تحریر: آصف محمود
28 مئی کو مجھے ڈاکٹرعبدالقدیر خان بہت یاد آتے ہیں۔ یہ 28 مئی ہی کی شام تھی، وہ میرے ٹاک شو میں فون پر شریک ہوئے، میں نے انہی کا ایک شعر پڑھا :
گزر تو خیر گئی ہے مری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
اور پوچھا کہ ’قوم تو آپ سے محبت کرتی ہے، وہ تو اہل کوفہ میں شامل نہیں؟‘
ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور کہا کہ ’قوم کو تو پتہ ہے وفا والے کون ہیں اور کوفہ والے کون ہیں ۔ پھر کہنے لگے کہ ایک اور شعر بھی ہے:
اس شہرلازوال میں اک مجھ کو چھوڑ کر
ہر شخص بےمثال ہے اور باکمال ہے‘
لیکن پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر اے کیو خان کو جو گھاؤ لگے ان کے داغ اس قوم کے شعورِ اجتماعی سے کبھی مٹ نہیں پائیں گے۔ اس واقعے کے 20 سال گزر گئے ہیں مگر لوگوں کو آج بھی ڈاکٹر صاحب کے اچانک ٹیلی ویژن پر نمودار ہو کر اعتراف کرنا یاد ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کی سپلائی کا رنگ چلا رہے تھے۔
ڈاکٹر اے کیو خان ہماری مجموعی ناقدری کا شکار ہوئے۔ 28 مئی کا دن منانا ہے تو ڈاکٹر خان سے پس مرگ ایک معذرت بھی واجب ہے۔ یہ فرض کون ادا کرے گا؟
28 مئی 1998 کو ہم نے ایٹمی دھماکے کیے اور 28 مئی 2024 کو ہم نے عام تعطیل کی۔ یعنی یہ بات سمجھتے سمجھتے ہمیں پورے 26 سال لگ گئے کہ 28 مئی ایک ایسا دن ہے جس پر ہمیں تعطیل کا اعلان کرنا چاہیے۔
28 مئی یقینا ایک قاابل فخر دن ہے۔ تاہم ہمیں اپنی فیصلہ سازی کے اس معیار پر فکر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا محترم احسن اقبال نے یوم اقبال پر تعطیل کی سمری پر اقبال کا ہی ایک غلط شعر لکھ کر اس سمری کو رد کر دیا کہ نہیں ہے بندہ حُر کے لیے جہاں میں فراغ ۔ سوال یہ ہے کہ اب بندہ حُر کو فراغت کیسے نصیب ہو گئی کہ اس نے 26 سال پرانی قضائیں لوٹانے کا فیصلہ کر لیا؟
یہ ایک قومی دن ہے۔ اسے سیاسی ضرورت کی نظر نہیں ہونا چاہیے ۔ سیاسی چیلنج کا جواب لمحۂ موجود کی کارکردگی سے دیا جاتا تو اچھا تھا۔ 26 سال پرانے واقعے پر اچانک رجز پڑھ لینے سے کام نہیں بنے گا۔
28 مئی مسلم لیگ ن کی زندگی میں پہلی بار نہیں آیا کہ ماحول میں وارفتگی سی گندھ گئی ہے۔ اقتدار کے کتنے ہی موسم ن لیگ پر ایسے گزرے کہ 28 مئی آیا اور اہل دربار میں سے کسی کو توفیق نہ ہو سکی کہ ای سیون کے قید خانے میں ڈاکٹر اے کیو خان کو اس دن کی مناسسبت سے چند پھول ہی بھجوا دیے جاتے۔
اہل دربار اشتہار چھپواتے تو اے کیو خان کا نام تک نہ ہوتا، قوم کا شعور اجتماعی جسے ہیرو سمجھتا ہے، ایک رسمی سا تذکرہ بھی اس شخص کا نہ ہوتا۔ محسن کشی کی یہ رسم اب بھی جاری ہو گی۔ کسی سائنس دان کا کہیں تذکرہ نہیں ہو گا۔ دربار میں قصیدے کی بزم سجے گی تو سارے سہرے نواز شریف صاحب کے کہے جائیں گے۔
ماضی کو چھوڑ دیجیے، آج بھی کیا صدر، وزیر اعظم یا کسی وزیر محترم کو یہ توفیق ہو پائے گی کہ اے کیو خان کی قبر پر چند پھول ہی رکھ آئے کہ ہم جو دن منا رہے ہیں اس کوہ کنی میں سر فہرست لکھے ناموں میں ایک نام آپ کا بھی ہے؟
نواز شریف وزیر اعظم تھے اور ان سے ان کے حصے کا کریڈٹ چھینا نہیں جا سکتا، لیکن کیا دوسروں سے ان کے حصے کا کریڈٹ چھینا جا سکتا ہے؟ بھٹو سے، ضیا الحق سے، ڈاکٹر اے کیو خان اور ان کے رفقا سے؟ کئی ہیرو تو وہ ہوں گے جو گم نام ہوں گے اور کیا عجب کہ حقیقی ہیرو وہی ہوں؟
بنانے والے جاں پر کھیل کر ملک کو ایٹمی قوت بنا گئے۔ سوال اب کے فیصلہ سازوں کا ہے۔ فیصلہ سازی میں اگر تسلسل اوربصیرت نہ ہو تو سارا سفر دائروں کی مسافت بن جاتا ہے۔
ایٹمی قوت ڈیٹرنس کا کردار ادا کرتی ہے لیکن فیصلہ سازی کا بحران درپیش ہو تو ایٹمی قوت کے ہوتے ہوئے بھی بحران قومی وجود سے لپٹ جاتے ہیں۔ ہم ایٹمی قوت ہیں لیکن کشمیر کو انڈیا نے ناجائز اور غیر قانونی طور پر اپنا حصہ قرار دے لیا ہے۔ یہ جرات وہ ان دنوں میں بھی نہیں کر سکا تھا جب ہم ایٹمی قوت نہیں تھے۔
اسی طرح ہم ایک ایٹمی قوت ہیں لیکن ایک خوف ناک معاشی بحران دامن گیر ہو چکا ہے۔ ایک ایک ارب ڈالر کے لیے کہاں کہاں ہمیں ناک رگڑنا پڑ رہی ہے اور کون جانے پس پردہ کہاں کہاں کمپرومائز کرنے پڑ رہے ہوں۔
ہمیں معیشت اور بصیرت کی دنیا میں بھی ایک 28 مئی کی ضرورت ہے۔ کیا وطن عزیز میں کوئی فرہاد ہے جو یہ کوہ کنی کر سکے؟ یا ہم 26 سال پرانی کامیابی پر ہی رجز پڑھتے رہیں گے تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو