جون 16, 2024

یمن کی ایک صدی؛ مزاحمت، حریت اور جدوجہد کی کہانی

تحریر و ریسرچ: رضی طاہر

چھبیس مئی 1923 کو جہاں دنیا بھر سے حاجی حج کی ادائیگی کیلئے اللہ کے گھر کی طرف رواں دواں تھے وہیں پر 3605 حاجیوں کا ایک قافلہ شمالی یمن سے رواں دواں تھا جسے سعودی عرب کے تنوما کے مقام پر حملہ آوروں کا سامنا کرنا پڑا، جس میں3105یمنی شہید ہوگئے ، 150 زخمی حالت میں حج کی جانب روانہ ہوئے اور باقی شمالی یمن کی جانب لوٹ گئے، لیکن یہ دردناک کہانی تاریخی اوراق کے گرد میں کہیں کھو گئی ، اس کے مزید احوال سامنے لانے سے قبل ضروری ہے کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد یمن کے کردار کی بات کریں۔

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد دنیا نئے بلاکس میں تقسیم ہونا شروع ہوگئی، ایک جانب برطانوی راج بے لگام گھوڑے کی طرح دنیا میں پھیل رہا تھا تو دوسری جانب سووویت یونین کے بین الابراعظمی بلاک نے جنم لیا ، برطانوی بلاک نے کہیں پر کمپنیاں بنا کر سازش کے ذریعے قبضے کیے تو کہیں افواج روانہ کرکے قہر ڈھایا لیکن اس کا سب سے مضبوط ہتھیار اپنے من پسند حکمرانوں کو مسلط کرکے راج کرنا ثابت ہوا، فوجوں نے شکست کھائی، کمپنی راج سے بھی آزادی مل گئی لیکن من پسند حکمرانوں کے ذریعے بالواسطہ اقتدار کو دوام ملتا گیا، جسے کٹھ پتلی راج کہا جاسکتا تھا۔ آل سعود عالم عرب میں برطانوی استعمار کی کٹھ پتلی بن گئے ۔جہاں دیگر عرب ریاستیں برطانوی راج پر بیعت کرتی رہیں وہیں پر یمن میں مزاحمت دیکھنے کو ملی۔

یمن دو حصوں میں تقسیم تھا۔ مختصر بات کریں تو1839میں یمن کی عدن بندرگاہ پر برطانوی بحریہ نے حملہ کیا اور مزاحمت کو پسپا کرکے قبضہ جمالیا لیکن یمن کے شمال میں سلطنت عثمانیہ قائم رہی جو سلطنت کے زوال کے بعد شمالی علاقوں میں جمہوریہ یمن کے نام سے علیحدہ مملکت وجود میں آئی، اب جنوب پر قابض برطانوی راج کو یمن کے پڑوسی ملک سعودی عرب ، جسے سلطنت عثمانیہ کے دور میں حجاز مقدس کہا جاتا تھا کی حمایت ہوگئی، جہاں سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد آل سعود قابض ہوگئے، آل سعود کے برطانوی شاہی خاندان کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے شمالی یمن کیلئے زمین تنگ ہونا شروع ہوئی۔

صنعا کی تاریخی جامع مسجد میں محفوظ دستاویزات ’’یمنی حجاج کے قتل عام ‘‘ کی گمشدہ کہانی اسی اتحاد کو مضبوط بنانے کیلئے وفاداری کے طور پر یمنی عوام کے خون سے دی گئی۔ پروفیسر حمود الاحنومی کی کتاب کے مطابق 1923 میں سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز ابن سعود کے زیر سایہ کام کرنے والے کچھ گروہوں نے سالانہ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ جانے والے یمنی حجاج پر حملہ کیا ، عین اس وقت جب وہ سعودی عرب کے شہر تنومہ اور سدوان پہنچے تو الغطاث نامی گروہوں نے حجاج پر فائرنگ شروع کر دی، جس سے 3,105 پرامن حجاج شہیدہو گئے۔ مکہ سے آنے والے ایک عالم احمد ال واشلی نے بتایا کہ “زندہ بچ جانے والوں کی تعداد تقریباً 500 تھی۔ جن میں سے 150 نے حج کا سفر جاری رکھا۔”، احنومی لکھتے ہیں کہ یہ قتل عام آل سعود کا برطانوی راج کیلئے قبولیت کا امتحان تھا ، جس سے انہوں نے واضح پیغام دیا کہ وہ خطے میں ان کی ہی کٹھ پتلیاں ہیں۔

الاحنومی نے لکھا کہ آل سعود کو یہ شک گزرا کہ اہل یمن آل سعود کو حجاز مقدس کا قبضہ نہیں دیں گے جس وجہ سے انہوں نے اس انتہائی اقدام کے ذریعے یمنی حجاج کے خون کے دریا بہا دئیے۔ الاحنومی لکھتے ہیں کہ برطانیہ اور آل سعود، دونوں فریقوں نے یمنیوں کو دو مقدس مقامات کے دفاع سے روکنے کے لیے تنومہ اور صدوان کے قتل عام کا ارتکاب کیا، تاہم یہ تو سچائی ہے کہ 1923 کے اس سانحے کے بعد 1924میں آل سعود نے حرمین شریفین اور مسجد نبوی پر بھی اپنے تسلط کو قائم کرلیا تھا اور ریاض کو دارلحکومت بنایا گیا۔ تاہم چونکہ جنوبی یمن کے کچھ حصے پہلے ہی برطانیہ کے زیر تسلط تھے اور شمالی یمن میں کسی ایسی قابل ذکر تحریک کا ذکر نہیں ملا جس میں انہوں نے حجاز مقدس پر قبضہ کی خواہش ظاہر کی ہو، لگتا ہے کہ اس قتل عام کے مقاصد شمالی یمن کو برطانوی بیعت کا پیغام دینا ہوسکتا تھا۔

وقت بڑھتا گیا اور یمن اور سعودی عرب کے درمیان تنائو میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا، سعودی عرب اور یمن کے درمیان 1934میں جنگ شروع ہوگئی۔ الاحنومی کے مطابق یمن اور سعودی عرب کے درمیان جنگ کی وجوہات میں یہ قتل عام بھی ایک اہم وجہ تھی۔ اس جنگ میں ابن سعود نے یمن کے امام یحییٰ زیدی کی دستبرداری اور سرحدی علاقوں پر پانچ سالہ کنٹرول کا اعلان کیا لیکن اسے یمن نے تسلیم نہیں کیا، یمن کی زمین پہاڑی ہے جبکہ سعودی سپاہی پہاڑوں پر یمن کی افواج کا مقابلہ کرنے کیلئے ماہر نہیں سمجھے جاتے تھے۔ مارچ میں شروع ہونیوالی جنگ مئی میں ایک معائدے پر ختم ہوئی، جسے معاهدہ طائف کہا جاتا ہے۔ اس معاهدے کے بعد آل سعود کو نجران، عسیر اور جیزان چھوڑ کر حجاز اور نجد کی سلطنت میں جانا پڑا۔ 7 جولائی کو سعودی عرب کی فوجیں یمن سے نکل گئیں۔30ہزار سعودی جبکہ 35 ہزار یمنی فوجی اس جنگ میں عملی طور پر شریک تھے، سعودی عرب کو برطانوی خفیہ حمایت اور اسلحے کے فراہمی کے باوجود جیت یمن کے نام ہوئی کیونکہ یمن کے امام یحییٰ زیدی نے اپنے دئیے ہوئے مطالبات پر معاهدہ کیا۔

سعودی عرب کے ساتھ بیس سالہ جنگ بندی کے معاهدے کے بعد برطانیہ کے زیر تسلط جنوبی یمن میں تحریک اور مزاحمت کا آغاز ہوا اور یہ مزاحمت ایک طویل عرصہ جاری رہی اور بالاخر 33 سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد برطانیہ نے جنوبی یمن پر قبضہ چھوڑ دیا۔ جس میں بہت سے تاریخی کرداروں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ برطانوی راج کے خاتمے کے بعد تقریبا اگلے تیس سال تک جنوبی یمن ایک علیحدہ ملک کے طور پر قائم رہا اور1990 میں بالاخر یمن کے دونوں حصے آپس میں ضم ہوگئے۔

یمن کے دو حصوں، شمالی اور جنوبی یمن کا اتحاد 22 مئی 1990 کو ہوا جس کے نتیجے میں جمہوریہ یمن وجود میں آیا۔ اتحاد سے پہلے، شمالی یمن، سرکاری طور پر عرب جمہوریہ یمن، اور جنوبی یمن، جسے عوامی جمہوریہ یمن کہا جاتا ہے، دونوں میں الگ الگ سیاسی، اقتصادی اور نظریاتی اختلافات بحرحال موجود تھے۔ اقتصادی حالات بالخصوص و سیاسی و علاقائی عوامل و مداخلت بالعموم انضمام کی بنیادی وجہ بنی۔ دونوں اطراف کے رہنماؤں، شمالی یمن کے علی عبداللہ صالح اور جنوبی یمن کے علی سلیم البید نے اتحاد کی شرائط پر بات چیت کی۔ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو مربوط کرنے کے لیے ایک عبوری دور پر اتفاق کیا گیا۔ لیکن یمن کی مشکلات اور امتحانات ابھی باقی تھے۔ قیادت سنبھالنے کے بعد علی عبداللہ صالح انتخابات کے وعدے سے مکر گئے جس کی وجہ سے انضمام کے محض چند سالوں میں ہی یمن بدترین عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔

دنیا کی اہم ترین جغرافیائی اہمیت رکھنے والے یمن کو بیرونی سازشوں کا بدستور سامنا رہا۔ برطانوی شاہی راج پس پشت چلا گیا اور نیو ورلڈ آرڈر نے پوری دنیا پر اثرات ڈالنا شروع کردئیے اور گزشتہ کئی دہائیوں میں امریکہ بڑا کھلاڑی بن کر ابھرا۔ یمن کے پڑوسی عرب ممالک برطانیہ کے بعد امریکہ کے وفادار بنتے گئے اور اہم جغرافیائی مملکت اور آزاد پسند قوم ہونے کے ناطے اہل یمن پر ہمیشہ ہی عالمی استعمار کی نظریں جمی رہیں۔ 1994 میں یمن میں بیرونی مداخلت ہوئی اور پھر خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا ہوئی، جنوبی یمن کی علیحدگی کی تحریکیں چلنے لگیں لیکن حالات کو دو ماہ میں کنٹرول کرلیا گیا۔

1994 سے 2004 تک 10 سالوں میں یمن شدید اقتصادی مشکلات سے دو چار رہا، خطے کے ممالک سے برادرانہ تعلقات کے بجائے ڈکٹیشن کی صورتحال نے آزادی پسند اور مزاحمت کے علمبردار یمنی عوام کو حکومت کیخلاف بغاوت پر مجبور کیا اور عوامی تحریک شروع ہوگئی، جس نے 2004 میں زور پکڑا، مغربی میڈیا نے اس تحریک کو حوثی باغیوں سے مشہور کردیا لیکن سچائی تو یہ ہے کہ یہ تحریک یمن کے عام شہریوں کی تحریک تھی، جنہوں نے خودمختار یمن کا خواب دیکھا تھا۔

سال 2004 میں اٹھنے والی جمہوری تحریک کا سر کچلنے کیلئے یمن کے مسلط حکمران علی عبدالصالح نے امریکہ کی مدد مانگی، امریکہ کی پشت پناہی کے ساتھ اہل یمن میں حریت پسندوں اورانتخابات اور خودمختار یمن کے حامیوں کا مسلسل قتل عام جاری رہا ۔ اس دورا نعوامی رہنما حسین بدرالدین کو صعدہ میں شہید کردیا گیا، کہا جاتا ہے کہ انہیں ان کے 20 رفقاء سمیت انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا، جس کے بعد عوامی انقلابی تحریک کی قیادت عبدالمالک الحوثی نے سنبھال لی۔

2011 کے عرب بہار کے مظاہروں کے نتیجے میں یمن نے بھی آنکھ کھولی، بالاخر صدر صالح نے 2012 میں عوامی پریشر پر اقتدار چھوڑ دیا، ان کی جگہ ان کے نائب منصور ہادی نے لے لی، وعدے کے مطابق منصور ہادی نے محض نگران وزیراعظم مقرر ہونا تھا اور انتخابات کی جانب جانا تھا جو کہ اہل یمن کی اکثریتی رائے تھی ، کیونکہ یمنی عوام چہرے نہیں بلکہ نظام بدلنے کیلئے اٹھے تھے لہذا ایک بار پھر وعدے سے مکر جانے کے بعد تحریک جاری رہی۔ یہاں اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ یمن میں انتخابات کی راہ میں رکاوٹ پڑوسی عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب بھی تھا، کیونکہ عرب بہار کے بعد عرب ممالک میں بادشاہت کے خاتمے کی فکر لاحق ہوگئی، لہذا سعودی عرب کے ایک پڑوسی ملک میں انتخابات اور جمہوریت کے رائج ہونے سے عوامی شعور سرحد پار نکلنے کے بھی امکانات تھے، یہی وجہ ہے کہ نوے کی دہائی سے 2014 تک سعودی عرب کی مکمل کوشش رہی کہ عدم استحکام چاہے جتنا بڑھ جائے یمن انتخابات کی جانب نہ جائے۔

یمن میں عبدالمالک بدرالدین الحوثی کی زیر قیادت عوامی انقلاب کے ذریعے 2014 میں منصور ہادی کی حکومت کے مکمل خاتمے کے ساتھ سپریم پولیٹیکل کونسل کی حکومت قائم ہوئی اور دارالحکومت صنعا کا مکمل کنٹرول عوامی انقلاب کے ذریعے انقلابی قیادت نے سنبھال لیا۔ لیکن 1934 کے حملہ آور، ایک مرتبہ پھر یمن پر حملہ آور ہوگئے۔مارچ 2015 میں یمن پر سعودی عرب نے اتحادی قوتوں کے ساتھ مل کر حملہ کردیا۔ 10 عرب ممالک نے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور فرانس کے تعاون و حمایت کے ساتھ یمن پر دھاوا بول دیا۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں یمنی شہری اپنے گھروں سے بے گھر ہوکر کیمپوں میں پناہ گزین ہوگئے۔ شہری علاقوں پر فضائی حملوں، زمینی لڑائی، اور اندھا دھند حملوں کی وجہ سے دسیوں ہزار شہری شہید اور زخمی ہوئے۔ سعودی زیرقیادت اتحاد نے یمن کی بندرگاہوں پر ناکہ بندی کردی، خوراک، ایندھن، ادویات اور دیگر ضروری سامان کی ترسیل کو محدود کردیا، جس وجہ سے بدترین انسانی بحران نے جنم لیا۔ ناکہ بندی نے بڑے پیمانے پر غذائی عدم تحفظ اور غذائی قلت میں نمایاں طور پر حصہ ڈالا، جس نے لاکھوں لوگوں کو قحط کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس صورتحال کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔

سعودی فضائی حملوں نے نہ صرف فوجی مقامات کو نشانہ بنایا ہے بلکہ ہسپتالوں، اسکولوں، بازاروں اور پانی کی سہولیات سمیت شہریوں کے بنیادی ڈھانچے کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ اس نے ملک کے پہلے سے ہی کمزور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے۔ تنازعہ سے پیدا ہونے والے افراتفری سے داعش جیسے دہشتگرد و انتہا پسند گروپوں نے یمن کے کچھ حصوں میں پاؤں جمانے کی کوشش شروع کردی۔2015 سے 2022 تک جاری رہنے والی اس جنگ میں اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں 150,000 سے زیادہ افراد شہید ہوئے اور ساتھ ہی جنگ کی وجہ سے جاری قحط اور صحت کی سہولیات کی کمی کے نتیجے میں 227,000 سے زیادہ ہلاکتوں کا تخمینہ لگایا گیا ۔سیو دا چلڈرن نے جنگ سال 2018 میں جنگ اور جنگ کی وجہ سے ہونے والے قحط کے نتیجے میں 85000 بچوں کی اموات کے تہلکہ خیز اعدادوشمار جاری کیے۔

سعودی اتحاد نے امریکہ کی معاونت سے یمن کے مستعفی صدر منصورہادی کو اقتدار میں دوبارہ واپس لانے اور عوامی تحریک انصاراللہ کو کمزور کرنے کے مقصد سے یمن کی جنگ شروع کی تھی لیکن اپنے اہداف و مقاصد میں اس کو ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا اور اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے یمن مخالف اتحاد کی جارحیت خطرناک پہلو اختیار کرگئی ہے ۔ یمن کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے اصرار نے غریب آبادی والے اس عرب ملک پر پہلے سے زیادہ عرصۂ حیات تنگ کردیاہے اور یمن میں روز بروز انسانی المیوں میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ سعودی عرب کو جنگ پسندانہ پالیسی کا حامل قرار دینے والے سعودی حکام کو یمن میں بے قصور عوام کے قتل عام اور انسانی المیہ کے علاوہ اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ۔اقوام متحدہ کی ثالثی کی وجہ سے جنگ اپریل 2022 میں رک گئی اور دونوں جانب سے سیزفائر کا معائدہ ہوا،تاہم معائدے کی معیاد ختم ہونے کے باوجود دونوں فریقین کی جانب سے جنگ دوبارہ شروع نہیں کی گئی، لیکن یمن اور سعودی عرب کے درمیان کشمکش جاری رہی۔

یمن پر مسلط سعودی اتحاد کی جنگ کے بعد یمن کے بڑے آبادی والے حصے پر انصار اللہ نے حکومت شروع کردی جبکہ کچھ حصے منقسم قوتوں کے پاس ہیں جنہیں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات یا کچھ آزاد گروپ کنٹرول کرتے ہیں۔ انصار اللہ کے زیر کنٹرول شمالی یمن کا علاقہ صعدہ سے البیدہ تک پھیلا ہوا ہے جبکہ دوسری جانب الحدیدہ سے الجوف تک شہری علاقے اس میں شامل ہیں۔ پائے تخت صنعا سمیت 15 اہم ترین شہر شمالی یمن میں آتے ہیں جبکہ بحرالحمر کی الحدیدہ بندرگاہ بھی اسی کے ساتھ متصل ہے۔ جنوبی یمن میں عدن شہر اور بندرگاہ اور کچھ ملحقہ علاقوں پر منصور ہادی کی حکومت قائم ہے ، جنوبی یمن کے کچھ دیگر علاقوں میں القاعدہ سمیت عرب نواز گروپس کی انفرادی و منقسم حکومتیں ہیں۔ تاہم یمن میں بیرونی مداخلت کے خاتمے کے ساتھ ہی یمن میں انتخابات کے ذریعے اتحاد ممکن ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب کے اتحاد کی جنگ کے بعد یمن کو بدترین انسانی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق نو سال کی جنگ نے 45 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کیا ، صرف 2022 میں 234,000 افراد نقل مکانی پر مجبوری ہوئے۔ یمن بدستور دنیا میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ انصار اللہ کی حکومت کیلئے بڑی آبادی والے شمالی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد یہ سب سے بڑا مسئلہ تھا کہ ایک جانب دنیا انہیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی اور دوسری جانب داخلی انسانی بحران سے نبٹنا تھا۔ تاہم 2022 سے 2024 تک یمن نے اپنی عوام کو دوبارہ آباد کرنے اور تعمیر کی جانب توجہ دی، غیرمعمولی طور پر انتہائی کم مدت میں انصار اللہ کی حکومت اپنے لوگوں کو سنبھالنے، متحد رکھنے، بحران سےا پنی مدد آپ کے تحت نبٹنے اور اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں امن قائم کرنے میں کامیاب دکھائی دی۔ اتنے بڑے انسانی المیے کے بعد داخلی سطح پر خانہ جنگی نہ ہونا یقینا یمنی عوام کے عظیم صبر کو ظاہر کرتا ہے اور یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ یمنی قوم بیرونی مداخلت ختم ہونے پر مزید مضبوط سے مضبوط ہوسکتی ہے۔

شمالی یمن کی حکومت نے دنیا کو تب سرپرائز دیا جب انہوں نے غزہ کی حمایت میں باب المندب میں اسرائیلی بحری جہازوں کی ناکہ بندی کردی۔ یہ بات بعید از خیال تھی کہ دو سال قبل جنگ زدہ یمن اچانک اتنی طاقت سے ابھرے گا کہ وہ اسرائیل کی ہی ناکہ بندی کردے گا۔ اکتوبر میں شروع ہونے والے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تو نومبر میں یمن نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کی بندرگاہوں کی طرف جانے اور آنے والے تمام بحری جہازوں کو نشانہ بنائیں گے۔ اس سلسلے میں پہلا سرپرائز انہوں نے تب دیا جب اسرائیل سے منسلک بحری جہاز گیلکسی لیڈر کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے پانیوں میں لے آئے۔ یمن کے ان مسلسل حملوں اور اسرائیل کی ناکہ بندی کی وجہ سے اسرائیل کی ایلات بندرگاہ ویران ہوگئی اور اسرائیل کے ساتھ تجارت کیلئے بحرالحمر کے چھوٹے روٹ کے بجائے افریقہ کے سمندروں سے طویل سفر طے کرکے دنیا بھر کے بحری جہازوں نے اسرائیل جانا شروع کردیا ، جہاں 8 دن کا مختصر سفر کم از کم 38 دن میں کرنا پڑتا ہے، جس سے اسرائیل کوبدترین معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

اسرائيل کی وزارت خزانہ کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق، یمنی فوج کے حملوں سے بچنے کے لئے بحیرہ احمر کا راستہ چھوڑنے کی وجہ سے کرائے میں کئي گنا اضافہ ہو گيا ہے۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر غزہ کی جنگ اور بحیرہ احمر و باب المندب میں کشیدگي جاری رہنے کی صورت میں اسرائيل کے لئے بحری راستے کا خرچ کئي گنا بڑھ جائے گا اور ماہرین کے مطابق اسرائيل کو سالانہ ایک ارب ڈالر زيادہ کرایہ دینا پڑے گا۔اس دوران امریکہ و برطانیہ کی زیر قیادت ایک اور فوجی اتحاد یمن کے خلاف وجود میں آیا ، دسمبر سے جون تک اس اتحاد نے کئی فضائی حملے الحدیدہ ، صنعا اور یمن کے دیگر شہروں میں کیے لیکن الحدیدہ سے اب بھی اسرائیل کی ناکہ بندی جاری رکھنے کیلئے آپریشنز جاری ہیں۔

امریکی میری ٹائم ایڈمنسٹریشن کے مطابق، یمن نے نومبر سے اب تک 50 سے زیادہ بحری جہازوں پر حملے کیے ہیں، ایک بحری جہاز کو قبضے میں لیا جبکہ ایک جہاز کے مکمل ڈوبنے کی اطلاعات ہیں۔یمن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کم از کم 90 بحری جہازوں کو نشانہ بنایا ہے، کمرشل بحری جہازوں کے ساتھ ساتھ ڈسٹرائرز بھی شامل ہیں جبکہ امریکہ آئزن ہاور کو دو بار نشانہ بنانے کی بھی اطلاعات ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ یمن کی جانب سے 6 ایم کیو 9 امریکی ڈرونز کو یمن کی فضا پر مار گرانے کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔ رفح پر اسرائیلی حملے کے بعد یمن نے نہ صرف بحرالحمر بلکہ بحرہند اور بحیرہ روم کے سمندروں تک اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جس سے یمن کی میزائل صلاحیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اسرائیل کی ناکہ بندی یمن کی de مزاحمت کا نیا رخ ہے۔ 100 سالوں سے یمن اپنی حریت، آزادی ، خودمختاری اور بقا کی جنگ لڑرہا ہے۔ بیرونی مداخلت، عالمی طاقتوں کی سازشوں ، براہ راست جنگوں نے یمن کے غیور عوام کا حوصلہ پسپا نہ کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یمن کے مستقبل کا فیصلہ پڑوسی ممالک یا عالمی طاقتوں کے بجائے یمن کی عوام کو کرنے دیا جائے اور یمن کے اتحاد اور ترقی کی ضمانت شمالی وجنوبی یمن میں شفاف انتخابات کے ذریعے ایک ایسی حکومت کا قیام ہے جس پر یمن کے ہر شہری کو اعتماد ہو۔ جنوبی یمن میں منقسم طاقتیں انتخابات کی مخالف صرف اس وجہ سے ہیں کہ یہ سعودی عرب یا دیگر عرب ممالک کے مفاد میں نہیں ہیں لیکن یمن کا مفاد پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا ۔ دنیا انقلاب اور تبدیلی کوتسلیم کرے۔ یہی جمہوریت ہے اور جمہور کا فیصلہ ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

12 − two =