ستمبر 5, 2024

ھل من ناصر ینصرنا کی صدائیں (پہلا حصہ)

ھـــل من ناصـــر ینصـــرنا:;  اس جملے کا کیا مطلب ہے؟ کیا آپ (امام حسینؑ) کے علم میں نہیں تھا کہ اب آپ کی مدد کرنے والا کوئی نہیں؟ درحقیقت امام عالی مقام نے یہ سوال انسان کی مستقبل کی تاریخ سے کیا ہے۔ اس سوال کے مخاطب آئندہ آنے والے اور ہم لوگ ہیں۔ اس سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسینؑ اپنے پرستاروں سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ اس سوال کے ساتھ انہوں نے ان تمام لوگوں کو دعوت دی ہے، جن کے دلوں میں شہادت اور شہیدوں کیلئے عزت موجود ہے۔
لیکن ہم نے امام کی دعوت، ان کی جانب سے مدد کی توقع اور ان کے پیغام کو جو ہر دور اور ہر نسل کے شیعہ سے مدد کے طالب ہیں، پوری طرح اہمیت نہیں دی ہے۔ اس کی بجائے ہم دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ امام عالی مقام کو فقط آہ و بکا اور آنسوئوں کی ضرورت ہے اور وہ مزید کچھ نہیں چاہتے اور ان کا کوئی پیغام بھی نہیں۔ وہ فوت ہوچکے ہیں اور انہیں عزاداروں کی ضرورت ہے اور وہ گواہی دینے والے شہید نہیں ہیں اور ایسی شخصیت بھی نہیں ہیں، جنہیں ہر دور اور ہر مقام پر پیروکاروں کی ضرورت ہو!!
ہر انقلاب کے دو رخ ہوتے ہیں، اس کا ایک رخ خون اور دوسرا رخ پیغام ہوتا ہے۔ شہید کے معنی حاضر اور موجود ہونے کے ہیں۔ شہید اسے کہتے ہیں، جو اس حق و صداقت کی خاطر جسے دبایا جا رہا ہو اور ان قدروں کی خاطر جنہیں مٹایا جا رہا ہو، اپنے عشق کی بنا پر شعوری طور پر جہاد کرکے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے اور سرخ موت کا انتخاب کرے۔ جو لوگ اپنے لیے ذلت برداشت کرتے ہیں کہ زندہ رہیں، ان کا شمار تاریخ کے خاموش اور ناپاک مردوں میں ہوتا ہے۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی تھے، جنہوں نے بخوشی موت کا انتخاب کیا اور امام حسینؑ کے ساتھ قتل ہونے کیلئے مقتل میں آگئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ جاں باز ابھی تک زندہ ہیں، جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں یا وہ لوگ زندہ ہیں، جنہوں نے امام حسینؑ کا ساتھ چھوڑ دیا اور اپنی جانیں بچانے کیلئے یزید کی اطاعت اور ذلت کی زندگی برداشت کرلی؟ ہر کوئی ایک متحرک لاش کو زندہ ہونا نہیں سمجھتا۔ کیا وہ لوگ زندہ ہیں، جو امام حسینؑ کے زندہ ہونے اور گواہ ہونے کو ان کے پورے وجود مقدس کے ساتھ دیکھتے ہیں اور اسے محسوس کرتے ہیں یا وہ لوگ زندہ ہیں، جنہوں نے خود کو ذلت کے سپرد کر دیا، تاکہ کچھ دن اور جی لیں۔؟
شہادت اس دلیل کو تسلیم نہیں کرتی کہ فتح فقط دشمن پر تسلط حاصل کرنے کا نام ہے۔ شہید وہ ہوتا ہے، جو دشمن پر غلبہ نہ پاسکنے کی صورت میں خود اپنی موت کے ذریعے فتحیاب ہوتا ہے اور اگر دشمن کو شکست نہ دے سکے، تب بھی اسے دنیا کی نظروں میں ذلیل ضرور کر دیتا ہے۔ ایک شہید کی شہادت کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ وہ ایک نسل کو تازہ ایمان بخشتا ہے اور یوں ہمیشہ موجود اور زندہ جاوید رہتا ہے۔ کون غیر حاضر ہے۔؟
 امام حسینؑ نے ہمیں اپنی شہادت سے بھی زیادہ اہم ایک اور سبق دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے حج بھی مکمل نہیں کیا اور شہادت کو حج پر فوقیت دی۔ انہوں نے حج مکمل نہیں کیا، حالانکہ حج ان کے نانا اور والد کی جدوجہد کی تجدید ہے اور اس کے بجائے شہادت کا انتخاب کیا۔ انہوں نے حج اس لیے مکمل نہیں کیا، کیونکہ وہ تاریخ کے تمام حاجیوں اور حضرت ابراہیمؑ کے تمام ایمان دار پیروکاروں کو بتا دینا چاہتے تھے کہ اگر امام نہ ہو تو کوئی ہدف بھی باقی نہیں رہتا اور اگر حسینؑ نہ ہو اور یزید موجود ہو تو اللہ کے گھر کا طواف ایک بت خانے کے طواف سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔
جن لوگوں نے آپ کی عدم موجودگی میں خانہ کعبہ کا طواف جاری رکھا، ان کی حیثیت ایسی ہی تھی جیسے وہ قصر خضرا کا طواف کر رہے ہوں، کیونکہ شہید وہ ہے جو موجود ہو اور وہ حق و باطل کے تمام منطقوں میں ظلم اور عدل کے مابین لڑائی میں موجود ہوتا ہے۔ وہ موجود ہوتا ہے اور اس کی موجودگی کا مقصد بنی نوع انسان کو یہ پیغام دینا ہوتا ہے: ” اگر تم رزم گاہ حق و باطل میں موجود نہیں تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم کہاں ہو۔ اگر تم اپنے دور میں حق و باطل کی لڑائی کی گواہی نہ دو تو پھر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم کیا کر رہے ہو، یعنی تم نماز پڑھ رہے ہو یا لہو و لعب میں مصروف ہو ایک ہی بات ہے۔”
ہر انقلاب کے دو رخ ہوتے ہیں: ایک خون اور دوسرا پیغام۔ امام حسینؑ اور ساتھیوں نے پہلے مشن یعنی خون کا انتخاب کیا۔ شہادت کا دوسرا مشن بنی نوع انسان تک پیغام پہنچانے کا کام حضرت زینب کبریٰ ؑ کے سپرد کیا گیا۔ اگر خون کا کوئی پیغام نہ ہوتا، تاریخ اس کے بارے میں خاموش رہے گی۔ اگر خون اپنا پیغام تمام نسلوں تک نہ پہنچائے تو جلاد اسے ایک مخصوص وقت اور دور میں مقید کر دے گا۔ اگر حضرت زینبؑ کربلا کا پیغام تاریخ تک نہ پہنچاتیں تو کربلا خاموش رہتی اور یہ پیغام ان لوگوں تک نہ پہنچتا، جنہیں اس کی ضرورت تھی۔ بنی نوع انسان کے کان ان حضرات کے پیغام سے نا آشنا رہتے، جنہوں نے خون کی زبان میں گفتگو کی تھی۔ اسی بنا پر حضرت زینبؑ کی ذمہ داری انتہائی سنگین اور مشکل تھی۔ ہر وہ شخص جس نے حق کو قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے، وہ جانتا ہے کہ شیعہ کا فریضہ کیا ہے اور انسانی آزادی کا مطالبہ کیا ہے۔ ؟
یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ “کُلُّ یَوْمٍ عَاشُورَا و کُلُّ اَرْضٍ کَرْبَلاء” تاریخ کی دائمی جنگ میں ہر دن عاشورا اور ہر زمین کربلا ہے، لہٰذا اگر وہ غیر حاضر نہیں ہونا چاہتا اور ہمیشہ رہنا چاہتا ہے تو اسے دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا:
خون کا۔۔۔۔۔ یا پیغام رسانی کا
حسینیت۔۔۔۔۔ کا یا زینبیت کا
امام حسینؑ کی طرح مرنے کا یا حضرت زینبؑ کی طرح زندہ رہنے کا
 جو مرگئے انہوں نے حسینی کردار ادا کیا
جو زندہ ہیں انہیں زینبی کردار ادا کرنا چاہیئے
جو نہ حسینی کردار ادا کریں اور نہ زینبی، وہ یزیدی ہیں ،
یہی وجہ ہے کہ آج فلسطین کے غزہ میں ایک اور آج کے دورکاخوفناک کربلا کا میدان لگا ہوا ہے، کربلا سن 61 ہجری سے لیکر 2024 تک کشمیر، فلسطین، بوسنیا عراق، شام، یمن کی وادیوں میں آج کے دور کا کون حسین ہے ؟
 اور کون یزید ہے  ؟
سن 61 ہجری کے یزید پر لعنت بھیجنا آسان ہے اور آج کے یزید کی شناخت کرنا اور اس کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا بہت مشکل ہے، سن 61 ہجری کا استغاثہ بزبان نواسہ رسول غزہ و کشمیر کے لئے بھی تھا نہ کہ فقط سن 61 ہجری کے کربلا تک محدود تھا، اس استغاثہ کی آواز آج کے اقتدار کے ایوانوں میں کیوں نہیں سنی جارہی؟
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

one × one =