نومبر 24, 2024

گریٹر اسرائیل یا گریٹر ایران؟

تحریر: شبیر احمد شگری

ایک دن آئے گا جب ہماری سرحدیں لبنان سے لے کر سعودی عرب کے عظیم صحراؤں سے ہوتی ہوئی بحیرہ روم سے لے کر نہرِ فرات (عراق) تک پھیلی ہوں گی۔ گذشتہ برس اسرائیلی مصنف ایوی لپکن کا یہ انٹرویو بہت وائرل ہوا تھا جس میں اس نے گریٹر اسرائیل کے تصور پر بات کرتے ہوئے کہا تھا ’فرات کے دوسری جانب کرد ہیں جو ہمارے دوست ہیں۔ ہمارے پیچھے بحیرہ روم ہے اور ہمارے آگے کرد۔۔۔ لبنان کو اسرائیل کے تحفظ کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مکہ اور مدینہ اور طورِ سینا پر بھی قبضہ کریں گے اور ان جگہوں کو پاک کریں گے۔
بعض اسرائیلی فوجیوں نے اپنے یونیفارم پر ’گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے کے بیج کا استعمال شروع کررکھا ہے۔ اس پر عرب ممالک کے صارفین کی طرف سے تشویش ظاہر کی گئی تھی کیونکہ ’دا پرومسڈ لینڈ‘ (وہ زمین جس کا وعدہ کیا گیا ہے) کے نقشے میں اردن، فلسطین، لبنان، شام، عراق اور مصر کے کچھ حصے بھی شامل تھے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود مسلمان کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں موندھے بیٹھے رہے ہیں۔ اسرائیل اس کی پوری پلاننگ کر چکا تھا اور خطے کے ممالک بھی اس کا ساتھ دے رہے تھے۔
لیکن اچانک ہی اسرائیل کو اس میٹھے خواب کی ڈراؤنی تعبیرسے ہڑبڑا کر اٹھنا پڑا جب ظوفان الاقصٰی کے شاہین ان کی سرزمین پر اترے۔ یہ طوفان الاقصٰی آپریشن کی مہربانی اور مسلمانوں پر احسان ہے کہ جس کی وجہ سے سے اسرائیل کے یہ خواب کرچی کرچی ہوکر رہ گئے۔ ان کرچیوں کو سمیٹتے سمیٹتے اس کے ہاتھ مزید زخمی ہوتے جارہے ہیں۔
۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کو حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے اسرائیلی حکومت کے 76 سال کے غاصبانہ قبضہ، جلاوطنی، قید، قتل و غارت اور صہیونی حکومت کے جرائم کے بعد، آپریشن “طوفان الاقصیٰ” شروع کیا تاکہ غیر انسانی جرائم کا خاتمہ کیا جا سکے۔ فلسطینی عوام کی اپنے وطن کی جدوجہد آزادی کی حمایت اصولی پالیسی کے تحت، ایران نے بھی فلسطینی عوام، حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی دیرینہ حمایت جاری رکھی۔ جس کے جواب میں صیہونیوں نے امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی آشیرباد کے ساتھ فلسطینیوں کو ظلم کے پہاڑ توڑ دالے ۔ جس پر مسلمانوں اور حقوق انسانی کے دعوے دار ممالک کی مجرمانہ خاموشی سب پر عیاں ہوچکی ہے۔ اور صیہونی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اسپتالوں، اسکولوں، ایمبولینسوں، امدادی گروپوں اور صحافیوں پر حملے کر تی رہی ہے اور غزہ، مغربی کنارے اور لبنان کے بنیادی ڈھانچے کو بھی تباہ کر چکی ہے۔ جس کے نتیجے میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہواہے، جن میں بچے، خواتین اور بوڑھے شامل ہیں۔ جبکہ دنیا ان تمام مظالم کا خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔مسلمان کا خون ان کی نظر میں اتنا سستا ہے کہ ان صیہونیوں کے پشت پناہوں کو یہ ظلم نظر نہیں آتے بلکہ امریکی اور مغربی عہدیدار ان تمام انسانیت کے خلاف جرائم کی توثیق کرتے ہیں اور انہیں انصاف قرار دیتے ہیں۔ اور اگر اسرائیل کے کچھ لوگ مارے جاتے ہیں تو انھیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایران کے صدرکے عہدے کا حلف اٹھانے کے دن ایران کے سرکاری مہمان حماس کے اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کر دیا۔ جوکہ ایران کے خودمختاری کی واضح خلاف ورزی تھی، بین الاقوامی قانون کے مطابق ایران کو اس کا جواب دینا اس کا حق تھا۔ لیکن مختلف ممالک کی درخواستوں کی وجہ سے اورحماس اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے جاری مذاکرات کی کامیابی خاطر، ایران نے انتہائی صبر کا مظاہرہ کیا ااور اس حق کو فی الحال ملتوی کیا۔ حالانکہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں ایک تشویش بھی پیدا ہوئی اور دشمنان اسلام نے تو بہت پروپیگنڈے کئے کہ اب ایران جواب نہیں دے گا، ایران اندر سے اسرائیل کے ساتھ ہے وغیرہ وغیرہ۔ صیہونیوں نے اس صبر کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس کی آڑ میں اسنے وقت لیا کہ غزہ اور لبنان پر مزید حملے کی تیاری کرے۔ صیہونیوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 85 امریکی بنکر بلسٹر بموں کا استعمال کرتے ہوئے حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصراللہ کو شہید کیا ۔ اس دہشت گردانہ کارروائی میں، حزب اللہ کے جنگجوؤں اور عام شہریوں کے علاوہ، ایران کے سینئر فوجی مشیر جنرل عباس نیلفروشاں بھی شہید ہو ئے۔ جس پر ایران نے ایسا حملہ کیا کہ دشمن کے دانت کھٹے کردئیے۔ ایران کا یہ حملہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت تھا۔ لیکن دشمنوں اور صیہونیوں کے پشت پناہ اور آلہ کاروں کو اسرائیل پرحملے کی شدید تکلیف ہوئی۔ جواس سے پہلے غزہ اور لبنان میں ہونے والے مظالم اور ایران پر کئے جانے والے حملے پر آنکھین بند کئے ہوئے تھے۔ لیکن اب اسرائیل کی حمایت میں بول اٹھے۔ ایران نے ان حملوں میں دشمن کی طرح عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ صرف ان فوجی اور سیکیورٹی اڈوں کو نشانہ بنایا جو غزہ اور لبنان میں نسل کشی کے ذمہ دار تھے۔ اس آپریشن میں 90 فیصد سے زائداہداف کو کامیابی نشانہ بنایا گیا۔اس طرح ایران نے ببانگ دہل یہ بتا دیا کہ ایران اپنی سالمیت اور دفاع پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔اور اگر اسرائیل نے مزید کوئی حماقت کی تو اسے مزید طاقتور جواب دیا جائے گا۔ اس حملے کے بعد عالم اسلام کے تقریبا تمام ممالک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ اور ان مسلمانوں کے دلوں میں ایران کی بہادری کا ایک اور سکہ بیٹھ چکا ہے۔ مسلمان ایران کے اس اقدام سے جذبے سے سرشار ہیں۔ کیونکہ غزہ اور لبنان پر ہونے والے حملوں کی وجہ سے ایک عرصے سے مسلمان تکلیف اور درد کی حالت میں ہیں۔ پاکستان سمیت گنتی کے چند ممالک نے لبنان میں حسن نصراللہ کی شہادت پرشدید انداز میں مذمت کی۔ باقی عالم اسلام اپنی باری کے انتظار میں خواب غفلت کی نیند سویا ہوا ہے۔ مسلمان حکومتیں اپنے مفادات کی وجہ سے خاموش ہیں۔ لیکن عوام بدلے اور جہاد کی خواہش سے لبریز ہیں۔دشمنوں کے ایجنٹ یہ بھی خبر پھیلاتے رہے کہ ایران کے سپریم لیڈر کومحفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ یہ عناصرایران اسرائیل پر کبھی حملہ نہیں کرے گا کی بات پر تو دعوے کےساتھ شرط لگاتے ہیں۔ ان سب کی بھی خواہش پوری ہوگئی اور جمعے کے لاکھوں کے اجتماع اور حسن نصراللہ کی فاتحہ خوانی میں ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے عام لوگوں میں چار گھنٹے گزار کریہ ثابت کردیا کہ وہ انقلاب اسلامی کے وقت بھی ایک سپاہی کی صورت میں میدان جنگ میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں اور آج بھی کہیں چھپے نہیں ہیں اور میدان میں موجود ہیں۔ وہ نہ کسی بینکر میں رہے اور نہ کوئی بلڈ پروف سسٹم کو نصب کیا گیا۔
بلکہ وہ سٹیج پر ایک ہاتھ میں اسنائپر اٹھائے، جمعےکا خطبہ دیتے رہے۔ یہ پہلا جمعہ ہے جسےصرف تمام فرقوں کے مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ اسرائیل، امریکا، برطانیہ سمیت پوری دنیا نےبھی لائیودیکھا۔پوری دنیا کو معلوم تھا کہ اس وقت ایران کے سپریم لیڈر کا لوکیشن کہاں ہے۔ اسرائیل کے خبطی و احمق وزیر اعظم نیتن یاہو کے منہ پر کس طرح جوتا مارا گیا ہے۔ اس خطاب سے ایران نے جس قدر اسرائیل اور امریکا کو ذلیل کیا ہے، اتنا وہ میزائلی حملے میں بھی نہیں ہوئے تھے۔
دوسری جانب اسی دوران ایرانی صدر پزشکیان،قطر کے دورے پر گئےجہاں مشرق وسطی میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ ہے، اور موساد کا ہیڈکوارٹر موجود ہے۔ ایران کی تیسری بڑی شخصیت، وزیر خارجہ عباس عراقچی عین اسی وقت اسرائیل کے پڑوس میں، یعنی لبنان میں موجودتھے ۔یعنی اسرائیل کے بغل میں۔لہذا اسرائیل پوری دنیا میں جس قدر اس وقت رسوا ہواہے کبھی نہیں ہوا ۔یہ جرات ان تمام اسلامی ممالک کو کرنے کی ضرورت ہے۔ جو نیٹو اور امریکا سے ڈر کر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ ایران نے بہادری کا مظاہر کر کےدکھایا کہ اسرائیل کی طاقت کا طلسم ٹوٹ گیا ہے۔ مسلمانوں کو ایران ،لبنان کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے کہ انھوں نے قربانیاں دے کر”گریٹر اسرائیل” کے خواب کو چکناچور کردیا ہے ورنہ اس وقت صورت حال کچھ اور ہوتی۔درحقیقت گریٹر اسرائیل نہیں بلکہ گریٹر ایران ہے جس نے مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں۔ پاکستان نے 7 اکتوبر کو یوم یکجہتی فلسطین منانے کا فیصلہ کیا ہے۔اسلامی ممالک سمیت تمام بین الاقوامی برادری کو صہیونی حکومت کے اقدامات کی واضح اور فیصلہ کن مذمت کرنی چاہیے اور اسرائیلی جارحیت کے لیے اپنی تاخیر شدہ ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے اور ان مسلم قوموں کے غصے کو کم کرنے کے اقدامات کرنےچاہیے جو ایک لاوے کیطرح کسی وقت بھی پھٹ سکتے ہیں۔ عالم اسلام کو دشمن کو یہ باور کرانا ہوگا کہ یہ صرف ایران،لبنان یا حوثیوں کی جنگ نہیں یہ تمام عالم اسلام کی جنگ ہے۔اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان کیوں بزدلی کا مظاہرہ کررہے ہیں جبکہ دشمن کس طرح مسلمانوں کو کچلنے کی فکر میں ہیں اگر مسلمان اب بھی نہ جاگےاور اپنی طاقت اور قوت کا مظاہرہ نہ کیا اور متحد نہ ہوئے تو پھر ہر کوئی اپنی باری کا انتظار کرے۔ کیونکہ قرآن پاک میں اللہ پاک کھلے الفاظ میں یہ بیان فرما چکے ہیں کہ: اے ایمان والو یہود و نصارٰی کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بے شک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

eighteen − five =