تحریر: عمر فاروق
بھروسہ اس حد تک ٹوٹ چکا ہے۔ غصہ اتنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بات کرنے کا فائدہ نہیں۔ انھیں کچلنا ہے تو کچلنے دو۔یہ جملے بی بی سی کی ایک رپورٹ سے نقل کیے ہیں ،یہ صرف الفاظ نہیں بلکہ حقیقی تصویرہے کشمیرکی ۔ یہ نشترنماحروف ایک طرف جہاں بھارتی فوج کے مظالم کانوحہ کررہے ہیں تودوسری طرف کشمیریوں کی بے بسی ولاچارگی کااظہاربھی کررہے ہیں ۔یہ دلخراش جملے اداکرتے ہوئے کشمیریوں کی تیسری نسل دنیا سے سوال کررہی ہے کہ یہ ظلم کے اندھیرے کب ختم ہوں گے، کب ان کی زندگی میں آزادی کی بہاریں آئیں گی؟
1948 کے بعد سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جموں و کشمیر تنازعہ پر ایک درجن سے زائد قراردادیں منظور کر چکی ہے جس کی مختصرتفصیل یہ ہے کہ مسئلہ کشمیرکے حوالے سے یکم جنوری 1948 کو بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 35 کے تحت یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا۔20 جنوری 1948 کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 39 منظور کی جس کے تحت شکایات کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیشن قائم کیا گیا۔ تاہم یہ کمیشن مئی 1948 تک عمل میں نہیں لایا جا سکا۔جب تک کمیشن حقیقت میں کوئی کام کر پاتا، خطے کی سیاسی اور عسکری صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی تھی۔
پاکستان اور ہندوستان کے دلائل سننے کے بعد سیکیورٹی کونسل نے 21 اپریل 1948 کو ایک نئی قرارداد منظور کی جس کے تحت پانچ ارکان پر مشتمل ایک نیا کمیشن بنایا گیا جس کا مقصد بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کی مدد کے ساتھ خطے میں امن و امان بحال کرنا اور کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے رائے شماری کی تیاری کرنا تھا لیکن یہ بھی بے سود رہا۔
پاکستانی اور ہندوستانی مندوبین کے موقف کی تفصیلی سماعت کے بعدمسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن نے 5جنوری 1949 کو مسئلہ کشمیر پر اپنی جامع قرارداد منظور کی جسے ہندوستان اور پاکستان نے اتفاق رائے سے قبول کیا ۔اس قرار داد کی رو سے دونوں ممالک کو پابند کیاگیا کہ وہ ریاست جموں وکشمیر میں جنگ بندی کا اہتمام کریں ، افواج اور بر سرپیکار رضا کاروں کا انخلا کریں اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کافیصلہ کرنے کے لیے مجوزہ کمشنر رائے شماری سے تعاون کریں تا کہ ریاست میں جلد از جلد کمیشن آزادانہ رائے شماری کا انعقاد کر سکے ۔جنگ بندی کے عمل کو مانیٹر کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے دونوں ممالک کی منظوری سے مبصرین تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
قبل ازیں 13اگست1948 کو بھی اس مسئلے کے حوالے سے ایک قرار داد منظور کی گئی ۔جس میں فی الفور سیز فائر کا مطالبہ کیا گیا اور یہ بھی قراردیا گیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی سے کیاجائے گا جس کا اظہار وہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کے ذریعے کریں گے۔
اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرار داد نمبر47 ( 1948 )
اس قرارداد میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جموں و کشمیر کی آزادی یا پاکستان اور ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری یعنی کہ جمہوری طریقے سے ہو گا۔
اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرارداد نمبر51 ( 1948 )
سلامتی کونسل کی یہ قرارداد بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے تنازع کے جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرارداد نمبر80 ( 1948 )
قرارداد جموں و کشمیر کے تنازعے کا حل اور حتمی تصفیے کا جمہوری طریقے اور عوام کی امنگوں کے مطابق ہونے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
اقوام متحدہ قرارداد نمبر91 ( 1951 )
یہ قرارداد بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ کشمیر میں بھارت کے زیر انتظام قائم کی گئی اسمبلی کی طرف سے ریاست جموں کشمیر کے مسئلے کا پیش کیا گیا کوئی بھی حل حتمی فیصلہ تصور نہیں ہو گا۔
اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرارداد نمبر98 ( 1952 )
اس قرارداد کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہونے والی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری سے ہی کیا جائے گا۔ الیکشن سے قبل علاقے میں ہتھیاروں کا خاتمہ کیا جائے گا مگر اس عمل سے پہلے پاکستان اور بھارت کو ایک مقررہ تعداد میں فوجی رکھنے کی اجازت ہو گی۔
اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرارداد نمبر122 ( 1957 )
اس قرارداد میں ایک مرتبہ پھر یہ عہد دہرایا گیا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے قائم کی گئی آئین ساز اسمبلی کا منظور کردہ کوئی بھی قانون یا آئین خطے کے مستقبل یا اس کی کسی ایک ملک کے ساتھ وابستگی کا تعین نہیں کرے گا۔
اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرارداد نمبر 1172 ( 1998 )
اس قرارداد کے تحت پاکستان اور بھارت کو تاکید کی گئی کہ وہ باہمی تنازعات کو دور کرنے اور امن و امان اور سلامتی سے متعلق تمام معاملات کے دیرپا حل کے لیے آپس میں بات چیت کا دوبارہ آغاز کریں۔
یہ قراردادیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک ایسا مضبوط اور ٹھوس حوالہ ہیں جسے نہ عالمی برادری نظر انداز کر سکتی ہے نہ ہندوستان ہی اپنی جان چھڑا سکتا ہے ۔ ہندوستان کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ کشمیری خود یا پاکستان اقوام متحدہ کی ان قراردادوں سے دستبردار ہو جائے اور ان سے اعلان برات کرے۔بالخصوص شملہ معاہدے کے بعد وہ بین الاقوامی برادری کو یہی باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ مسئلہ دو طرفہ ہے اور اب یہ قراردادیں غیر متعلق ہو گئی ہیں ۔بد قسمتی سے کشمیریوں میں بھی بعض عناصر ان قراردادوں کی نفی کر کے اپنے موقف کو کمزور اور بھارتی موقف کی تقویت کا ذریعہ بن رہے ہیں اور پاکستان کے اندر بھی ہمیشہ ایک لابی ایسی رہی ہے جو مسئلہ کشمیر سے جان چھڑانے کے لیے ان قراردادوں کو فرسودہ قرار دیتی رہی ہے۔
بعض لوگ ان قراردادوں کو فرسودہ قرار دیتے ہیں اور آٹ آف باکس حل(یاتیسرآپشن ) کانعرہ لگاتے ہیں خودمختاری کے نعرے کی آڑمیں دراصل وہ کشمیریوں اور پاکستان کے قومی موقف کو بے پناہ نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں بہرحال کشمیری یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان قراردادوں کی روح کے مطابق ان کے حق خود ارادیت کے حصول کو یقینی بنایا جائے ۔یہ قراردادیں کشمیریوں کو بنیادی فریق کا درجہ دیتی ہیں ،اس لیے کہ ان کی رو سے بنیادی فیصلہ کشمیریوں ہی نے کرنا ہے ۔ان قراردادوں کی رو سے مسئلہ کشمیر محض زمین کا جھگڑا نہیں ، بلکہ دو کروڑ کشمیریوں کے بنیادی حق کا مسئلہ ہے جسے محض دو طرفہ بنیادوں پر بندر بانٹ کے ذریعے سبوتاژ نہیں کیاجا سکتا ۔
5جنوری یوم حق خودارادیت کا تاریخ ساز دن کشمیری عوام اور قیادت کو عزم اور استقامت کے ساتھ اپنی منصفانہ جدوجہد جاری رکھنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔اس دن کومنانے کا مقصد اقوام متحدہ کو قراردادوں پر عمل درآمد کی یاد دہانی کرانا ہے،جن کے ذریعے کشمیریوں کوحق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔