تحریر: ماہر علی
90 یا اس سے بھی کچھ سال قبل، مغربی لبرل اسٹیبلشمنٹ نے نسل کشی کی راہ پر گامزن نازی جرمنی کو کافی حد تک نظر انداز کیا جس نے یہودیوں، کمیونسٹ، سوشلسٹ، روما (خانہ بدوش)، ہم جنس پرستوں اور ان لوگوں کو نشانہ بنایا جو ذہنی یا جسمانی طور پر معذور سمجھے جاتے تھے۔
دانستہ یا نادانستہ طور پر ان مغربی رہنماؤں نے قتل عام کے کیمپوں اور منظم نسل کشی کی سہولت کاری کی جوکہ دوسری جنگ عظیم کے سب سے زیادہ قابلِ مذمت پہلوؤں میں سے ایک ہے۔
اس جنگ کے خاتمے کا جشن، برائی پر اچھائی کی فتح کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دعویٰ مضحکہ خیز نہیں لیکن حیرت ہوتی ہے کہ جب بھی امتحان کا وقت ہوتا ہے تو کیوں مغرب اپنے ’دوبارہ کبھی نہیں‘ کے وعدے کو بھول جاتا ہے۔ شاید یہ دوغلہ پن پہلے اتنا زیادہ واضح کبھی نہیں تھا جتنا کہ یہ اکتوبر 2023ء کے بعد سے ہے کہ جب حماس کے مظالم کو دریائے اردن سے مشرق وسطیٰ کے علاقے تک یہودیوں کے لیے صہیونی ریاست بنانے کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا۔
یہ زمین سے جبری طور پر بےدخل کرنے اور قتل عام کا وہی عمل ہے جس کا آغاز 1948ء میں ہوا تھا۔ تاہم اب پوری آبادی کا صفایا کرنے کا ہدف قریب تر نظر آتا ہے کیونکہ اب صہیونیوں کو انہی ممالک کی حمایت حاصل ہے جو کبھی نازیوں کے خلاف لڑتے تھے اور اب نسل کشی ممکن بنانے میں مدد کر رہے ہیں۔
یہاں تک کہ جرمنی جو ہولوکاسٹ کا ذمہ دار تھا، آج جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں یہ دیکھنے سے قاصر ہے کہ تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ ممکنہ طور پر ان کی سیاسی اشرافیہ اس لیے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے کیونکہ آج نسل کشی انجام دینے والے انہیں لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے کبھی نازیوں کے مظالم برداشت کیے تھے۔
ساتھ ہی غزہ میں نسل کشی کے خلاف مظاہرے کرنے والے لوگوں میں ایسے لوگوں کو دیکھنا بھی انتہائی متاثر کن ہوتا ہے جو ہولوکاسٹ کے وقت شیرخوار یا کم عمر تھے یا وہ ان کی نسل جو نازی مظالم میں زندہ بچ گئے تھے۔ کاش ایسی آوازیں صرف مخصوص نہ ہوں بلکہ عام ہوجائیں۔ ایک دور تھا جب یہ تصور کرنا ممکن تھا کہ صہیونی عزائم کے خلاف مزاحمت کا آغاز اسرائیل سے ہی ہوگا۔ اب یہ پرانا تصور ایک ایسا خواب بن گیا ہے جو کبھی سچ نہیں ہوسکتا۔
اسرائیل یرغمالیوں کو بچانے کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے نقصانات کے بارے میں بہت کم اسرائیلی پریشان نظر آتے ہیں جہاں خوراک، پانی یا طبی امداد کے انتظار میں قطار میں کھڑے بچے روزانہ اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
گزشتہ اتوار کو آسٹریلوی شہر سڈنی میں فلسطین کے لیے نکالی جانے والی ہفتہ وار ریلی کے پلے کارڈز میں سے ایک پر لکھا تھا، ’وہ بہت احمق ہیں جو سمجھتے ہیں کہ نسل کشی کرنا اپنا دفاع ہے‘۔ ریلی کی تقاریر میں اسرائیل کی مضبوط حامی جلین سیگل کی ایک رپورٹ کے بارے میں بھی بات کی گئی تھی جنہیں آسٹریلوی حکومت نے یہود مخالف رجحانات کم کرنے کے لیے ایلچی کے طور پر منتخب کیا ہے۔
ان کی رپورٹ کو ماہرین اور صحافیوں نے یکساں طور پر اسرائیل پر تنقید کو خاموش کرنے کی کوشش کے طور پر بیان کیا ہے اور انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ اس میں یہود دشمنی رجحانات کی ایسی تعریف استعمال کی گئی ہے جسے اب بہت سے لوگ تسلیم ہی نہیں کرتے۔
رپورٹ پیش کرتے وقت آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیس بھی جلین سیگل کے ساتھ کھڑے تھے لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا حکومت آزادی اظہار کو محدود کرنے کے لیے ان کی قابل اعتراض تجاویز پر عمل کرے گی یا نہیں۔ جلین سیگل نے انتہائی دائیں بازو کے لابنگ گروپ سے تعلق سے انکار کیا ہے حالانکہ اسے چلانے میں ان کے شوہر کا بھی ہاتھ ہے۔
یہ ریلی جس میں سب سے زیادہ متاثر کُن تقریر ایک نوجوان یہودی کارکن نے کی، اگر جلین سیگل جیسے لوگوں کو موقع ملتا تو شاید اس ریلی کی اجازت کبھی نہ دی جاتی۔ بالکل اسی طرح ٹرمپ انتظامیہ نے آمد کے ساتھ اپنے آمرانہ اقدامات سے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ یہ اتنے سخت ہیں کہ خود کو فخریہ صہیونی کہنے والے جو بائیڈن نے بھی ایسے اقدامات نہیں کیے تھے۔
آسٹریلیا کی یونیورسٹیز پر اگر جلین سیگل کی تعریف کی بنیاد پر یہود دشمنی کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا جائے تو شاید وہ بہت سی امریکی یونیورسٹیز کی طرح زیادہ مزاحمت نہ کرپائیں۔ جب اسرائیل پر کسی بھی تنقید کی بات آتی ہے تو بہت سے ثقافتی ادارے پہلے ہی الجھن کا شکار اور محتاط رہتے ہیں اور زیادہ تر میڈیا آؤٹ لیٹس اسرائیلی لابی کے ساتھ لاتعلقی کے لیے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔
برطانیہ میں فلسطین ایکشن گروپ کو ’دہشتگرد تنظیم‘ قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ کام تو آئی ڈی ایف کے ساتھ کیا جانا چاہیے تھا۔ اور اس مضحکہ خیز فیصلے کے خلاف بولنے والے کو 14 سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
جب فلسطین کی بات آتی ہے تو آزادی اظہار پر نفرت انگیز پابندیاں ماسوائے آئرلینڈ اور اسپین کے، پورے یورپ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ نام نہاد گلوبل ساؤتھ میں اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی بھارت ہے جو کبھی فخریہ انداز میں قضیہ فلسطین کا ساتھ دیا کرتا تھا۔
جنوبی افریقہ کی جانب سے کولمبیا کے شہر بگوٹا میں رواں ہفتے طلب کیے جانے والے ’ہنگامی اجلاس‘ میں پاکستان کی بھی نمائندگی متوقع ہے۔ اس اجلاس میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانچسکا البانیس شرکت کریں گی جنہیں حال ہی میں نسل کشی میں ملوث کمرشل کمپنیز کو بےنقاب کرنے کے جرم میں امریکا کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
آسٹریلوی وزیراعظم سے ملتے جلتے نام کے برعکس، وہ انسانی حقوق کے تحفظ کی غیرجانبدار چیمپیئن بن چکی ہیں جوکہ دیگر بااثر یورپی ممالک کو ان کے اسرائیل نواز جھکاؤ اور نفرت انگیز بربریت کے بارے میں بہت کچھ سکھا سکتی ہیں۔
اسرائیلی فاشزم کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کی مغرب کی سرکاری کوششیں نہ نئی ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر حیران کن ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ ایک دن انہیں وہ وہی نظر آئیں گے جوکہ وہ حقیقتاً ہیں۔ دنیا انہیں نسل کشی پر پردہ ڈالنے والے اور اسے روکنے کے لیے انتہائی کم کوشش کرنے والوں کے طور پر دیکھے گی۔
انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے لیے کھڑے ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو ان کا پیغام واضح ہے جوکہ ’خاموش رہو اور اسے قبول کرو‘ ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ آنے والی نسلیں ان کی خاموشی اور تعصب کو بزدلی کے طور پر دیکھتی ہیں یا نہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔