تحریر: مظہر عباس
وہ ایک فیصلہ جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو ہمیشہ کیلئے امر کر دیا وہ معافی نہ مانگنا اور این آر او لے کر ترکی یا کسی عرب ملک میں جلا وطنی کی زندگی نہ گزارنا تھا۔ یہ تجویز جب اس وقت بھٹو صاحب کےایک ساتھی غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم نے بیگم نصرت بھٹو کے سامنے رکھی تو انہوں نے صرف ایک جملہ کہا وہ نہیں مانے گا۔
آخری ملاقات میں وہ اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو آنے والے وقت کے بارے میں آگاہ کر رہے تھے بقول ایک عینی گواہ اس ملاقات کے وقت بیگم صاحبہ صرف رو رہی تھیں بھٹو انہیں تسلی دے رہے تھے اور بی بی آنسوئوں کے ساتھ نوٹس لے رہی تھیں جسکے بارے میں، میں نے ایک بار بی بی سے پوچھا تو انہوں نے کہا ’’وہ مجھے آنے والے وقت کیلئے تیار کر رہے تھے کہ سیاست میں کیا سمت لینی ہے۔ پارٹی میں کن پر اعتماد کرنا ہے، کن سے ہوشیار رہنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرنل قذافی، حافظ اسد اور یاسر عرفات کا شکریہ ادا کرنا جو آخری وقت تک میرے ساتھ کھڑے رہے‘‘۔
بھٹو کی پھانسی میں غیروں کا بھی اور اپنوں کا بھی ہاتھ ہے۔ اسکی پھانسی کی کسی نے ’’خاموش‘‘ حمایت کی تو کسی نے درست کہا۔ آج اس بات کو 45سال بیت گئے ہیں مگر یہ نام آج بھی ہماری سیاست اور عدلیہ میں لیا جاتا ہے۔ جو سمجھے تھے کہ پھانسی کے بعد اُس کا نام مٹ جائےگا اور ان کو حصہ ملے گا وہ غلطی پر تھے اور آج اس کے بدترین مخالف بھی اس کی ہمت اور بہادری کے معترف ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کئی سال بعد بھٹو پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد مرحوم نے کہا تھا ’’بھٹو کی پھانسی ایک غلط فیصلہ تھا اور اس فیصلے کی حمایت نہیں کرنی چاہئے تھی‘‘۔
سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ آپ اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے بھی سیاسی معاملات کو حل کرنے کیلئے اپنے مخالفین کے ساتھ گفتگو کا راستہ ترک نہیں کرتے۔ ایسا ہی کچھ بھٹو کی پھانسی کے بعد ہوا۔ کوئی ایک سال بعد 1980میں بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں میں سے کچھ نے بشمول نواب زادہ نصر اللہ خان کی جماعت ائیر مارشل اصغر خان کی جماعت، خان عبدالولی خان کی جماعت نے مارشل لا کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک بحالی جمہوریت، ایم آر ڈی تشکیل دی، ان رہنمائوں کا 70کلفٹن جانا اور بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر سے ملنا اس خاص ماحول میں بہت مشکل فیصلہ تھا خاص طور پر ان دونوں خواتین کیلئے۔ مگر اس وقت ایک سیاسی سمت کا تعین کیا گیا تلخ ماضی کو بھول کر ملک میں جمہوریت کو بحال کرانا اور پھر ایک تاریخی تحریک چلی جس کو ریاست نے کچلنے کی بہت کوشش کی مگر اس نے جنرل ضیاء کو کمزور کر دیا کیونکہ پھر اسے ایک جعلی ریفرنڈم اور غیر جماعتی بنیادوں پر ہی سہی عام انتخابات کروانا پڑے۔
یہ سیاسی حقیقت ہے کہ شریف برادران کو سیاست میں بھٹو کا سحر ختم کرنے کیلئے لایا گیا تھا۔ جنرل ضیاء اور جنرل جیلانی کے سیاسی وارث کے طور پر جس کا محور پنجاب تھا جو اس وقت تک بھٹو کا دیوانہ تھا۔
10اپریل 1986کو بے نظیر طویل جلا وطنی ختم کر کے لاہورواپس آئیں تو ایئر پورٹ سے مینار پاکستان تک سر ہی سر تھے۔ ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نے ایک بار مجھ سے انٹرویو میں اعتراف کیا، ’’اس استقبال سے فوج کے اندر کچھ حلقوں میں خوف پیدا ہو گیا کہ یہ کہیں انتقام تو نہیں لے گی مگر میں جب پہلی بار ان سے ملا تو مطمئن تھا کہ وہ ایک محب وطن خاتون ہیں۔‘‘ اب یہ الگ بات ہے کہ اس سب کے باوجود اسلامی جمہوری اتحاد، IJI بنائی گئی، بی بی کا راستہ روکنے کیلئے اور شریفوں کو استعمال کیا گیا۔ اس نے ایک نئی سیاسی کشمکش کو جنم دیا جس میں لسانی رنگ بھی نظر آیا جب نعرہ لگا، ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ ۔ اس میں شدت آتی گئی اصغر خان جیسے کیس سامنے آئے۔ پھر جب خود میاں صاحب کے خلاف اسی طرح کی سازشیں ہوئیں اور بے نظیر استعمال ہوئیں تو سیاست نے ایک اور سمت لے لی مگر دونوں کے اندر یہ سوچ اس وقت اجاگر ہوئی جب 2002میں جنرل پرویز مشرف نےبے نظیر بھٹو اور نواز شریف،دونوں کو جمہوری عمل سے با ہر کر دیا اور انتخابات میں حصہ نہ لینے دیا۔
2005 سے 2006تک شریفوں اور بی بی نے مذاکرات کے بعد ایک تاریخی میثاق جمہوریت پر معاہدہ کیا جو ایم آر ڈی کا تسلسل تھا۔ کاش یہ 1988میں ہو جاتا۔ دوسری طرف عمران خان یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بی بی اور شریف کو سسٹم سے باہر کر کے ان کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں گے۔ مگر جب وہ مشرف کے دربار میں پہنچے تو وہاں چوہدریوں کو دیکھ کر انہیں احساس ہوا کہ ان کی سمت درست نہیں تھی۔ وہ مشرف مخالف تحریک کا حصہ بن گئے۔ 2007میں جب بی بی، مشرف میں این آر او ہوا تو عمران ، نواز شریف اور قاضی حسین احمد مرحوم ایک اتحاد کا حصہ تھے۔
2008 ءسے 2024 تک سیاسی جماعتوں نے اپنی سمت کئی بار بدلی ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان اور موقف اپنایا مگر مذاکرات کا رستہ کھلا رکھا۔ عمران خان اس ضمن میں شاید کچھ آگے چلے گئے تاہم انہوں نے اپنے آپ کو اور اپنی جماعت کو ایک سیاسی حقیقت ثابت کیا۔2024 کا الیکشن ایک ریفرنڈم ہے، وہ ایک ردعمل ہے ان پالیسیوں کا جو پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں رہیں ۔ اس کو مثبت انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی کو زور زبردستی ، قید میں ڈال کر ، سزا اور نااہل کر کے بھی فیصلہ آپ کے خلاف آسکتا ہے اور آیا۔
اس بار اڈیالہ جیل کے قیدی 804عمران کی سمت میں بھی تبدیلی محسوس ہوئی کہ کم از کم اپنے چار میں سے دو سیاسی مخالفین جن کے بارے میں خان صاحب ایک زمانے میں خاصے ہتک آمیز ریمارکس دیتے رہے ہیں نہ صرف بات چیت کا دروازہ کھلا بلکہ انہوں نے ان میں سے ایک سینئر سیاستدان محمود خان اچکزئی کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں بانی پی ٹی آئی اپنے باقی دو سیاسی مخالفین سے نہ سہی ان میں سے ایک سے مذاکرات کا دروازہ کھولتے تو شاید اس وقت مسلم لیگ (ن) کیلئے حکومت بنانا ناممکن سا ہوجاتا۔ پی پی پی نے اور بلاول بھٹو نے مذاکرات کی جانب اشارہ کیا تھا۔
آخر کب تک یہ سیاستدان ’سلیکٹر‘‘ کے ہاتھوں ہی بیعت کر کے سلیکڈ ہونا چاہتے ہیں۔ بھٹو سے نواز شریف تک اور چوہدریوں سے عمران خان تک سیاستدان اب بھی اگر اپنی سیاستی سمت کا تعین نہیں کر پا رہے تو اس ریاست میں نہ ووٹ کو عزت مل سکے گی نا جمہوریت بہترین انتقام، ثابت ہو سکے گی اور اس سیاسی کشمکش میں جمہور کا نظام سے اعتبار ختم ہو جائے گا۔ یہی آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ