تحریر: عبدالرشید شکور
پاکستان کرکٹ ٹیم کی ٹی 20 ورلڈ کپ میں شرکت دیکھ کر مجھے ٹی وی شو نیلام گھر میں طارق عزیز کا مشہور جملہ یاد آ رہا ہے ’دا غلطی گنجائش نشتہ۔‘
یہ جملہ طارق عزیز اپنے مہمان سے اس وقت کہا کرتے تھے جب اس کے پاس سوالوں کے جواب دینے کے لیے غلطی کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ صورت حال بھی اس وقت ایسی ہی ہے کہ اس کے پاس اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ اس کے سامنے سب سے بڑا اور فیصلہ کن امتحان ہے۔
لیکن اس امتحان سے پہلے ٹیم نے جس طرح کی پرفارمنس دی ہے اسے دیکھ کر دل میں اطمینان قدرے کم البتہ مایوسی کچھ زیادہ ہے۔
ٹی 20 ورلڈ کپ سے قبل پاکستان ٹیم نے نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف تین سیریز کھیلی ہیں۔
نیوزی لینڈ اپنے بیشتر ورلڈ کلاس کرکٹرز کی خدمات سے محروم تھی جو اس وقت آئی پی ایل کھیل رہے تھے لیکن اس کے باوجود ٹیم نے پاکستان کو سیریز نہیں جیتنے دی اور پاکستان نے آخری میچ جیت کر بمشکل سیریز برابر کی۔
آئرلینڈ چونکا دینے والی ٹیم کے طور پر ضرور مشہور ہے لیکن اس کا تجربہ کسی طور پاکستانی ٹیم کے برابر نہیں تھا۔
اس نے پہلے ہی میچ میں پاکستان ٹیم کو شکست سے دوچار کر کے سب کو یاد دلا دیا کہ وہ ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان ہی کے گروپ میں ہے۔
انگلینڈ کے خلاف سیریز کے دو میچ خراب موسم کی نذر ہو گئے لیکن جو دو میچ کھیلے گئے ان میں انگلینڈ نے کامیابی حاصل کر کے اپنے عزائم بتا دیے کہ وہ ٹی 20 ورلڈ کپ میں اپنے اعزاز کے دفاع کے لیے کتنی سنجیدہ ہے۔
دوسری جانب پاکستان ٹیم دونوں میچوں میں بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ میں تگ ودو کرتی نظر آئی۔
ٹی 20 ورلڈ کپ سے قبل پاکستان ٹیم کو گیری کرسٹن کی شکل میں تجربہ کار ہیڈ کوچ مل چکے ہیں لیکن چونکہ وہ انگلینڈ کے خلاف سیریز میں ہی ٹیم کے ساتھ شامل ہوئے ہیں لہٰذا فوری طور پر ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لینا زیادتی ہوگی۔
تاہم انہیں انگلینڈ کے خلاف سیریز سے یہ اندازہ ضرور ہوگیا ہوگا کہ ٹیم کو کن کن شعبوں میں بہتری کی اشد ضرورت ہے اور خود انہیں بھی اپنی ساکھ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا کیا ضروری اور سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔
فی الحال انہیں انہی کھلاڑیوں سے کام لینا ہے جو ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے منتخب ہو چکے ہیں اور جن میں سے کچھ کی فارم سب کے لیے تشویش کا سبب بنی ہوئی ہے۔
یہاں یہ سوال سب کے ذہنوں میں ہے کہ کیا پاکستان ٹیم اس بھرپور اعتماد اور مکمل تیاری کے ساتھ ٹی 20 ورلڈ کپ میں گئی ہے جو کسی بھی ٹیم کے لیے ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ میں ضروری ہوتی ہے؟
نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف سیریز کے نو مکمل میچوں میں پاکستان نے مختلف تجربات کیے۔
ان تینوں سیریز میں مجموعی طور پر 19 کھلاڑی آزمائے گئے، تاہم ابھی تک یہ بات واضح نہیں کہ ٹیم کن 11 کھلاڑیوں کے ساتھ ورلڈ کپ کے پہلا میچ کھیلنے میدان میں اترے گی۔
سب سے بڑا مسئلہ اوپننگ کا ہے۔ صائم ایوب اس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ انہیں مسلسل ناکامی کے باوجود مواقع ملتے رہے، لیکن وہ اس اعتبار سے بدقسمت ثابت ہوئے کہ وہ کسی بھی موقعے سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور یہ اسی ناکامی کا نتیجہ ہے کہ بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ جوڑی دوبارہ میدان میں دکھائی دی۔
بابر اور رضوان کی اوپننگ جوڑی ٹی 20 انٹرنیشنل کی تاریخ میں سب سے زیادہ 2459 رنز اور سب سے زیادہ آٹھ سنچری پارٹنرشپس قائم کر چکی ہے۔
لیکن ان دونوں پر کچھ حلقوں کا اعتراض رہا ہے کہ یہ ایک جیسے انداز میں کھیلنے والے بیٹر ہیں اور ان کا سٹرائیک ریٹ آج کل کی کرکٹ سے مطابقت نہیں رکھتا حالانکہ اعدادوشمار اس کے بالکل برعکس صورت حال بتاتے ہیں۔
گذشتہ ٹی 20 ورلڈ کپ کے بعد سے پاکستان نے پانچ اوپننگ جوڑیاں آزمائی ہیں جن میں بابر اور رضوان کی جوڑی نے چار بار ایک ساتھ اوپننگ کی ہے اور اس جوڑی کی رنز اوسط اور رن ریٹ دوسروں سے زیادہ ہے۔
اس تمام صورت حال کے باوجود جب سوشل میڈیا کے نام نہاد سلیکٹرز اور بعض سابق کرکٹرز کے شور مچانے پر اس جوڑی کو توڑا گیا لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
’نو لک‘ شاٹ کے لیے مشہور صائم ایوب کی متواتر ناکامیوں نے بابر رضوان جوڑی کو پھر سے اوپننگ کے لیے تیار کر لیا ہے۔
بابر اور رضوان کی جوڑی توڑنے کے بعد جہاں صائم اوپنر کے طور پر لائے گئے، وہیں فخر زمان کو نمبر چار پر کھیلنے پر مجبور ہونا پڑا۔
عثمان خان آئرلینڈ کے خلاف کسی میچ میں نہیں کھلائے گئے لیکن انگلینڈ کے خلاف آخری میچ میں انہیں موقع دیا گیا۔
اس وقت فخر مڈل آرڈر میں واحد بیٹر ہیں جنھوں نے بیٹنگ کو سنبھالا ہوا ہے کیونکہ صائم ہی نہیں ناکامی نے افتخار احمد اور اعظم خان کو بھی گھیرے میں لیے رکھا ہے۔
اعظم نے آئرلینڈ کے خلاف دوسرے میچ میں چار چھکوں اور ایک چوکے سے اپنی طاقت دکھائی تو یہ امید بندھی کہ وہ مایوسی کے گرداب سے نکل آئے ہیں۔
لیکن بعد میں وہ اسی پرانی ڈگر پر چلتے نظر آئے بلکہ انگلینڈ کے خلاف آخری میچ میں ان کی وکٹ کیپنگ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد یہ سوال دوبارہ اٹھا ہے کہ رضوان جیسے مستند اور تجربہ کار وکٹ کیپر کی موجودگی میں کسی دوسرے کھلاڑی سے کیپنگ کیوں کرائی جا رہی ہے؟
لیکن اس سوال کا جواب بھی فوراً مل جاتا ہے کہ رضوان کے کیپنگ کرنے کی صورت میں اعظم کو فیلڈ میں کہاں چھپایا جائے۔
جہاں تک افتخار کا تعلق ہے ان کے بارے میں یہ بات مشہور کر دی گئی ہے کہ انہیں بہت کم گیندیں کھیلنے کو ملتی ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اگر ہم ان کے آخری 10، 12 میچوں کے اعدادوشمار دیکھیں تو ان میں افتخار کو بیٹنگ کا پورا پورا موقع ملا کہ وہ 20 اوورز مکمل کر کے واپس آئے لیکن ان آخری دس بارہ میچوں میں ہم نے یہی دیکھا کہ افتخار نے تیرہویں سے انیسویں اوور کے درمیان اپنی وکٹ گنوائی ہے۔
یہاں تک کہ نیوزی لینڈ کے خلاف جس میچ میں انہوں نے 60 رنز سکور کیے تھے اس میں بھی وہ 19.4 اوورز میں آؤٹ ہو گئے تھے۔
ان کے میچ فنش نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان چار رنز سے ہار گیا تھا۔
پاکستان کے نقطہ نظر سے شاداب خان کی کارکردگی سب سے بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ وہ نہ صرف بولنگ بلکہ بیٹنگ میں بھی بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔
25 مئی 2024 کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی شاداب خان برمنگھم میں انگلینڈ کے خلاف میچ میں بولنگ کے بعد ردعمل دیتے ہوئے (اے ایف پی/ پال ایلس)
اس وقت وہ جس دباؤ کا شکار ہیں ایسے میں انہیں نمبر پانچ پر بیٹنگ کے لیے بھیج کر اس دباؤ میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔
شاداب کو اسامہ میر پر تجربے کی بنیاد پر فوقیت دی گئی حالانکہ اسامہ کی پی ایس ایل کی شاندار کارکردگی سب کے سامنے تھی۔
یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ اگر شاداب کی لیگ سپن حریف ٹیموں کے لیے مشکلات پیدا نہیں کر رہی تو ابرار احمد کو بینچ پر بٹھائے رکھنے کا کیا جواز ہے؟
انگلینڈ نے آخری ٹی 20 اپنے سپنرز عادل رشید، معین علی اور لیونگ سٹن کے ذریعے جیتا لیکن پاکستان نے عماد وسیم کے ان فٹ ہو جانے کے باوجود آؤٹ آف فارم شاداب خان پر انحصار جاری رکھا اور ابرار احمد آئرلینڈ اور انگلینڈ میں ایک بھی میچ کھیلے بغیر اب براہ راست ورلڈ کپ میں گئے ہیں جبکہ لیگ سپنر اسی وقت ردھم میں آتا ہے جب اسے زیادہ سے زیادہ بولنگ ملتی ہے۔
اگر ہم پاکستان کے پیس اٹیک پر نظر ڈالیں تو حالات وہاں بھی کچھ اچھے نہیں۔ محمد عامر ریٹائرمنٹ کے بعد سے اب تک جن آٹھ ٹی 20 انٹرنیشنل میچوں میں کھیلے ہیں ان میں وہ صرف پانچ وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں اور ان کا اکنامی ریٹ نو سے زیادہ بنتا ہے۔
نسیم شاہ انجری سے واپس آنے کے بعد اس طرح کی پرفارمنس نہیں دے پائے جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی۔
انگلینڈ کے خلاف آخری میچ میں مہنگی ترین بولنگ کے بعد یقیناً ان کا اعتماد بری طرح متاثر ہوا ہوگا۔
نسیم شاہ پاکستانی پیس اٹیک کا اہم حصہ ہیں اور ان کا فارم میں ہونا ٹیم کے لیے بہت ضروری ہے۔
حارث رؤف نے انجری کے بعد کم بیک کرتے ہوئے انگلینڈ کے خلاف دونوں میچوں میں اپنی عمدہ بولنگ سے وہ اعتماد حاصل کر لیا ہے جس کی انہیں اور ٹیم کو اشد ضرورت تھی۔
پاکستانی ٹیم انڈیا، آئرلینڈ، امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ گروپ اے میں ہے اور اگر وہ سپر ایٹ مرحلے کے لیے کوالیفائی کرتا ہے تو سیڈنگ کے مطابق اسے ممکنہ طور پر انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
انگلینڈ ٹی 20 ورلڈ کپ کی دفاعی چیمپیئن ٹیم ہے اور اس وقت وہ کھیل کے ہر شعبے میں اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے۔
پاکستان کے خلاف سیریز سے قبل اس کے کھلاڑی آئی پی ایل میں بھی نمایاں کارکردگی دکھا چکے ہیں لہذا ان کے حوصلے خاصے بلند ہیں۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم ویسٹ انڈیز سے سیریز تین صفر سے ہارنے کے بعد اپنے پست حوصلے بحال کرنے کی فکر میں ہے۔
ویسٹ انڈیز کو بہت سے لوگ زیادہ اہمیت نہیں دے رہے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ ایک ایسی ٹیم ہے جو حریف ٹیموں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
اس کے گروپ میں نیوزی لینڈ اور افغانستان شامل ہیں۔ اگر وہ پہلا مرحلہ پار کر گئی تو پھر یقینی طور پر اپنے ہوم گراؤنڈ پر ایک خطرناک ٹیم ثابت ہوگی۔
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو