نومبر 20, 2024

گلگت بلتستان کو اندلس بنانے کے لئے عالمی استکباری منصوبے کا آغاز

تحریر: ڈاکٹر علی محمد جوادی

آج کے یورپین ملک اسپین کو کسی زمانے میں اندلس کہا جاتا تھا۔ اس ملک پر مسلمانوں نے تقریباً 800 سال حکومت کی، اور اسلامی طرز تمدن اور تعمیرات کے آثار اب بھی اسپین کی ہر جگہ دیکھیےجا سکتے ہیں۔ عیسائیوں نے اس ملک پر قبضہ کرنے کے لئے کئی بار حملہ کیا لیکن مسلمانوں نے شجاعت اور غیرت کا مظاہرہ کر کے مزاحمت کی اور انہیں شکست دی۔

اندلس کو فتح کرنے میں عیسائیوں کی پے در پے ناکامیوں کے بعد، انہوں نے اس ملک میں ثقافتی یلغار کا سہارا لیا اور باقاعدہ پلان کے تحت یورپی برہنہ لڑکیوں کو اندلس بھیج دیا۔ ان لڑکیوں نے مسلمان دیندار نوجوانوں کے عقائد اور افکار کو بگاڑ کر آہستہ آہستہ جسم فروشی، شراب نوشی اور فقر و فحشا میں مبتلا کر دیا اور یہ گناہ اتنی تیزی سے پھیل گیا کہ اندلس کے مسلمان رہنماوں کے بھی دامن گیر ہوگیا۔ جب گناہ اور غفلت کی وجہ سے اندلس کے مسلمان عوام اور رہنماوں میں دین ، ناموس اور وطن سے دفاع کی غیرت اور حمیت ماند پڑگئی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی شجاعت بھی ختم ہوگئی تو 1492ء میں عیسائیوں کے ایک ہی فوجی حملے نے مسلمانوں کو خفت بار شکست سے دچار کردیا۔ ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان مارے گئے اور باقیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اب عیسائیت کی حکمرانی میں مسلمانوں کی ذلت بار زندگی کا آغاز ہوا ۔ ہتھیار ڈال کر زندہ بچنے والے مسلمانوں کو یا تو بتدریج قتل کر دیا گیا یا پھر انہوں نے خوف کی وجہ سے عیسائیت اختیار کر لی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد عیسائیوں نے ان پر بھی رحم نہیں کیا اور ان کے جدید عیسائی مذہب کو تقیہ قرار دے کر سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا یا وہاں سے ہجرت پر مجبور کر دیاگیا۔

فرانسیسی مورخ ’’گسٹاو لی بون‘‘ لکھتے ہیں: 1492ء میں جب فرڈینینڈ (عیسائی فوجی کمانڈر) نے عربوں سے اندلس کو چھینا تو اس نے سب سے پہلے وہاں کے عربوں کے ساتھ زبان اور مذہب کی آزادی پر معاہدہ کیا تھا۔ لیکن 1499 میں اس نے مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو توڑا اور انہیں تنگ کرنا شروع کر دیا اور آخر کار اس نے نئے آنے والے عیسائیوں کو اس بہانے سے جلانے کا حکم دیا۔ کہ وہ واقعی عیسائی مذہب میں تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ کام آہستہ آہستہ اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ ایک ساتھ کئی ملین عربوں اور مسلمانوں کو جلا نہیں سکتے تھے۔

یہ ایک ایسی بہادر مسلم قوم کی تقدیر تھی جو کئی سالوں تک اپنے دین و مذہب کے سائے میں بڑی ترقی کی راہ پر گامزن تھی۔ اور تہذیب و تمدن کی بہترین مثالیں اور آثار اپنے پیچھے چھوڑ گئی لیکن جب سے ان میں طرح طرح کے گناہ پھیل گئے اور دین مقدس اسلام کے احکام کو پس پشت ڈالا، ان کی تباہی اور زوال کے اسباب فراہم ہو گئے تو دشمن نے موقع پاکر ان پر غلبہ حاصل کیا اور وہ بدترین حالات کے شکار ہو گئے۔

اندلس کے زوال کی کہانی آج کے مسلمانوں کے لئے درس عبرت ہے۔

ایسا لگ رہاہے کہ پاکستان کا حساس اور انتہائی اہمیت کا حامل خطہ گلگت بلتستان کو بھی اندلس بنانے کے لئے استکبار نے اپنا نقشہ تیار کیا ہے۔ گلگت بلتستان چند جہت سے اہمیت رکھتاہے جس کی وجہ سے اس علاقے پر عالمی استکبارکی نظریں جمی ہوی ہیں۔

گلگت بلتستان، محل وقوع کے حوالے سے دنیا کی ابھرتی ہوی دو اقتصادی و افرادی طاقتیں چین اور ھندوستان کا ہمسایہ ہے ۔ آبادی کی نوعیت کے اعتبار سے شیعہ اثناعشری اکثریتی خطہ ہے جو کہ دین اور دینی احکام کے سختی کے ساتھ پابند ہیں۔ سیاحتی اعتبار سے دنیا کا منفرد اور سحر انگیز مناظر کا حامل علاقہ ہے ۔ دنیاکی بلند ترین پہاڑوں میں سے اکثریت اس علاقے میں موجود ہیں۔ دنیا کا دوسرا بلند ترین اور خوبصورت ترین بہاڑی میدان، دیوسائی اسی خطے میں ہے۔ چین پاکستان اکنامک کوریڈور سی پیک بھی اسی خطے سے گذر تاہے۔

یہیں چیزیں ہیں جوکہ عالمی استکباری قوتوں کی توجہ اور لالچ کا مرکز بنتا جارہاہے اسی لئے اپنے مستقبل کے شیطانی مفادات کے خاطر، مختلف انداز اور بہانوں سے اس کی آبادی مخصوصا نئی نسل کو بے دین بنانے، فحاشی پھیلانے اور شراب جیسے نشہ آور چیزوں کو معاشرے میں عام کرنے کے لئے نا محسوس طریقے سے زمینہ بنایا جارہا ہے۔

دو سال قبل گلگت بلتستان اسمبلی میں ۔ مخصوص ہوٹلوں اور ریسٹورینٹس کو شراب فروشی کا پرمٹ دینے کا بل پاس کرنا، سکولوں ، کالجوں میں ناچ اور ڈانس سکھانے کی کلاسیں اور یونیورسٹیز میں موسیقی کی محفلیں سجانے کے لئے محکمہ تعلیم اور وزارت علوم کی طرف سے نوٹیفکیشن دینے کی تیاریوں کی باتیں۔

گلگت بلتستان کی مختلف جگہوں میں علاقائی ثقافتی فیستیولز کے نام سے غیر دینی اعمال انجام دیکر فحاشی پھیلانا۔ اور اب گرین ٹوریزم کمپنی کے نام سے خطے کی سیاحتی خوبصورت جگہوں اور مقامات پر قبضہ کرنا، یہ سب کچھ گلگت بلتستان کو اندلس بنانے کے لئے منصوبے کا آغاز ہے۔ علاقے میں پیسے اور ملازمتیں آنے کی لالچ دیکر مختلف بہانوں سے سیاحتی مقامات کو اپنے کنٹرول میں لیا جارہاہے تاکہ ان سے اپنے مذموم مقاصد کے لئے بغیر کسی مشکل کے استفادہ کر سکیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان نے اس خطے کے سیاحتی اہم مقامات کو آئی ایم ایف کے لئے بیچا ہے مثال کے طور پر بتایا جاتاہے کہ 350 مربع کلو میٹر دیوسائی کا مئدان آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے اور گرین ٹوریزم کمپنی آئی ایم ایف کی ذیلی کمپنی ہے۔ یہ کمپنیاں صرف اپنا قرضہ حاصل کرنے کے لئے یہاں آکر سرمایہ کاری نہیں کرتی ہیں بلکہ بقول سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق، آئی ایم ایف کی طرف سے قرضہ دینے کا نامحسوس ہدف بھی ہوتاہے اور وہ ہدف اس علاقے میں دینی مذہبی تقافت کی جگہ مغربی کلچر کو فروغ دینا ہے اور پھر معاشرے کے نوجوانوں میں آہستہ آہستہ عقیدتی، فکری، اخلاقی اور ثقافتی بگاڑ پیدا کرنا ہے۔۔دینی اقدار کو انسانیت مخالف اقدار کے طور پر پیش کرنا ہے ۔ دینی رول ماڈل کی جگہ، فاسق و فاجر کو ان کا رول ماڈل بناکر پیش کرنا ہے۔ لگتاہے یوں ہے کہ گرین ٹوریزم کمپنی کا ہدف بھی ایسا ہی ہے، دین دار لوگوں کو آہستہ آہستہ بے دین بنانا اور معاشرے میں مغربی کلچر کے زریعے عریانی اور فحاشی پھیلانا ہے تاکہ علاقے کے لوگوں کی انسانی ہوشیاری، دینی غیرت اور قومی حمیت ماند پڑجائے۔ البتہ کسی بھی کمپنی یا این جی او کے منفی اثرات اتنی جلدی معاڈرے میں نہیں آئیں گے بلکہ دشمن آہستہ آہستہ نا محسوس طریقے سے معاشرے میں اثرات چھوڑتا ہے تاکہ لوگ آہستہ آہستہ عادی ہوجائیں اور غلط چیز کے رائج ہوجانے کی قباحت آہستہ آہستہ معاشرے سے ختم ہوجائے۔ جب معاشرے کی حالت ایسی بن جائے تو پھر دشمن کو اپنے مذموم مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ اندلس میں ایسا کیا گیا۔ عالمی استکباری طاقتیں اس خطے پر بھی متعدد دلیلوں کی بنیاد پر مستقبل میں اپنا تسلط جمانا چاہتی ہیں۔

بعض اطلاعات کے مطابق گذشتہ دنوں اس کمپنی کے ملازمین کی بھرتی کے لئے جو انٹریو ہواہے اس میں خواتین سے جس نوعیت کے سوالات کئے گئے ہیں، وہ حیرت انگیز اور مسقبل میں خطرے کی گھنٹی ہے۔

پس گلگت بلتستان کو اندلس بنانے سے بچانے کے لئے عوام اور تمام دینی ، سیاسی و اجتماعی رہنماوں کو خواب غفلت سے بیدار ہوکر ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے۔ ہر کمپنی یا این جی او کے آنے پر علاقے میں ساتھ پیسے اور ملازمتیں آنے کی لالچ میں خوش نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات کو پرکھنا چاہئے، ان کے مقاصد کو سمجھنا چاہئے۔ گلگت بلتستان کی سیاحتی زمینوں پر قبضہ اس لئے کر رہے ہیں تاکہ بعد میں سیاحت اور سیاح کے نام سے ادھر ان کا جو جی چاہے انجام دیں اور کسی کا اعتراض نہ ہو۔ اگر استکباری سازشوں کے خلاف ابھی بھر پور مزاحمت نہیں کریں گے تو اندلس بنانے کے بعد مزاحمت نہیں کر پائیں گے کیوں کہ اس وقت موجود غیرت اور حمیت والا گلگت بلتستان نہیں ہوگا بلکہ جدید اندلس کا نقشہ پیش کر رہا ہوگا۔ لہذا خطرے کا وقت آنے سے پہلے آحتمالی خطرات سے روک تھام کے لئے میدان میں اتر کر ہوشیاری، غیرت اور حمیت کے ساتھ بھرپور مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ ہوشیای، غیرت اور حمیت چھن گئی تو پھر مزاحمت بے سود ہوگی۔

اللہ تعالی گلگت بلتستان کو دشمن کی سازشوں اور اور شیطان کی چالوں سے محفوظ رکھے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

nineteen + eleven =