تحریر: قادر خان یوسفزئی
قوم ساری دنیا میں جن نامساعد حالات میں گھری ہوئی اور اسے ہر مقام پر جن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس کی وجہ سے عوام کی توقعات مایوسی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں، بدترین مون سون سیزن کے دوران بارش اور سیلاب کے تباہ کن اثرات کے بعد متاثرین کیلئے عالمی برداری نے توقع کے برخلاف امداد دینے کا اعلان کیا۔ یورپ، امریکہ عرب ممالک سمیت مغربی ممالک نے جس طرح سیلاب متاثرین کیلئے حکومت کی توقعات کے برعکس اعلانات کئے اس کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کی کاوشوں اور ذاتی دلچسپی اور محنت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، تین برس کے عرصے میں ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق امداد مہیا ہوگی، اب یہ حکومت کی کارکردگی پر منحصر ہے کس طرح شفاف طریقے سے متاثرین کی داد رسی کی جاتی ہے۔ اگر اس حوالے سے بے ضابطگی یا خدانخواستہ بد عنوانیاں سامنے آ گئی تو عالمی برادری کے ساتھ ہر پاکستانی اور اس کے ادارے کو سبکی کا سامنا ہوگا۔
عالمی امداد ملکی معیشت و سیاسی عدم استحکام کے ساتھ جڑا ہوا نہیں۔ ملکی سیاسی صورتحال اور معاشی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ تشویش ناک خبروں کے باوجود اس امر کا اطمینان بھی ہے کہ پاکستان کو ڈیفالٹ کرانے کی جو کوششیں نادان دوست کر رہے ہیں اس کے برخلاف دوست ممالک سمیت عالمی قوتیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ ایک ایٹمی طاقت ڈیفالٹ ہوجائے، کیونکہ عالمی قوتیں اس امر کو بخوبی جانتے ہیں کہ خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ ہوتا ہے اس کے مضر اثرات صرف پاکستان پر ہی نہیں پڑیں گے بلکہ ریاست میں موجود ایسے عناصر جو پڑوسی ممالک کے تعاون سے پوری ریاست میں افراتفری و خلفشار پیدا کرنا چاہتے ہیں، انہیں دنیا کے امن کو متاثر کرنے کا موقع مل جائے۔ جس کو روکنے کیلئے کھربوں ڈالر اسی دنیا کو خرچ کرنا پڑ سکتے ہیں جو پاکستان کو کمزور یا توڑنا چاہتے ہیں۔اس قسم کی ناکامیوں کے حقیقی اسباب کیا ہیں اور ان کا علاج کیا، اس پر غور کریں تو سیاسی عدم استحکام و معاشی بحران کی سچائیوں اور ڈیفالٹ کی افو ہوں سے ملک میں مایوسیاں ابھر کر فضا میں پھیل رہی ہیں، اس پر تمام سٹیک ہولڈرز کو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
ناکام تجارب ہماری نئی نسل کے دل پر منقوش کرنا وتیرہ بنتا جا رہا ہے، اس کے ازالے کیلئے اہل قلم سے لے کر با شعور عوام کو بار بار نقار خانے میں طوطی بن کر آواز اٹھانا پرتی ہے۔ دو لفظوں میں واضح ہونا چاہے کہ موجودہ حالات کے ذمے دار صرف سیاسی یا مذہبی جماعتوں کے اعمال کو نہ ٹھہرائیں بلکہ مملکت کی تمام لسانی اکائیاں اور خاموش اکثریت بھی کامل ذمے دار قرار پاتی ہیں کہ سوچے سمجھے بغیر اندھی تقلید پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ ہم رو ز دیکھتے ہیں کہ کثیر تعداد بڑے دھڑلے اور شد و مد کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں انہیں تو اب اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ اللہ تعالی جھوٹوں پر لعنت بھیج رہا ہے، حالت تو یہ ہو گئی کہ جھوٹ اس بڑے پیمانے پر بولا جا رہا ہے کہ سچ بھی جھوٹ ہی معلوم ہوتا ہے، ایک عام سے لے کر ہر طبقے حیات کا فرد، ادارہ، جماعت تنظیم یا گروہ کا بیانیہ جھوٹ کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے اور جھوٹ کے پلندے کو سچ ماننے والوں کی عقل گھاس چرنے گئی ہوتی ہے، قرآن کریم میں کھلی آیت ہے کہ ’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت‘‘ ہے۔ تو کیا ہم مسلمانوں کی کذب بانی سے خدا نخواستہ یہ نتیجہ اخذ کرلیں کہ نعوذ باللہ اسلام جھوٹ بولنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ایک اور آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ مکر و فریب کی بنائی ہوئی جھوٹی باتوں سے اجتناب کرو۔ ایک اور جگہ قرآن کریم میں حکم ہے کہ ہمیشہ عدل و انصاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات کرو۔ مزید فرمایا کہ نہ تو حق کو چھپاؤ اور نہ ہی حق و باطل کو گڈ مڈ کرو۔
اب آیئے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، بلکہ روز وہ کچھ ہوتا ہے، جس کی سختی سے معمانت کی ہے۔ ہمارا سارا وقت لغویات میں گذر جاتا ہے، اب اس کا ذمے دار کس کو ٹھہرایا جائے، اس کا فیصلہ ہم سب اپنی ضمیر کی عدالت پرچھوڑتے ہیں، لیکن یہ امر واثق ہے کہ اس کیلئے کوئی نہ کوئی دلیل تلاش کرلی جائے گی اور مورد ِ الزام ٹھہرایا جائے گا۔اس تمام سیاق و سباق کا بنیادی مقصد یہی بتانا مقصود ہے کہ من حیث القوم ہمیں اپنی درست راہ کا تعین کرکے تکالیف اور آزمائشات کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا۔ عالمی برادری کے سامنے ہم صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی ریاست کے وارث بھی ہیں، نامساعد حالات کا شکار کسی ایک فرد یا جماعت نہیں بنایا، بلکہ اس میں سب کا کچھ نہ کچھ حصہ ہے۔ ملکی معیشت کا بدترین بحران نا اہل مدبرین کی فروعی خواہشات کی بنا پر مسلط ہوا ہے۔ غیر مستحکم پالیسیاں، انا پرستی اور ملک و قوم کے بجائے اپنے اپنے ناہموار ایجنڈوں کو مسلط کرنے کی روش نے آج ملک کو اس حالت پر پہنچا دیا ہے۔
مقام افسوس یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اپنی غلط پالیسیوں کا اعتراف نہیں کرتا، اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے مزید سنگین کرنا عادت ثانیہ بن چکی ہے قوم کے رہنماؤں کو عوام سے حقیقت نہیں چھپانے چاہیے، ایسے بیانیہ پر جھوٹ کی دیوار نہ بنائی جائے جو ایک جھٹکے میں ڈھ جائے۔ قرآن کریم میں حکم ہے کہ کسی سے حسد نہ کرو، کسی غیبت نہ کو، دوسروں کے بُرے بُرے نام مت رکھو، کسی کے خلاف بغیر ثبوت یونہی کوئی عیب نہ لگاؤ، کسی سے تمسخر مت کرو، کسی کے سر بہتان مت باندھو، کسی بے گناہ پر تہمت مت لگاؤ، کسی ک متعلق بد گمانی سے کام نہ لو،غصے کی حالت میں اپنے آپ پر ضبط اور درگزر سے کام لو، سوچئے کہ مسلمان ان ہدایات پر کہاں تک عمل پیرا ہیں، سیاست دان کسی بھی درجے کے ہوں کیا وہ ان معاشرتی احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ بات بات پر بھڑک اٹھتے تو نہیں، اشتعال انگیزی اور تخریب کاریاں تو نہیں کرتے، کیا ایمان والوں کا یہ شیوہ ہے؟۔ یہ روز مرہ کی عام سی کسوٹی ہے جو خود پر اپنے لیڈروں پر لاگو کرکے موازنہ کیجئے کہ کہیں یہ قرآن کے مطابق منافقین تو نہیں کہ ان لوگوں کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے اور زبان سے کچھ اور کہتے ہیں۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے