف دیکھااس کی نظرامام محمدباقر علیہ السلام پررک گئی بغوردیکھنےلگاکچھ دیربعدمخاطب ہوکرپوچھا
کیا آپؑ ہم میں سے ہیں۔
امام نےفرمایا: میں امت محمدیہ سے ہوں۔
پھرپوچھاآپ علماء سے ہیں یاجہلاء میں سے ہیں،باقرالعلوم(ع) نےفرمایا: میں جاہل نہیں ہوں۔
پھرراہب بولا آپ مجھ سے کچھ پوچھنےکے لیے آئے ہیں؟
امام نےفرمایا: نہیں۔
پھرراہب بولا جب کہ آپ عالموں میں سے ہیں کیا؟میں آپ سے کچھ پوچھ سکتاہوں، امام(ع) نے فرمایا: ضرورپوچھیں۔
یہ سن کر راہب نے سوال کیا:
شب وروزمیں وہ کونساوقت ہے، جس کاشمارنہ دن میں ہے اورنہ رات میں۔
باقرالعلوم(ع) نے فرمایا:
وہ سورج کے طلوع سے پہلے کاوقت ہے جس کاشماردن اوررات دونوں میں نہیں، وہ وقت جنت کے اوقات میں سے ہے اورایسامتبرک ہے کہ اس میں بیماروں کوہوش آجاتاہے، دردکوسکون ہوتاہے جورات بھرنہ سوسکے اسے نیندآتی ہے یہ وقت آخرت کی طرف رغبت رکھنے والوں کے لیے خاص الخاص ہے۔
راہب نےدوسراسوال کیا:
آپ کاعقیدہ ہے کہ جنت میں پیشاب وپاخانہ کی حاجت نہ ہوگی، کیا دنیامیں اس کی مثال ہے؟
امام (ع) نےفرمایا:
بطن مادرمیں جوبچے پرورش پاتے ہیں ان کافضلہ خارج نہیں ہوتا۔
پھرراہب بولا:
مسلمانوں کاعقیدہ ہے کہ کھانے سے بہشت کامیوہ کم نہ ہوگااس کی یہاں کوئی مثال ہے؟
امام(ع)نےفرمایاہاں ایک چراغ سے لاکھوں چراغ جلائے جاتے ہیں تب بھی پہلے چراغ کی روشنی میں کمی نہیں ہوتی۔
راہب نےپھرپوچھا:
وہ کون سے دوبھائی ہیں جوایک ساتھ پیداہوئے اورایک ساتھ مرے لیکن ایک کی عمرپچاس سال کی ہوئی اوردوسرے کی ڈیڑھ سوسال کی۔
امام(ع)نے فرمایا:
حضرت عزیزعلیہ السلام اورحضرت عزیرعلیہ السلام پیغمبرہیں یہ دونوں دنیامیں ایک ہی روزپیداہوئے اورایک ہی روزمرے پیدائش کے بعدتیس برس تک ساتھ رہے پھرخدانےحضرت عزیر(ع)نبی کومارڈالاجس کاذکرقرآن مجیدمیں موجودہے اورسوبرس کے بعدپھرزندہ فرمایا اس کے بعدوہ اپنے بھائی کے ساتھ اورزندہ رہے اورپھرایک ہی روزدونوں نے انتقال کیا۔
یہ سن کرراہب اپنے ماننے والوں کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگاکہ جب تک یہ شخص شام کے حدودمیں موجودہے میں کسی کے سوال کاجواب نہ دوں گاسب کو چاہیے کہ اسی عالم زمانہ سے سوال کرے اس کے بعدوہ مسلمان ہوگیا۔
یہ بات بہت تیزی سے دمشق میں پھیل گئی اور شام کے لوگ بہت زیادہ خوش ہوگئے، ہشام کو امام باقر علیہ السلام کی افتخار آمیز کامیابی سے خوش ہونا چاہیے تھا لیکن وہ پہلے سے بھی زیادہ امام سے ڈرنے لگا اور اس نے ظاہر سازی کو برقرار رکھنے کیلئے بہت سے ہدایا اور تحائف بھیجے،اوردمشق سے چلے جانےکاکہا۔
امام محمدباقرعلیہ السلام کی تبلیغات کااثرتھاکہ امام جعفرصادق علیہ اسلام کےہزاروں شاگردہوئےجنہوں نےزمانےمیں نام کمایا۔
امام علی علیہ السلام ہوں یاان کی اولاددشمنوں کی حسرت ہی رہی کہ کبھی ان کوبھی شکست ہو۔
امام محمدباقرعلیہ السلام مدینہ منورہ تشریف لائےتوابراہیم بن ولیدبن عبدالملک بن مروان کےذریعہ زہردلوائی گئی تین دن رات تڑپتےگزرےاورسات ذوالحجہ ١١٤ھ کوشہادت ہوئی آپ کےبڑےفرزندفرزندامام جعفرصادق علیہ السلام نےغسل وکفن نمازجنازہ کےبعدجنت البقیع میں دومسموم اماموں (امام حسن علیہ السلام اورامام زین العابدین علیہ السلام) کےساتھ دفن کردیا۔
قیامت تک یہ سوال باقی رہےگاکہ کیاوہ لوگ مسلمان تھےجورسول اللہ(ص) کی اولادپرظلم وستم ڈھاتےرہے۔
یہ وہ ہستیاں تھیں جن کی اطاعت واجب تھی جن سےمحبت واجب تھی ہےاوررہےگی۔
اللہ کی ججتیں، محافظینِ علمِ رسول،محافظین دینِ الہیہ کوتیرتلوارنیزوں اورزہرکےذریعہ قتل کیاگیامگرانکی ولایت آج بھی زندہ ہےاورزندہ رہےگی کیونکہ اہلبیت رسول(ع) کاانتخاب دنیانےنہیں کیاانہیں امامت و ولایت اللہ نےعطافرمائی اوررسول اللہ(ص)نےاعلان فرمایا،تب اللہ نےدین اسلام سےراضی ہونےاورتکمیلِ دین کااعلان فرمایا۔
قرآن اوراہلبیتِ رسول(ع)سےدوری کانتیجہ ہےکہ لوگوں کوان کی حقیقی معرفت نہ ہوسکی حالانکہ ان سےمتمسک رہےبغیرنجات ممکن ہی نہیں۔