تحریر: کوثر عباس قمی
خدا کی محبت دیکھنا ہو تو ماں کی اولاد سے محبت دیکھ لو۔
اور اگرمائوں میں عشق خدا و حجت خدا دیکھنا ہو تو کربلائے معلی کا معرکہ دیکھ لو۔
ایک ماں اپنے اسمعیلؑ کو بچانے کے لیے سات بار صفاو مروہ کے درمیان دوڑی تھی
خالق کائنات کو ماں کی یہ محبت اتنی پسند آئی کہ اس نے فیصلہ کیا ماں بیٹے کا یہ واقعہ رہتی دنیا کے انسانوں کے لیے زندہ رکھوں
اسی لیے رب دو جہاں نے اسے حج کا حصہ بنا دیا۔
مگر کربلا کی منزل ذرا آگے ہےجہاں محبت و الفت کی پیکر مائیں اپنے اپنے خیموں میں بیٹوں کی دین اسلام کی حفاظت کی خاطر خود قربانی کی تیاری کر رہی ہیں۔
ہر ماں کی خواہش ہے کہ سب سے پہلے جو فرزند رسول خدا پر قربان ہو وہ اس کا نور نظر ہو۔
یہاں علی اکبرسےکڑیل جوان کی والدہ ام لیلی ہیں۔
یہاں کم سن نوجوان قاسم کی ماں ام فروا ہیں۔
یہاں عون ومحمد سے بچوں کی ماں بی بی زینب ہیں۔
یہاں حضرت وہب کلبی سے جوان کی ماں شھادت کے لیے خود اپنے بیٹے کو دلہا کی طرح تیار کر کے لائی ہیں ۔
بلند حوصلے،
معرفت کی ایسی معراج،
یہ عمل صالح کی انتہاء
یہ کربلا کی مائیں ہیں۔
عزم و جرات کی عظیم چٹانیں،
دین مبین کی بنیادوں کو مستحکم کرنے والی ہستیاں۔
معاشرے میں خواتین کے نئے کردار کا رخ متعین کرنے والی یہ مائیں۔
بلا شبہ رہتی دنیا تک ایسی ہی مائیں تربیت اولاد کے لیے بہترین نمونہ رہیں گی۔
ایسی ہی ماوں میں سے ایک
چھ ماہ کے اصغرؑ کی عظیم ماں بھی ہے اس ماں نے عظیم جہاد کیا ہے
کربلا کا یہ شہید جو بظاہر تو بہت چھوٹا ہے لیکن حقیقت میں “پیر عشق” ہے۔
کیونکہ “باب الحوائج” ہے
یعنی جس کا واسطہ دے کر خدا کی بارگاہ میں دعا کرو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دعا رد ہو جائے
سات محرم کو ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ “حسینؑ اور آپ کے اصحاب اور پانی کے درمیان حائل ہوجائے اور اور انہیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پینے دے۔
خط ملتے ہی ابن سعد نے عمرو بن حجاج زبیدی کو 500 سوار دے کر فرات کے کنارے پر تعینات کیا اور حکم دیا کہ امام حسینؑ اور اصحاب حسین کو پانی تک نہ پہنچنے دے۔
ممکن ہے کسی کے ذھن میں آئے کہ حسین معجز نما ہیں تو معجزہ دکھا کے پانی کا چشمہ کیوں نہیں جاری کر لیتے؟
جواب
بالکل ، معجز نما ہیں۔ چاہیں تو پانی کا چشمہ جاری کر سکتے ہیں لیکن ایک تو آج مشیت ایزدی یہ نہیں
مشیت ایزدی یہ ہے کہ دنیا خدا کے نمائندے کا امتحان دیکھے
دوسرا مقصد آج ان منافقین کو بے نقاب کرکے ان کی حقیقت سامنے لانی ہے جنہوں نے فتح مکہ کے موقعہ پر خود کو بچانے کے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا تھا
دنیا عملا” دیکھ لے کہ ان کا اسلام سے کیا انسانیت سے بھی دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ورنہ زمانہ جاہلیت میں بھی جنگ میں بچوں کو جنگ سے دور رکھا جاتا تھا بچوں کے ساتھ جنگ کو وہ اپنی بہادری کی توہین سمجھتے تھے
چہ جائیکہ ایک شش ماہہ بچے پر سہ شاخہ تیر چلا دینا
تاریخ کے تلخ ترین لمحات قریب ہو رہے تھے، مظلوم کربلا کے تمام اعوان و انصار میدان کارزار میں جا کر اپنی قربانیاں پیش کر چکے تھے، خیام حسینی میں صرف دو مرد باقی بچے تھے ایک ابا عبد اللہ الحسین(ع) دوسرے بیمار کربلا سید الساجدین(ع) جو اس دن قضائے الہی سے بیمار ہو گئے تھے تاکہ نسل امامت باقی رہے اور امام حسین علیہ السلام کے بعد امت کی رہبری سنبھالیں۔
امام حسین علیہ السلام نے جب اپنے آپ کو تنہا پایا تو لوگوں پر اپنی آخری حجت بھی تمام کی اور بآواز بلند فرمایا: ’’ھل من ذابّ يذبّ عن حرم رسول اللہ؟
ھل من موحّد يخاف اللہ فينا؟
ھل من مغيث يرجو اللہ باغاثتنا؟
ھل من معين يرجو ما عنداللہ في اعانتنا؟‘‘
يعني: ’’کیا کوئی مدافع ہے جو حرم رسول اللہ کا دفاع کرے اور اس کی حفاظت کرے؟
کیا کوئی یکتاپرست ہے جو خدا کاخوف کرے اور ہماری مدد کو آئے؟
کیا ہے کوئی فریادرس جو خدا کے لئے ہماری نصرت کرے؟
کیا ہے کوئی جو خدا کی رضا اور رضوان کی خاطر ہماری مدد و نصرت کو آئے؟‘‘۔
امام علیہ السلام کی صدائے استغاثہ جب خیموں میں پہنچی تو بیبیاں سمجھ گئیں کہ امام علیہ السلام تنہا رہ گئے ہیں۔
خیام سے گریہ و بکاء کی صدائیں بلند ہوئیں۔ امام علیہ السلام نے خیموں کی جانب رخ کیا تاکہ بیبیاں آپ (ع) کو دیکھ کر کسی حد تک مطمئن ہوجائیں؛ اسی اثناء میں امام علیہ السلام کے شش ماہہ فرزند حضرت “عبداللہ ابن الحسین” – جو علی اصغر(ع) کے نام سے مشہور ہیں – پیاس کی شدت سے رونے لگے۔
علي اصغر شیرخوار طفل تھے؛ جن کی پیاس بجھانے کے لئے نہ تو خیموں میں پانی تھا اور نہ ہی ان کی والدہ ’’رباب‘‘ کے سینے میں دودھ تھا جو ان کو پلایا جائے۔
امام نے علی اصغر (ع) کے رونے کی آواز سنی انہیں گود میں لیا اور دشمن کی طرف چل پڑے؛ دشمنوں کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا: ’’یا قوم ان لم ترحمونی فارحموا ھذا الطفل، اما ترونہ کیف یتلظیٰ عطشانا‘‘۔ اے لوگو! اگر تم مجھ پر رحم نہیں کرتے تو اس طفل پر رحم کرو کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ پیاس کی وجہ سے کیسے تڑپ رہا ہے‘‘۔
لیکن گویا کہ سنگدل دشمنوں کے دلوں پر رحم کا بیج بویا ہی نہ گیا تھا اور دنیا کی تمام رذالتیں اور پستیاں ان کے وجود کی گہرائیوں تک گھر کرگئی تھیں؛ کیونکہ انھوں نے فرزند رسول(ص) کو چلو بھر پانی دینے کے بجائے بنی اسد کے ایک تیرانداز (جو مؤرخین کے بقول ’’حرملة بن كاہل‘‘ ہی تھا) کو کام تمام کرنے کا حکم دیا اور کہا
’’اقطع کلام الحسین(ع)
حسین(ع) کا کلام منقطع کرو‘‘۔ حرملہ نے ایک تیر کمان میں رکھا اور طفل شیرخوار کے گلے کا نشانہ لیا۔ اچانک امام حسین علیہ السلام کا ہاتھ اور سینہ خون میں نہا گیا… طفل تشنہ لب و شیرخوار کا سر مقدس بدن سے جدا ہوگیا تھا…
کیونکہ ذبح الطفل من الاذن الی الاذن۔۔۔ علی اصغر ایک کان سے دوسرے کان تک ذبح ہو گئے!
امام (ع) نے علی اصغر کا خون ہاتھوں میں لیا اور آسمان کی جانب پھینکا اور فرمایا: ’’هونٌ عَلَيَّ ما نَزَلَ بِي انہ بعين اللہ ـ
میرے اللہ اس مصیبت کا اٹھانا میرے لئے آسان فرما کہ تو دیکھ رہا ہے‘‘…
اسی حال میں، ’’حصين بن تميم‘‘ نے ایک تیر پھینکا جو امام حسین علیہ السلام کے لبوں پر بیٹھ گیا اور آپ کے ہونٹوں سے خون جاری ہوا۔ اور آپ(ع) نے آسمان کی طرف رخ کیا اور بارگاہ خداوندی میں عرض کیا: ’’بارالٰہا! میں تیری بارگاہ میں فریاد ہے ان تمام مظالم کی، جو اس قوم نے میرے اور میرے خاندان اور بھائیوں پر روا رکھے ہیں‘‘…
اس کے بعد دشمن کی سپاہ سے دور ہوئے؛ اپنی تلوار کی نوک سے چھوٹی سی قبر کھودی، خون میں لت پت اصغر کو دفن کر دیا…
جناب علی اصغر (ع) کی شہادت ائمہ طاہرین کے نزدیک، کربلا کی سب سے زیادہ تڑپا دینے والی شہادت تھی۔
منہال بن عمرو کوفی کہتے ہیں: مدینے میں امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، امام نے پوچھا: حرملہ کا کیا ہوا؟ عرض کیا: جب میں کوفہ سے نکلا تو وہ زندہ تھا۔ امام علیہ السلام نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور تین بار دعا کی: اللھم اذقہ حر الحدید، اللھم اذقہ حر الحدید، اللھم اذقہ حر الحدید، یعنی خدایا اسے لوہے کی گرمی کا مزہ چکھا دے۔
نیز عقبہ بن بشیر اسدی کہتے ہیں کہ امام باقر علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: ہم تم قبیلہ بنی اسد سے خون کے طلبگار ہیں۔ اور اس کے بعد جناب علی اصغر کی شہادت کا واقعہ سنایا۔
یہ تمام چیزیں اس بات کی علامت ہیں کہ جناب علی اصغر کے مصائب کا زخم اہل بیت(ع) کے سینے پر کس قدر شدید تھا۔
ساتویں محرم سے ملک میں جابجا جھولے نکالے جاتے ہیں۔ تا کہ لوگ یاد کرلیں کہ
عاشور کے دن امام حسین ع کاایک شیر خوار بچہ بھی تھا جس کا جھولا خالی ہوگیا تھا۔
جابجا پانی، شربت اور دودھ کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں تاکہ حسین کے اس شیر خوار بیٹے کی شھادت کی یاد زندہ رہے کہ جب امام حسین علیہ السلام کے اِن بچوں پر پانی بند ہوگیا۔ تو محض پانی مانگنے کے جرم میں اسے سہ شاخے تیر کے ساتھ شہید کر دیا گیا
یالیتنا کنا معکم۔۔۔ کاش ہم بھی کربلا میں ہوتے تو آپ کے لیے پانی لانے کی کوشش کرتے یا پھر آپ کے ساتھ شھادت کی منزل پہ فائز ہوجاتے
الا لعنة الله علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون