تحریر: خان محمد
ضلع اٹک تحصیل پنڈی گھیب کا گاؤں جو کبھی علما کی دھرتی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اب سیاسی کھڑپينچوں کی آماجگاہ بن چکا ہے ۔ملہووالی میں سیاسی کارکن اور ووٹر کم جبکہ سیاسی کھڑپینچ زیادہ تعداد میں موجود ہیں ۔ہر کسی نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے ۔
ملہووالی کے کھڑپینچوں کی اک لمبی فہرست ہے جو تقریباً پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ کھڑپینچ جب ہوٹلوں یا دکانوں پر بیٹھ کر سیاسی تبصرے کرتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔
نجی محفلوں میں اپنے جان دار تبصروں سے میلہ لوٹنے والے یہ کھڑپینچ جب اپنے سیاسی لیڈر کا سامنا کرتے ہیں تو ان کی زبان گنگ ہو جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے آج کھڑپینچوں کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ملہووالی اور گرد و نواح کے آبادیوں کے مسائل جوں کے توں پڑے ہیں بلکہ بڑھ رہے ہیں ۔
ملہووالی میں پانی کا مسلہ شدت اختیار کر چکا ہے ۔زیر زمین پانی کھارا ہے جبکہ واٹر سپلائی سکيم فنڈز کی کمی کی وجہ سے بند پڑی ہے ۔ٹینکر مافیا کا راج ہے جبکہ غریب گھروں کی خواتین پانی کے حصول کے لئے ماری ماری پھرتی ہیں لیکن مجال ہے کہ بہو بیٹیوں کو یوں در بدر بھٹکتا دیکھ کر کسی کھڑپینچ کی غیرت جاگی ہو اور اس نے اپنے سیاسی لیڈر سے اس مسلے پر بات کرنا گوارا کیا ہو ۔
کھڑپینچ علاقے کی عوام کا سفیر ہوتا ہے اور علاقای مسائل کے حل کے لئے کوشش کرنا اسکی اولین ذمہ داری ہوتی ہے ۔یہاں تو کھڑپینچ مسائل کا حل تو دور کی بات اپنی قیادت کے سامنے مسائل کا ذکر کرنے سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں لیڈر صاحب ناراض نہ ہو جایں ۔
اگر آپ اپنی لیڈر شپ کے سامنے اپنے علاقے کے مسائل کا ذکر تک کرنے کی جرات نہیں کر سکتے تو آپ کو “سکی کھڑپیچی ” کرنے کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔
علاقے میں بہت سے مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں اور علاقے کے کھڑپینچ منہ بند کیے بیٹھے ہیں ۔
ملہووالی کی عوام کو ان کھڑپینچوں کے چہرے یاد رکھنے ہوں گے چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوں ۔جو عوام کے حق کے لئے آواز بلند نہیں کر سکتا وہ عوام کا سفیر بھی نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر اس کھڑپینچ کے پیچھے کھڑا ہونا پڑے گا جو کم از کم لیڈر شپ کے سامنے منرل واٹر کی بوتل رکھتے کانپ نا رہا ہو اور علاقای مسائل اپنے لیڈر شپ کے سامنے دبنگ انداز میں بیان کرنے کی جرات رکھتا ہو اور ان کھڑپینچوں سے بھی جان چھڑانا اب واجب ہو چکا ہے جن کے گھر میں ہر الیکشن کے بعد خوش حالی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ایسے کھڑپینچ پوری پوری برادریوں کے مينڈیٹ کی قیمت وصول کرتے ہیں اور پھر لیڈر شپ کے آگے “کانے” ہو جاتے ہیں ۔پھر ایسے کھڑپینچ کسی منہ سے لیڈر شپ کے سامنے اپنے علاقے کے مسائل کا ذکر کریں گے کیوں کہ قیمت تو وہ پہلے ہی وصول کر چکے ہوتے ہیں ۔۔۔
ملہووالی کے تمام کھڑپینچوں کو کسی منڈی پر بیچ کر ایک زندہ ضمیر کھڑپینچ لانے کی اشد ضرورت ہے ۔اگر کھڑپینچی انہی کھڑپینچوں نے کرنی ہے تو پھر یاد رکھیے آپ کی نسلیں بھی اسکا خمیازہ بھگتیں گی اور گاؤں کی بہو بیٹیوں کے سر سے نہ گھڑے اتریں گے اور نہ ہی تعلیم صحت اور روزگار کے مسائل حل ہوں گے ۔۔۔۔۔اب اس کھڑپينچی کے ناسور سے جان چھڑانا واجب ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔