جاوید چوہدری
سمندروں میں انتہائی گہرائی میں ٹوری ٹاپسیس ڈوہرنائی (Turritopsis Dohrnii) نام کی ایک جیلی فش پائی جاتی ہے‘ یہ اس وقت زمین کی واحد لافانی (Immortal) مخلوق ہے‘ اسے موت نہیں آتی اور یہ ازل سے ابد تک قائم رہتی ہے۔
یہ جیلی فش 95 فیصدپانی سے بنی ہے‘ اس کا دماغ‘ دل اور پھیپھڑے نہیں ہیں‘ جسم میں صرف ایک ٹیوب ہے جس کے ذریعے یہ خوراک لیتی اور باہر نکالتی ہے‘ ٹی ڈوہرنائی اپناحیاتیاتی عمل مکمل کر کے بوڑھی ہوتی ہے‘ سمندر کے اندر گہرائی میں چٹانوں کے ساتھ چپک جاتی ہے اور پھر اچانک اس کا بوڑھا جسم انگڑائی لے کر دوبارہ جوان ہو جاتا ہے اور یہ ایک بار پھر پانی میں تیرنا شروع کر دیتی ہے‘ سائنس دان مدت سے اس کے ڈی این اے پر تحقیق کر رہے ہیں۔
اس کے لافانی ہونے کی وجوہات تلاش کر رہے ہیں‘ ان کا دعویٰ ہے ہم جس دن جیلی فش کا ڈی این اے سمجھ گئے ہم اس دن انسان کو بھی لافانی بنا دیں گے لیکن یہ معجزہ کب وقوع پذیر ہو گا؟ ہم سردست کچھ نہیں کہہ سکتے تاہم دو چیزیں ثابت ہو رہی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ’’اورہم نے ہر جان دارچیز کو پانی سے زندگی بخشی‘‘ (سورۃ الانبیاء‘ آیت 30) ٹوری ٹاپسیس ڈوہرنائی نے یہ حقیقت ثابت کر دی حیات پانی سے پیدا ہوئی اور دوسرا اگر زندگی زمین سے ختم بھی ہو جائے تو بھی یہ جیلی فش کے ذریعے دوبارہ جنم لے لے گی اور زمین کی رنگا رنگی ایک بار پھر شروع ہو جائے گی۔
آپ کے لیے شاید‘ شاید یہ بات نئی ہو ہم زمین پر حیات کا پانچواں باب ہیں‘ ہم سے پہلے اس زمین سے چار مرتبہ زندگی ختم ہو چکی ہے اور یہ مکمل خاتمے کے بعد ایک بار پھر دوبارہ سر اٹھا لیتی ہے‘ زندگی زمین سے چوتھی مرتبہ آج سے 65ملین سال پہلے ختم ہوئی تھی۔
آسمان سے دیوہیکل شہاب ثاقب ٹوٹ کر زمین پر گرا تھا اور اس نے زمین سے زندگی کاصفایا کر دیا تھا‘ میکسیکو خلیج کی پیدائش اور ڈائنو سار کا خاتمہ اسی حادثے کا نتیجہ تھا لیکن زندگی نے ایک بار پھر آنکھ کھولی اور یہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی 2022 تک پہنچ گئی‘ یہودیوں کا عقیدہ ہے وقت کا موجودہ سسٹم صرف چھ ہزار سال تک محیط ہے اور انسان نے پانچ ہزار 7 سو 79 سال گزار لیے ہیں باقی صرف 221 سال بچے ہیں‘ ان کے بعد ایک بار پھر قیامت آئے گی اور قیامت کے بعد زمین پر زندگی کا ایک اور سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
یہ باتیں کس حد تک درست ہیں میں نہیںجانتا لیکن آج کے اعدادوشمار بتاتے ہیں پاکستانیوں کی عمریں بہرحال سارک کے باقی ملکوں کے شہریوں سے کم ہیں‘ ہم پاکستانیوں کی اوسط عمر 67 اشاریہ 64سال ہے یعنی تقریباً 68 سال جب کہ ہمارے مقابلے میں بھارتی شہریوں کی اوسط عمر ساڑھے ستر سال‘ بنگلہ دیش ساڑھے 73 سال‘ بھوٹان پونے73 سال‘ نیپال پونے 71سال اور سری لنکا کی اوسط عمر ساڑھے 77سال ہے‘ ہم اگر ان اعدادوشمار کو تھوڑا سا پھیلا لیں تو ہانگ کانگ کے لوگوں کی اوسط عمر دنیا میں سب سے زیادہ ہے‘ اس چھوٹے سے ملک میں لوگ عموماً سوا 85سال زندہ رہتے ہیں۔
جاپان میں 85‘ مکاؤ میں پونے 84‘ سوئٹزرلینڈ میں سوا 84 اور سنگا پور میں اوسط عمر 84سال ہے یوں یہ سات ملک دنیا میں اوسط عمر کے لحاظ سے بلند ترین ہیں جب کہ دنیا کے 25 ملکوں کے شہری 80 سے 84 سال زندہ رہتے ہیں اور 39 ملکوں کی اوسط عمر 80سال ہے۔ہم اگر ان اعدادوشمار کا تجزیہ کریں تو ہماری عمریں یورپ‘ امریکا اور فارایسٹ کے ممالک سے بھی کم ہیں اور ہم سارک ملکوں میں بھی پست ترین مقام پر ہیں‘ ہانگ کانگ کے لوگ ہم سے 18سال زیادہ زندہ رہتے ہیں‘ ہم سارک ممالک کے دوسرے شہریوں کے مقابلے میں بھی پانچ دس سال جلدی لڑھک جاتے ہیں‘ کیوں؟میں زیادہ وجوہات نہیں جانتا لیکن جہاں تک عمومی تاثر ہے ہماری اوسط عمر میں کمی کی چھ موٹی موٹی وجوہات ہیں۔
ہماری کم عمری کی پہلی وجہ اسٹریس ہے‘ ہم اوپر سے لے کر نیچے تک اسٹریس فل زندگی گزار رہے ہیں‘ آپ صدر سے ریڑھی بان تک لوگوں کو دیکھ لیں‘ آپ کو ہر شخص کے چہرے پر تناؤ اور کندھوں پر بوجھ نظر آئے گا‘ ہمارے ملک کے خوش خال ترین لوگ بھی ٹینشن کا پہاڑ لے کر بستر سے اٹھتے ہیں اور سارا دن کوشش کر کے اس پہاڑ میں اضافہ کرتے ہیں اور پھر تھک کر ایک بار پھر لیٹ جاتے ہیں۔
ہمارے ملک کے علماء‘ پیر اور حکیم تک ٹینشن اور اینگزائٹی کی ادویات کھاتے ہیں اور یہ پڑھی لکھی بات ہے ٹینشن دنیا کی تمام بیماریوں کی ماں بھی ہے اور یہ انسانی زندگی میں کمی کا باعث بھی بنتی ہے اور ہم من حیث القوم اس کا شکار ہیں‘ دوسری وجہ عدم استحکام ہے‘ دنیا کا کوئی بھی جان دار عدم استحکام میں زندہ نہیں رہ سکتا‘ ہم انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے دماغ بھی دے رکھا ہے‘ ہم چیزوں کو وقت سے پہلے دیکھ سکتے ہیں لہٰذا عدم استحکام ہمارے لیے زہر قاتل ثابت ہوتا ہے۔
ہم ’’کل کیا ہو گا؟‘‘ اور ’’ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ جیسی صورت حال میں زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتے‘ ہمیں ہر چیز ٹائم اور شیڈول کے مطابق چاہیے ہوتی ہے اور ہم بدقسمتی سے من حیث القوم دہائیوں سے عدم استحکام کا شکار ہیں‘ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں‘ ہمارے ملک کے بڑے سے بڑے عہدیدار کو بھی یہ یقین نہیں میں کل اس عہدے پر رہوں گا یا نہیں‘ گاہک یہ نہیں جانتا میںجو چیز خرید رہا ہوں یہ مجھے کل بھی دستیاب ہو گی یا نہیں‘ تاجر کو صنعت کار پر یقین نہیں‘ صنعت کار کو بجلی‘ گیس‘ پٹرول اور پانی کا یقین نہیں اور کیا ہم یہ تمام اشیاء کل بھی عوام کو دے سکیں گے حکومت کو بھی اس کا یقین نہیں ہو گا چناں چہ ہم اوپر سے نیچے تک عدم استحکام کا شکار ہیں۔
ہمارے ملک میں چیف جسٹس کو بھی یہ معلوم نہیں ہوتا میں کل کہاں ہوں گا؟ لہٰذا اس ملک میں کسی کو بھی شہباز گل بنتے دیر نہیں لگتی‘ تیسری وجہ ہماری زندگی میں کوئی انٹرٹینمنٹ نہیں‘ مذہبی تقریریں‘ سیاسی گفتگو اور افواہیں ہماری سب سے بڑی تفریح ہوتی ہیں اور ہم جی بھر کر اس تفریح سے لطف اندوز ہوتے ہیں‘ آپ کسی بھی شخص سے مل لیں آپ کو وہ کسی نہ کسی مذہبی پیغام کا حوالہ دے گا‘ وہ کوئی نہ کوئی سیاسی فلسفہ بیان کرے گا اور آپ کے کان میں کوئی نہ کوئی افواہ انڈیل دے گا‘ ہمارے لوگوں کو یہ تک معلوم ہے چیف جسٹس آف پاکستان عمران خان کو معاف کر دیں گے۔
صدر اکتوبر میں وزیراعظم سے اعتماد کا ووٹ مانگ لیں گے اور آصف علی زرداری آرمی چیف کو زبردستی ایکسٹینشن دلوا دیں گے اور لوگ یہ بھی جانتے ہیں ہمارے موجودہ سیلاب قدرتی نہیں ہیں‘ ہمیں ایک عالمی سازش کے ذریعے پانی میں ڈبویاگیا لہٰذا آپ خود سوچیے لوگ جب کتابوں‘ اسپورٹس‘تیراکی‘ واک اور مکالمے کے بجائے سیاست‘مذہب اور افواہ کو تفریح بنا لیں گے تو پھر یہ کتنا عرصہ صحت مند رہ لیں گے؟ ہانگ کانگ میں ہر شخص کتاب پڑھتا ہے‘ ایکسرسائز کرتا ہے اور غیرضروری سیاسی گفتگو سے پرہیز کرتا ہے چناں چہ وہاں عام سا شخص بھی پچاسی چھیاسی سال صحت مندانہ زندگی گزار لیتا ہے جب کہ ہم ان تمام علتوں سے پرہیز کرتے ہیں‘ چوتھی وجہ ہم خوراک کے نام پر زہر کھا رہے ہیں۔
پاکستان میں کسان کو بھی خالص اناج‘ گوالے کو بھی ملاوٹ سے پاک دودھ‘ قصائی کو بھی صحت مند گوشت‘ اور باغبان کو بھی خالص پھل نہیں ملتا‘ آپ بڑے سے بڑے ریستوران میں چلے جائیں‘ آپ کو اے کوالٹی خوراک نہیں ملے گی‘ ہم گوشت‘ سبزیوں‘ دالوں‘ اناج اور کوکنگ آئل کی شکل میں زہر کھاتے ہیں‘ ہمارے ڈاکٹرز تک اپنے لیے ادویات دوسرے ملکوں سے منگواتے ہیں اور منرل واٹر بھی گرم کر کے پیتے ہیں چناں چہ پھر ہماری زندگی طویل کیسے ہو سکتی ہے؟ پانچویں وجہ ہم من حیث القوم منفی اور احسان فراموش ہیں‘ آپ کسی محفل میں چلے جائیں آپ کو ہر شخص دوسرے کے بارے میں منفی بات کرتا ملے گا‘ لوگ اب اپنے بارے میں بھی اچھی بات نہیں کرتے اور ہم اوپر سے لے کر نیچے تک احسان فراموش بھی ہیں‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے۔
کیا ہم نے قائداعظم سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر تک کسی شخص کے احسان کا بھرم رکھا‘ کیا ہم نے اپنے اوپر احسان کرنے والے کسی شخص کی عزت کی‘ ہمیں مشکل وقت میں جو بھی شخص سہارا دیتا ہے ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ اور یہ بھی لکھی پڑھی بات ہے احسان یاد رکھنے والوں اور دوسروں کے بارے میں مثبت سوچنے والوں کی عمریں لمبی ہوتی ہیں اور چھٹی اور آخری چیز‘ دنیا میں شاکر لوگ اچھی اور طویل زندگی گزارتے ہیں‘ شکر خوشی اور عمر دونوں میں اضافہ کرتا ہے لیکن ہم اس معاملے میں کنجوس قوم ہیں‘ ہمیں جو مل گیا ہم اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور پوری زندگی اس کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں جو ہمیں نہیں مل سکا چناں چہ پھر ہماری زندگی میں برکت کہاں سے آئے گی؟
آپ بھی اگر اپنی زندگی میں یہ چھ تبدیلیاں کر لیں تو آپ بے شک جیلی فش نہیں بنیں گے لیکن آپ ان شاء اللہ ہانگ کانگ کے کروڑوں وانگ اور چائی کی طرح 85سال تک صحت مند اور خوش گوار زندگی ضرور گزاریں گے۔