تحریر: سید اعجاز اصغر
جسٹس منصور علی شاہ نے دانا پھینکا اور بالآخر چیف جسٹس ( دراصل چیف رجسٹرار ) یحییٰ آفریدی کو اپنے بل سے باہر آنے پر مجبور کر کے مکڑی کے جال میں پھنسا دیا ہے
قاضی عیسیٰ پارٹ ٹو یعنی یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس بنانے کے وعدے پر 26 ویں آئینی ترامیم ہوئی تھیں اور
آج تک ان غیر آئینی ترامیم کا تحفظ یہی کر رہا ہے حالانکہ اس کی اپنی حثیت ان ترامیم کے بعد ایک کاغذی چیف کی رہ گئی ہے جبکہ حقیقی اختیارات آئینی بینچ کے چیف کو منتقل ہو چکے ہیں مگر ترامیم کی ریورس ترامیم ہونگی تو یہ چیف نہیں رہے گا ۔
ملک بھر سے ہزاروں درخواستیں آئیں ، سپریم کورٹ کی پریکٹس
اینڈ پروسیجر کمیٹی میں بھی معاملہ اٹھا لیکن شروع دن سے سپریم کورٹ کے سینئر ججز کے خطوط کے باجود یحیٰی آفریدی نے اس معاملے پر سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس نہیں بلایا اور آئینی ترامیم کو تحفظ دے کر ان کا اطلاق کیا مگر اس دوران انتہائی منافقت کے ساتھ بہانے بازی کی گئی کہ ترامیم کے
بعد سپریم کورٹ کے پاس جواز نہیں ہے کیونکہ قانون سازی میں ایوان اسمبلی و سینٹ مقدم ہے۔
اس بار جسٹس منصور علی شاہ نے دانہ ڈال کر جسٹس یحییٰ آفریدی کے چہرے سے منافقت کا نقاب اتار کھینچا اور وہ ان ترامیم کو بچانے کےلیے امین الدین کے ہمراہ آئینی پروسیجر کو روندھنے پہ اتر آیا
یہ معاملہ 14 جنوری کو انکم ٹیکس کے ایک کیس میں پیش آیا جس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا تھا جس میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عرفان سعادت شامل تھے۔ اس سماعت میں جسٹس منصور علی شاہ نے نکتہ اٹھایا کہ درخواست گزار نے پچھلی سماعت پہ مؤقف اپنایا تھا کہ
عدالت کا موجودہ ریگولر بینچ ان مقدمات کی سماعت نہیں کر سکتا۔ یہی وہ پوائنٹ تھا جہاں جسٹس منصور علی شاہ نے چھکا لگا دیا اور چھبیسویں آئینی ترامیم کو ہی کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ معاملہ چھبیسویں آئینی ترامیم میں آرٹیکل 191 اے کا اٹھا جسکی بنیاد پر جسٹس منصور نے سماعت سے قبل ریگولر اور
آئینی بینچز کے اختیارات کا معاملہ کھڑا کر دیا۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے یہ معاملہ آئین کی تشریح کا ہے ، یہ عدلیہ کی آزادی کا سوال ہے، آرٹیکل 191 اے کے ذریعے عدالت سے دائرہ اختیار چھینا گیا ہے، اس عدالت کے اندر الگ بینچ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ یہ عدلیہ کی
آزادی اور اختیار کی شقوں سے متصادم ہے، ہم پہلے اس معاملے کو دیکھیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ کے سامنے یہ پوائنٹ بھی آ گیا کہ چونکہ اعتراض اور اس کی بنیاد موجودہ بینچ کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے، اس کا فیصلہ اسی بینچ کو کرنا ہوگا۔ 16 جنوری کو منصور علی شاہ نے آئینی ترامیم کےلیے پورا پھندا تیار کیا ۔
معاملہ ہاتھ سے نکلا تو آقاؤں کو ہوش آیا ۔ سپریم کورٹ رجسٹرار کے ذریعے کیس اس بینچ کے سامنے مقرر نہیں کیا گیا لیکن جسٹس منصور علی شاہ راستہ نکال چکے تھے اور آرٹیکل 191 اے کے تحت بینچ کے اختیارات پر ہی 16 جنوری کی سماعت رکھی تھی تو سولہ جنوری کو انھوں نے ریمارکس
دیے کہ سپریم کورٹ آفس سے غلطی ہو گئی ہے، اسی 3 رکنی بینچ کے سامنے کیس فکس نہیں ہوا جس نے گزشتہ سماعت میں کیس سنا تھا۔
16 جنوری کو ہی جسٹس منصور نے بینچ میں جسٹس عرفان سعادت کی بجائے اگلی سماعت میں جسٹس عقیل عباسی کو شامل کرنے کا آرڈر دیا اور ساتھ ہی رجسٹرار سپریم کورٹ کو جوڈیشل
آرڈر جاری کر دیا گیا کہ اگلی سماعت میں 20 جنوری کو کیس اسی بینچ کے سامنے مقرر کرے۔
جسٹس منصور کے بینچ کا جوڈیشل آرڈر تو ٹالا نہیں جا سکتا تھا لہذا یحییٰ آفریدی کو خود میدان میں کودنا پڑا اور اس نے 26 ویں آئینی ترامیم کا معاملہ دبانے کےلیے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین کے ساتھ مل کر کیس ہی بینچ سے بھیج کر آئینی بینچ کو بھجوا دیا۔
آج جسٹس منصور علی شاہ نے ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کو حکم دیا کہ جوڈیشل آرڈر کے باجود کیس کیوں مقرر نہیں کیا گیا اور رجسٹرار کی دھلائی کر دی۔ اس نے کہا کہ ججز کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ترمیم سے متعلقہ کیس 27 جنوری کو آئینی بنچ میں لگے گا جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ میں خود بھی کمیٹی کا رکن ہوں مجھے تو کچھ علم نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ مقرر شدہ کیس آئینی بینچ کو کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے؟ انھوں نے تو چیف جسٹس کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی، تین ذہنوں کے مقابلے میں ایک چیف جسٹس کیسے بہتر ہو سکتے ہیں ؟۔ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ چیف جسٹس سمیت کسی کے پاس مقدمہ ٹرانسفر کرنے کا اختیار نہیں۔چیف جسٹس سمیت تمام لوگ عدالتی حکم کے پابند ہوتے ہیں۔
یوں سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز نے اس معاملے کو اٹھا دیا ہے اور سپریم
کورٹ کا اردلی پھنس چکا ہے۔ ایڈیشنل رجسٹرار کو تو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے اور ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کی ہے۔
سپریم کورٹ کے اندر سینیئر ججز کا اس معاملے پہ سٹینڈ لینا 26 ویں آئینی ترامیم کو خطرے میں ڈال چکا ہے۔ جب بھی آئینی بینچ اور ریگولر بینچز کے سماعت اختیارات پہ بات آئے گی تو پھر معاملہ دور تک جائے گی۔ اب سپریم کورٹ کا اردلی اپنا انصاف چوغہ اتار کر قاضی فائز عیسیٰ بن چکا ہے تو دیکھتے ہیں کہ معاملہ کہاں تک جاتا یے۔