تحریر: سید اعجاز اصغر
1947ء میں پاکستان نے اپنے قیام کے بعد 11 سالوں تک آئی ایم ایف کی بارہا پیشکش کے باوجود آئی ایم ایف سے کوئی قرضہ نہیں لیا تھا۔ 1958ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں آئی ایم ایف نے پہلا قرضہ پاکستان کو دیا ،پھر ایوب خان کے بعد پاکستان قرضوں کی دلدل میں بتدریج پھنستا گیا ، یہاں تک کہ زرداری اور نواز شریف کے ادوار حکومت میں 24 ہزار ارب روپے کے قرضے لئے گئے، 2019سے اپریل 2022 تک اسوقت کے حکمران طبقے نے 12 ہزار 345 ارب کے قرضے میں پاکستان کو پھنسا دیا،
وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کو 2022 سے 2059 تک 95 اعشاریہ 4 ارب ڈالر قرضہ واپس کرنا ہوگا، ایک اور اعدادو شمار کے مطابق پاکستان اس وقت تقریبا 26 ٹریلین کا مقروض ہوچکا ہے، ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ قرضے دینے والے پاکستان کے اثاثوں پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کرلیں، کیونکہ پاکستان نااہل، خود غرض، انا پرست، لالچی سیاست دانوں کی وجہ سے دیوالیہ تو ہو چکا ہے،
اس کے دیوالیہ پن ہونے کے بنیاد نہ صرف موجودہ سیاستدان ہیں بلکہ ایوب خان سے لیکر آج تک تمام سیاسی جماعتوں نے پاکستان کو بےدردی سے لوٹا اور قرضوں کی دلدل میں پھنسا دیا جس کی مثال یہ ہے کہ سابقہ وزیر خزانہ غلام محمد نے جو بیج بویا وہ پہلا بیج غلامی کا ہی تھا جس نے تا حال پوری قوم کے گلے میں غلامی کا طوق پہنا دیا ہے،
یکم ستمبر 1947ء کی سہ پہر تھی کہ عالم اسلام کی سب سے بڑی نوزائیدہ مملکت پاکستان میں دن کے 2 بجے تھے، اس وقت پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں دنیا کی اُبھرتی سپر پاور، امریکہ کا قونصل خانہ واقع تھا جسے سفارت خانے کا درجہ دیا جا چُکا تھا تاہم ابھی سفیر کا تقرر نہیں ہوا تھا، قونصل جنرل چارلس لیوس ( Charles W Lewais) ہی قائم مقام سفیر کی حیثیت سے اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے تھے۔ 15۔3 بجے کے قریب امریکی قونصل خانے میں ایک فون کال آتی ہے اور وہ فون کال پاکستانی وزیر خزانہ، غلام محمد کی ٹیلی فون کال تھی، نام تو غلام محمد تھا مگر سامراجی غلام بن گیا،
بہر کیف غلام محمد نے خواہش ظاہر کی کہ وہ اُن سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، امریکی قونصل جنرل نے حامی بھر لی تو کچھ دیر بعد ہی پاکستانی وزیر خزانہ ملاقات کرنے کے لیے تشریف لے گئے ۔ دوران ملاقات پاکستانی وزیر خزانہ نے اپنے میزبان کو بتایا کہ اُن کا ملاقات کرنے کا مقصد کیا ہے ساتھ ہی بات کے آغاز میں یہ بھی کہہ دیا کہ میں نے ابھی یہ معاملہ کابینہ میں نہیں رکھا میں دوستانہ انداز سے صرف ابھی معلومات لینا چاہتا ہوں، اس تمہید کے بعد پھر اُنہوں نے اپنی خواہش ظاہر کی کہ دراصل میری خواہش ہے کہ امریکہ ہمیں ڈالر فراہم کر دے، اور ہم اس رقم کے ذریعے اپنے حکومتی اور عسکری اخراجات پورے کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری حکومت کے پاس نقد رقم کی شدید کمی ہے اگر امریکہ ہمیں رقم دے سکے تو ہم شکر گزار ہونگے۔یہ ایک تاریخی اور یادگار ملاقات ثابت ہوئی کیونکہ اس کے بطن سے ایسے حالات نے جنم لیا جنہوں نے نوزائیدہ مملکت کو بالآخر قرضوں کی دلدل میں اتار دیا، پھر ہر دور میں قرض پہ قرض لیا گیا اور حکمران طبقے کو قرض لینے کی ایسی لت لگی جو آج تک نہیں چھوٹی… اسی لت کے باعث پاکستان آج دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چُکا ہے پاکستان کے حکمران طبقے نے خود انحصاری، اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے کے بجائے قرضے لینے کا راستہ اختیار کر لیا۔ حالانکہ پاکستان کے ابتدائی 11 سال یعنی 1958 تک پاکستان نے اپنے وسائل نہ ہونے کے باوجود، غریب ملک ہونے کے باوجود خوداری کا مظاہرہ کیا اور اپنے آپ کو خود پاوں پر کھڑا کرنے کی ٹھان لے چکا تھا، مگر بد قسمتی سے 1958 کے بعد سیاستدانوں نےخوداری کا دامن چھوڑ کر ذلت و رسوائی کا شکار نہ صرف اپنے آپ کو کردیا بلکہ پوری پاکستانی قوم کو اس ذلت آمیز دلدل میں دھکیل دیا، جس کا خمیازہ شدت کے ساتھ بھگتنا پڑ رہا ہے،سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی بحران 1958 سے لیکر آج تک انتہائی ہولناک دیکھنے میں آئے ہیں، نہ جانے یہ ذلت آمیز سلسلہ کب تک چلتا رہے گا،
اگر یہ کہا جائے کہ قرضے لینے کی اشد ضرورت تھی اس کے بغیر گزارہ نہیں تھا تو ہم اس بات کو بھی چند لمحوں کے لیے مان لیتے ہیں کہ وقت کی ضرورت نے پاکستان کو قرض لینے پہ مجبور کر دیا تھا مگر میں اہم پہلوؤں کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ٹھیک ہے قرض تو لے لیا، کیا آج تک یہ قرض لینے کے بعد پاکستان کے تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں تا حال ترقی یا خاطرخواہ تبدیلی رونما ہوئی ہے،؟
آیا غربت کا خاتمہ ہوا ہے ؟
بیروزگاری اور مہنگائی میں کمی آئی ہے؟
دہشتگردی اور بدامنی میں کمی آئی ہے ؟
بد عنوانی اور کرپشن میں کمی آئی ہے ؟
آئین و قانون کی بالادستی قائم ہوئی ہے ؟
اس کا جواب نہ تو سول اداروں کے پاس ہے نہ ہی عسکری اداروں کے پاس ہے،
ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے،
مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی، قتل و غارت، قانون شکنی، اور ریاستی اداروں میں عدم استحکام کے چرچے عام ہو چکے ہیں، ایسی ناگہانی صورت احوال میں غریب طبقہ ہی متاثر ہوتا آیا ہے،
حکمران طبقہ کے تو تمام اشرافی لوگوں کی ان من گھڑت سوچی سمجھی سازش کے تحت بیان بازیوں میں یہی ثابت ہوتا ہے کہ اُنہیں ملک و قوم کا درد ہے ،حالانکہ یہ سب جھوٹ بول رہے ہو تے ہیں، 1958 سے لیکر آج تک کے قرضوں نے پاکستانی عوام کو ریلیف دینے کی بجائے سیاست دانوں کو ریلیف دیا ہے، قرضے لینے کے باوجود 1958 کے بعد نواز شریف اور زرداری سمیت سابقہ تمام سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے اداروں کا ستیا ناس کیا ہے، جیسا کہ
زرداری دور میں ہماری انڈسٹری تباہ حال ہوئی اور بہت سی انڈسٹری بنگلا دیش شفٹ ہوئی، اگر اُن حالات کو پیش نظر رکھا جائے تو پاکستانی معیشت غلط پالیسیوں کے نتیجے میں جس شدید بحران سے دوچار ہے وہ کوئی راز ڈھکا چھپا نہیں۔ پچھلے سابقہ ادوار میں مستحکم معاشی حکمت عملی کے فقدان، حکومتوں کی بار بار تبدیلیاں،اور حالیہ سی پیک سمیت ترقیاتی سرگرمیوں کی بندش، قرضوں کے بوجھ میں اضافہ نیز گندم اور چینی کے سکینڈل ، جس سے ہر پاکستانی آگاہ ہے اور سیخ پا ہے،
سابقہ وزیر خزانہ غلام محمد نے جس غلامی کی بنیاد رکھی اس غلامی کے طوق کو سابقہ وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی نہ اتار سکے، حالانکہ عمران خان نے بلند و بانگ دعوے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ ( ہم غلام نہیں ) مگر عمران خان کی بے بسی بھی بے نقاب ہو گئی،
جب وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دور حکومت میں روس کا دورہ کیا اور سائفر کا شور مچ گیا ، پاکستان کو سستے تیل ،گندم خریدنے سے محروم کردیا گیا، ایک اور چین کا دورہ کیا جہاں اس نے بیجنگ میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی اور بعد ازاں چینی قیادت کے ساتھ مختصر ملاقاتیں بھی کیں۔ واضح رہے کہ امریکہ، برطانیہ، انڈیا، آسٹریلیا اور کینیڈا سمیت بہت سے ممالک نے ان مقابلوں کا سفارتی بائیکاٹ کیا ہے اور یہ اولمپکس کھیل کی بجائے چینی سامراج اور امریکہ کی قیادت میں چین مخالف مغربی سامراجی بلاک کے مابین بڑھتے ہوئے تضادات کے اظہار کا اکھاڑہ بن چکے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان دسمبر میں واشنگٹن میں منعقد ہونے والے”ڈیموکریسی سمٹ“میں شرکت سے بھی انکار کر دیا تھا کیونکہ امریکہ نے نہ صرف چین اور روس کو اس میں شرکت کی دعوت نہیں دی تھی بلکہ تائیوان کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے خصوصی طور پر مدعو بھی کیا گیا تھا۔ خوش کن سفارتی لفاظیوں سے قطع نظر ریاست پاکستان کے ان تمام اقدامات کا مقصد مغرب اور خصوصاً امریکی سامراج کی سرد مہری کو بیلنس کرنے کے لئے چینی سامراج کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا ہے۔ مزید برآں اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں روسی صدر پیوٹن کے متوقع دورہ پاکستان کے متعلق اڑتی خبریں بھی ریاست پاکستان کی ان کاؤنٹر بیلنسنگ کوششوں کا ہی حصہ تھیں ۔ یہاں یہ یاد دہانی کرانا اہم ہے کہ 2019ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے قرض معاہدے کے تحت پاکستان نے نہ صرف تمام سی پیک منصوبوں اور چینی قرضوں کی معلومات آئی ایم ایف یعنی امریکہ کو فراہم کیں تھیں بلکہ آئی ایم ایف کے احکامات پر بہت سے سی پیک پراجیکٹس کو سرد خانے میں بھی ڈال دیا تھا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسلام آباد کی مسلسل جاری رہنے والی منت سماجت، بحیرہ ہند میں امریکہ اور چین کی بڑھتی اسٹریٹیجک مخاصمت میں کھل کر چین کی حمایت کرنے سے احتراز اور چینی انجئینیرز کی دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکتوں نے پچھلے چند سالوں میں اسلام آباد اور بیجنگ کے تعلقات میں دراڑ ڈال دی تھی جس کا سب سے واضح اظہار پاکستان کے”ادائیگیوں کے توازن“ کے بحران میں چین کے نسبتاً سرد مہری پر مبنی رویے سے ہوتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ اور چین جیسی بڑی سامراجی طاقتوں کی بڑھتی رسہ کشی میں پاکستان جیسی کمزور ریاست کا حشر پنگ پانگ کی گیند جیسا ہو رہا ہے جو کبھی واشنگٹن کو خوش کرنے کے لئے بیجنگ سے نسبتاً دوری اختیار کرتی ہے اور جب پھر بھی امریکی سامراج راضی نہیں ہوتا تو اس کو اپنی اہمیت جتانے کے لئے بیجنگ کے تلوے چاٹنے پر اتر آتی ہے۔ ریاست پاکستان کے لئے ایک فیصلہ کن انداز میں ان دونوں سامراجی قوتوں میں سے کسی ایک کی سائیڈ لینا کم از کم مستقبل قریب میں تو ناممکن ہے۔ چین جہاں اس وقت پاکستانی افواج کو ہتھیاروں کا سب سے بڑا فروخت کنندہ ہے وہیں اسلام آباد کو خطے میں انڈیا کو کاؤنٹر کرنے کے لئے بھی چینی حمایت درکار رہتی ہے۔ مزید برآں ریاست پاکستان انفرا سٹرکچر کے منصوبوں میں مزید چینی سرمایہ کاری اور قرضوں کے حصول کی بھی متمنی ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ چین عالمی سرمایہ داری کے نامیاتی زوال اور بحران کے عہد میں ابھرنے والی ایک سامراجی قوت ہے جس کے پاس نہ تو وہ معاشی سکت ہے، نہ ہی وہ فوجی و سیاسی قوت ہے، نہ ہی وہ تکنیکی برتری ہے اور نہ عالمی مالیاتی اداروں کا ایسا سیٹ اپ موجود ہے کہ وہ پاکستان کو اس طرح سے ’گود‘ لے لے جیسا کہ امریکہ سامراج نے سرد جنگ کے دوران لیا تھا۔ اسی طرح انڈیا کیساتھ اپنے اسٹریٹیجک تضادات کے باوجود چین کی انڈیا کیساتھ باہمی تجارت کا حجم اس کی پاکستان کیساتھ باہمی تجارت کے حجم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دوسری طرف امریکی سامراج ہے جو ماضی کے مقابلے میں اپنی نسبتی کمزوری کے باوجود آج بھی دنیا کا سب سے طاقتور سرمایہ دارانہ ملک ہے اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ایک فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اے ڈی بی جیسے عالمی مالیاتی اداروں میں بھی امریکہ کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے اور ان سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے بغیر پاکستانی معیشت چند ماہ بھی نہیں گزار سکتی۔ مگر سوویت یونین اور سرد جنگ کے خاتمے، ابھرتے چینی سامراج کے ساتھ تیزی سے بڑھتے تضادات اور اس خطے میں امریکہ کے انڈیا کی جانب اسٹریٹیجک جھکاؤ اور اب افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکی سامراج کے لئے ریاست پاکستان کی اسٹریٹیجک اہمیت بہت کم ہو گئی ہے۔ رہی سہی کسر پچھلی دو دہائیوں میں افغانستان میں امریکی سامراج کے بڑھتے ضعف کا ہی فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست پاکستان کی جانب سے کھیلی گئی ڈبل گیم نے پوری کر دی ہے جسے واشنگٹن میں بیٹھے پالیسی ساز افغانستان میں اپنے آپ کو شکست خوردہ سمجھتے ہیں اور اس لئے پاکستان کو سبق سکھانے کے درپے ہیں۔ مگر ایک بات بالکل واضح ہونی چاہئے کہ امریکہ کی تمام تر سرد مہری کے باوجود آج بھی پاکستان کا سرمایہ دار حکمران طبقہ اور فوجی وسول ریاستی اشرافیہ حتمی تجزئیے میں چین کے مقابلے میں امریکہ کی غلامی کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ اس کی وجہ محض پاکستانی سرمایہ داری اور ریاست کا عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار ہی نہیں ہے بلکہ روز اول سے ہی کرائے پر دستیاب اس ریاست نے امریکی گماشتگی کو اپنا نصب العین بنائے رکھا ہے جس کے عوض ملنے والے ڈالروں کی مہک کو پاکستان کی حکمران اشرافیہ کبھی بھول ہی نہیں سکتی۔ یہاں کے حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے تمام تر تاریخی و ثقافتی تانے بانے بھی اینگلو امریکی سامراج کے ساتھ ملتے ہیں۔ ان کے کاروبار وہاں ہیں، جائیدادیں وہاں ہیں، لوٹ کا مال وہاں کے بنکوں میں ہے، بیوی بچے وہاں کے نیشنل ہیں اور خود یہ بھی خوب لوٹ مار کرنے کے بعد اپنی ریٹائرڈ لائف امریکہ یا دیگر مغربی ممالک میں ہی گزارتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ چین کے ساتھ”ہمالہ سے بلند تر“ دوستی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی دلی خواہش یہی ہے کہ کسی طرح امریکہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر انہیں گود لے لے۔ دوسری طرف پاکستان کو سبق سکھانے کی حالیہ پالیسی کے باوجود واشنگٹن بھی پاکستان کیساتھ تعلقات کا خاتمہ نہیں چاہتا بلکہ وہ تو چاہتا ہے کہ پاکستان خطے میں اس کی چین مخالف حکمت عملی کا حصہ بنے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس پورے خطے اور بحیرہ ہند میں چین مخالف گھیرا بندی کے حوالے سے امریکہ کا نامیاتی اسٹریٹیجک اتحادی انڈیا ہے اور اپنی اوقات کے حساب سے پاکستان کی حیثیت انتہائی ثانوی نوعیت کی ہے۔لہٰذا ایک تو امریکہ اس مرتبہ ریاست پاکستان کی ’خدمات‘ بہت کم کرائے پر حاصل کرنا چاہتا ہے اور دوسرا وہ چاہتا ہے کہ ریاست پاکستان خطے میں انڈیا کی بالادستی کو تسلیم کرے اور چپ چاپ دہلی کے سامنے سر جھکا دے۔ اب کم کرائے پر تو پاکستان کا حکمران طبقہ طوہا کرہاً رضامند ہو ہی جاتا مگر دوسرا معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے کیونکہ دہلی کے ساتھ’دوستی‘ کرنے کا مطلب مقدس نظریہ پاکستان اور 1947ء کے خونی انقلاب کے جواز کا خاتمہ یعنی دوسرے الفاظ میں ریاست کی نظریاتی بنیادوں کو خود اپنے ہاتھوں سے مسمار کرنا ہے۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر بات یہاں تک ہی نہیں رکے گی کیونکہ اس نظریاتی اساس کے خاتمے کے ساتھ ہی سیاست دانوں کی بالادستی، اور ان کے بےتحاشہ اخراجات و عیاشیوں اور مظلوم عوام پر جبر کا تمام تر جواز بھی ختم ہو جائے گا۔ مزید برآں انڈیا کے حکمران طبقے سے بھی کہیں بڑھ کر یہ پاکستان کا حکمران طبقہ ہے جسے اپنی طبقاتی حکمرانی برقرار رکھنے کے لئے انڈیا مخالف نعرے بازی کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ یہی وہ تما م تضادات ہیں جن کے کارن امریکہ کی گماشتگی کو جاری رکھنے کی شدید خواہش رکھنے کے باوجودآج پاکستان کی حکمران اشرافیہ تذبذب اور ہچکچاہٹ کا شکار ہے اور دونوں طرف (چین اور امریکہ) کھیلنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ واشنگٹن کی دیگر ذرائع اور بالخصوص آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کے پیچ کسنے کی حالیہ پالیسی نے ملک کے’سول بالادستی ‘ کے حامی لبرل حلقوں میں ایک غلط فہمی کو بھی جنم دیا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ امریکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ”کٹ ڈاؤن ٹو سائز“ کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک انتہائی لغو اور بیہودہ خیال ہے۔ بھلا امریکہ اس فوجی قوت کو کمزور کیوں کرے گا ، پاکستان کی افواج دنیا کی طاقتور ترین افواج ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے اس مملکت کو اسلامی جمہوریہ بنایا ہے، اس کی حفاظت اللہ تعالٰی کی ذات ہی کرے گی، انشاء اللہ کوئی تو محب وطن سیاست دان پیدا ہو گا جو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا جانثار سپاہی بنے گا اور پاکستان کو غلامی کی دلدل سے نکال لے گا، سرمایہ دار اور تاجر طبقے سے ٹیکس وصول کرے گا، ان ٹیکسوں کی بدولت پاکستان قرضوں کی دلدل سے نکلے گا، ٹیکسوں کی وصولی کے نظام کو مضبوط کرے گا تاکہ آئی ایم ایف اور سامراجی طاقتوں کے سامنے قرضے لینے کے لئے سر نہ جھکانہ پڑے، اور آزادانہ خارجہ پالیسی بنائے گا،
مگر اس وقت خطے میں ابھرنے والی محنت کش، محب وطن، جانثار، مخلص طبقے کی کسی بغاوت کو کچلنے کے لئے آج بھی امریکہ کے پاس پاکستانی سرمایہ دار حکمران، اشرافیہ، سیاسی جماعتوں سے زیادہ موزوں اوزار نہیں ہیں، کیونکہ ان سامراجی آلہ کاروں کے ہوتے ہوئے ہم کہاں کے آزاد ہیں، ؟؟؟؟؟