تحریر: حامد میر
ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اپنے دورہ پاکستان کا آغاز لاہور سے کیوں کیا ؟ اس ایک سوال کا جواب تلاش کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ایک شاعر نے’’پیام مشرق “ اور’’اسرار خودی‘‘کے ذریعے پاکستان کو صرف ایران کیساتھ نہیں بلکہ ایران کو فلسطین کے ساتھ جوڑ رکھا ہے ۔
یہ شاعر ایران میں اقبال لاہوری کے نام سے جانا جاتا ہے اور پاکستان میں علامہ اقبال کہلاتا ہے ۔ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان ایک ہارٹ سرجن ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ قرآن کے اسکالر بھی ہیں ۔ حضرت علی ؓ کے خطبات اور خطوط پر مشتمل کتاب’’ نہج البلاغہ‘‘کے کئی حصے انہیں زبانی یاد ہیں اور علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے وہ بہت بڑے مداح ہیں ۔ انقلاب ایران میں علامہ اقبال کی شاعری کا کردار سمجھنے کیلئے ہمیں ڈاکٹر علی شریعتی کی کتاب’’ہم اور اقبال‘‘کا مطالعہ کرنا چاہیےجس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ بہت سال پہلے مجھے اس کتاب کے متعلق خانہ فرہنگ ایران لاہور کے سربراہ صادق گنجی شہید نے آگاہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ اُن سمیت بہت سے ایرانی نوجوان انقلاب کیلئے سڑکوں پر نکلے تو اُنکی زبان پر علامہ اقبال کے اشعار ہوا کرتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ انقلاب کے بعد ایران کے تعلیمی اداروں میں علامہ اقبال کی شاعری کو نصاب کا حصہ بنا دیا گیا اور تہران سمیت ایران کی کئی شاہرا ہوں اور اداروں کو اقبال لاہوری سے موسوم کر دیا گیا ۔
2اگست کو ایران کے صدر نے اپنے دورہ پاکستان کا آغاز اسی اقبال لاہوری کے مزار پر حاضری سے کیا ۔ یہ کوئی روایتی حاضری نہیں تھی بلکہ ایرانی صدر کی آنکھوں میں اقبال لاہوری کیلئے محبت و عقیدت بڑی واضح نظر آ رہی تھی ۔ شائد پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت کو اہل ایران کی اقبال سے محبت کا اندازہ نہیں ۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کو علامہ اقبال کے دو ہزار سے زائد اشعار زبانی یاد ہیں اور وہ علامہ اقبال پر ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں ۔ایران اور عراق کی جنگ کے زمانے میں علی خامنہ ای ایران کے صدر تھے اور اسی زمانے میں انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا ۔
1986ء میں جب وہ پاکستان آئے تو انہوں نے اپنے میزبانوں کو پاکستان سے اپنی محبت کی دو بڑی وجوہات بتائیں ۔ ایک تو اقبال لاہوری اور دوسری وجہ یہ تھی کہ جب رضا شاہ پہلوی نے انہیں ایران سے جلاوطن کیا تو اُنہوں نے خاموشی سے جن ممالک میں وقت گزارا ان میں پاکستان کا ایک شہر کراچی بھی شامل تھا۔ علی خامنہ ای کی عمر 86برس ہے ۔وہ 36سال سے ایران کےسپریم لیڈر اور کمانڈر انچیف ہیں ۔ انہوں نے اس طویل عرصے میں صرف ایک سرکاری دورہ کیا اور وہ پاکستان کا تھا۔ 13جون2025ء کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو پاکستان نے ایران کی بھر پور حمایت کی جس پر ایرانی پارلیمنٹ’’تشکر پاکستان تشکر پاکستان “کے نعروں سے گونج اٹھی ۔ ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا دورہ پاکستان دراصل اپنے پاکستانی بھائیوں کا شکریہ ادا کرنے کی سعی تھی ۔
ڈاکٹر مسعود پزشکیان لاہور سے اسلام آباد پہنچے تو وزیر اعظم شہباز شریف اور نائب وزیرا عظم اسحاق ڈار سمیت دیگر ارباب اختیار سے اُنکی اہم ملاقاتیں ہوئیں ۔ ان ملاقاتوں میں بہت سے امور کے علاوہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پراجیکٹ پر بھی بات ہوئی ۔ اب ایرانی حکومت کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان اس پراجیکٹ کو آگے بڑھانے سے کیوں گریز کر رہا ہے ؟ چند دن پہلے امریکہ نے چھ بھارتی کمپنیوں پر پابندیاں لگا دی ہیں جو ایران سے تیل خرید رہی تھیں ۔ اسکے علاوہ امریکہ نے بھارت پر 25فیصد ٹیرف عائد کیا ہے اور پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے ۔ بظاہر پاکستان پر ٹیرف کی شرح بھارت کے مقابلے میں کم ہے لیکن پاکستان کی معیشت کے حالات کی روشنی میں یہ ٹیرف کافی زیادہ ہے ۔
امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان میں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور تیل نکالنے کیلئے امریکہ کی طرف سے پاکستان کی مدد کی جائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دن پاکستان یہ تیل بھارت کو فروخت کرےگا۔ عام خیال یہ ہے کہ اس بیان کے ذریعے ٹرمپ نے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ،اس بیان کے اگلے دن پتہ چلا کہ پاکستان اب امریکہ سے تیل خریدے گا ۔
امریکہ نے بھارت کی کمپنیوں پر پابندیاں لگا کر پاکستان کو پیغام دیا کہ اگر آپ نے ایران سے تیل یاگیس خریدنے کی کوشش کی تو آپ پر بھی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں ۔ ایران حالات کی نزاکت کو اچھی طرح سمجھتا ہے ۔ ایران چاہے تو پاکستان کے خلاف قانونی کارروائی کے ذریعے بھاری جرمانہ عائد کرا سکتا ہے لیکن علی خامنہ ای نے ڈاکٹرمسعود پز شکیان کو ہدایت کی کہ پاکستان کے ساتھ قانونی جنگ کی بجائے بات چیت کے ذریعے کوئی راستہ نکالا جائے ۔ پاکستان کو بھی معلوم ہے کہ ٹرمپ نے جن تیل کے ذخائر کا ذکر کیا ہے اُن سے فائدہ اُٹھانے کیلئے ابھی کئی سال انتظار کرنا پڑے گا اور امریکہ سے مہنگا تیل خریدنا پاکستان کے فائدے میں نہیں ۔ گیس پائپ لائن پراجیکٹ پر پیدا ہونے والی مشکل سے نکلنے کاراستہ تلاش کرنا ایک ایسا چیلنج ہے جس پر پاکستان بار بار ایران سے وقت مانگ رہا ہے ۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات صرف ایک گیس پائپ لائن پرا جیکٹ کے ارد گرد نہیں گھومتے ۔ یہ تعلقات اُس فکرو فلسفے سے جڑے ہوئے ہیں جس نے علامہ اقبال کی شاعری سے جنم لیا ۔ اقبال نے فرما یا تھا ۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اسی اقبال لاہوری کے پیروکار علی خامنہ ای نے 2010 ء میں صحابہ کرام اور امہات المومنین کی توہین کے خلاف فتویٰ دیکر فرقہ بندی پر کاری ضرب لگائی ۔ گیس پائپ لائن پراجیکٹ کا کوئی حل نکلے نہ نکلے لیکن پاکستان اور ایران دیگر ممالک کے ساتھ مل کر آپس میں فرقہ وارانہ عداوتوں کو کم کرنے کیلئے بہت سے عملی اقدامات کر سکتے ہیں ۔ اس معاملے میں امریکہ کوئی پابندیاں لگا سکتا ہے یا نہیں ؟ یقیناً اس معاملے میں ہمیں کسی پابندی کا خوف نہیں تو پھر ڈر کس بات کا؟ آگے بڑھیے ۔ افکارِ اقبال کی روشنی میں جو فتویٰ علی خامنہ ای صاحب نے دیا اُس فتوے کی پاکستان اور سعودی عرب سمیت تمام مسلم ممالک کے علماء سے تائید حاصل کریں اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو ناکام بنائیں۔
تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔