نومبر 22, 2024

کربلا کا درس حریت

تحریر: سید منیر حسین گیلانی

کربلا انسانی تاریخ کا ایسا غمگین واقعہ ہے، جس کے اثرات کو آج تک محسوس کیا جا رہا ہے۔ ایام ماہ محرم الحرام جاری ہیں۔ مختلف مکاتب فکر اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق واقعہ کربلا کا تجزیہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ حیرت ہے کچھ لوگ تو کربلا کے واقعہ کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے۔ جبکہ باقی مکاتب فکر کربلا کے واقعہ کو تسلیم تو کرتے ہیں لیکن یزید کو بری ذمہ قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا ہم اس بحث میں نہیں جانا چاہتے کہ کون اس واقعہ کی وجہ بنا؟ میں سمجھتا ہوں کہ واقعہ کربلا کے وجود میں آنے کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہوئے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ یہ المناک واقعہ ایک دن کا نہیں، سالہا سال کی تاریخ اس میں پنہاں ہے۔ بنو ہاشم کے سردار حضرت عبدالمطلب اور حضرت ابو طالب کی نسل کو ختم کرنے کے بہت سے واقعات نظر آتے ہیں، جو گاہے بگاہے رونما ہوئے اور تاریخ کا حصہ بنے۔

کربلا کا مختصر واقعہ جو دسویں محرم کی صبح کو شروع ہوا اور عصر تک اختتام پذیر ہو گیا۔ ایسا دردناک واقعہ انسانی تاریخ میں پہلے کبھی رونما نہیں ہوا کہ جس کو یاد کر کے آہ و بکا اور گریہ اس واقعہ کا حصہ تو بن گیا ہے، لیکن اس کے اثرات اور مضمرات آج تک دنیا انسانیت پر اثر انداز ہو رہے ہیں، ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لوگوں کو مشہور صلح امام حسن علیہ السلام تو یاد ہوگئی کہ انہوں نے صلح کر کے اقتدار چھوڑ دیا لیکن اس دور رس معاہدے کی شرائط تاریخ کا حصہ ہیں، جن میں تسلیم کیا گیا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام پر شب و شتم نہیں کیا جائے گا، یمن کا خمس اہلبیتؑ کو دیا جائے گا۔ امیر شام کسی کو اپنا جانشین نامزد نہیں کریں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یزید کو جانشین نامزد کر دیا گیا اور تمام گورنروں کو احکامات دیئے گئے کہ وہ یزید کیلئے بیعت حاصل کریں، جس میں کوفہ، بصرہ، مصر، مدینہ اور دیگر شامل تھے۔ امت کے بڑے بڑے ناموں نے بیعت کر لی، لیکن جب حسین ابن علی علیہ السلام کو دارالامارہ طلب کر بیعت کا تقاضا کیا گیا تو آپ نے کہا کہ وہ بنو ہاشم سے مشورہ کرکے بتائیں گے۔

فرزندِ علی و فاطمہ نے ظالم و جابر کی بیعت سے انکار کر دیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے مکہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔ مدینہ سے مکہ روانگی سے پہلے مولا امام حسین اپنے نانا سید المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، والدہ ماجدہ فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا اور اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کی قبروں پر حاضری دی اور انہیں الوداعی سلام کیا۔ مدینہ سے مکہ تک ایک لمبا سفر تھا۔ امام حسین علیہ السلام کا مکہ میں قیام گھنٹوں نہیں، دنوں پر محیط تھا۔ تاریخ اس پر خاموش ہے کہ مکہ پہنچنے کے بعد امام حسین علیہ السلام اپنے دادا ابو طالب اور پردادا عبدالمطلب کے گھر ٹھہرے یا خیموں میں؟ پھرآخر وہ وقت آگیا کہ حالات کچھ اس طرح سے ہوئے کہ احرام حج میں میدان عرفات میں تشریف لائے تو دیکھا کہ حاجیوں کے روپ میں کچھ لوگ آپ کو شہید کر دینا چاہتے ہیں۔ حرمت کعبہ کو پامال ہونے سے بچانے کیلئے آپ نے احرام حج کو عمرہ میں بدل دیا اور اپنے چچا زاد حضرت مسلم بن عقیل کو چند افراد کے ہمراہ کوفہ روانہ کیا کہ وہاں سے آنیوالے خطوط کے تناظر میں حالات کا جائز ہ لے سکیں۔

حضرت مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی کے بعد امام حسین علیہ السلام نے میدان عرفات میں خطبہ دیا۔ جس میں آپ نے حاجیوں کو مخاطب کرکے اپنے قیام کربلا کے حالات کو بیان کیا اور واضح کیا کہ میں اپنے نانا کے دین کے تحفظ اور امت کی اصلاح کیلئے مدینہ سے نکلا ہوں۔ تاریخ میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ امام عالی مقام نے کسی کو لالچ دی ہو کہ کل اقتدار میں آ کر آپ کو فلاں فلاں عہدے اورمراعات دوں گا۔ جیسا کہ سیاسی معاملات میں پوری دنیا میں مروج ہے کہ مختلف گروہوں کو ساتھ ملانے کیلئے لالچ دی جاتی ہے۔ ان دنوں کئی اصحاب رسول جو حج کی غرض سے مکہ میں موجود تھے، تاریخ کہتی ہے کہ انہوں نے امام حسین علیہ السلام کو یزید کی بیعت سے انکار کی صورت میں خطرات کی طرف متوجہ تو کیا لیکن کسی نے بھی ان کیساتھ چلنے کی حامی نہیں بھری۔

امام کا قافلہ کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں ایک منزل پر رکے تو حضرت مسلم بن عقیل کی ساتھیوں سمیت شہادت اور خطوط لکھنے والے سرداروں کی گرفتاری کی خبر ملی۔ آپؑ نے امت کے نام پیغام دیا اور ساتھیوں پر واضح کیا کہ یزیدی گروہ مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔ میں آپ پر کوئی بندش یا ساتھ دینے کے عہد کو توڑنے کے راستے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں کرتا۔ آپ میری طرف سے آزاد ہیں۔ اپنے قبائل اور گھروں کو واپس چلے جائیں اور زندگی گزاریں۔ یہاں بھی امام حسینؑ نے آنے والی نسلوں، رہنماوں اور بڑی شخصیتوں کو ایک سبق دیا کہ حسینؑ جس راستے پر چل رہے ہیں، اس میں وہ اور ان کے ساتھی قتل کر دیئے جائیں گے۔ اس طرح انہیں لالچ دے کر ساتھ ملانے کی بجائے، امام نے ساتھیوں کو خطرات سے آگاہ کیا۔

قافلہ حسینی جو مدینے سے چلا، مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا، وہی قافلہ کربلا تک پہنچا۔ کوفے کے حالات پر تبصرہ کرنے سے پہلے کچھ حقائق پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں کہ کوفہ عراق کی ایک چھاونی تھی، جسے مدینہ میں حالات ناساز ہونے کے بعد امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے دارالخلافہ بنایا۔ یوں آپ مدینہ سے کوفہ منتقل ہو گئے۔ آپ کی خلافت کے ساڑھے چار سال اندرونی خلفشار اور جنگوں میں گزرے اور اسی وجہ سے مسجد کوفہ میں امیر المومنین کو شہید کروا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ لکھنے والے کچھ افراد اس بات پر مُصر ہیں کہ کوفہ کے لوگوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی ان لوگوں نے جناب امیرالمومنین علی علیہ السلام کا ساتھ دیا اور نہ ہی امام حسن علیہ السلام کا کبھی ساتھ دیا۔ جب گورنر کوفہ کو معزول کر کے عبید اللہ بن زیاد کو بصرہ کیساتھ کوفہ کا گورنر بھی بنا دیا گیا۔ اس کے ظلم کی وجہ سے کافی لوگوں نے جناب مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا، جبکہ قبائلی سرداروں کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔

امام حسین علیہ السلام کا قافلہ کوفہ کے قریب پہنچ رہا تھا تو ان کا راستہ روکنے کیلئے حضرت حُر کو ایک ہزار فوج کی نفری دے کر بھیجا گیا۔ امام حسین علیہ السلام کو کوفہ کے نزدیک سے کربلا کی طرف رخ کرنا پڑا۔ امام حسین علیہ السلام کی جنگ بے شک مختصر وقت کیلئے ہوئی لیکن آنیوالی نسلوں کی رہنمائی کیلئے ہر پہلو سے انہیں آگاہ کیا گیا تھا۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ’کربلا درس انقلاب‘ ہے۔ امام حسینؑ جب اپنے جانثاروں کی قربانی دے چکے تو آپ اکیلے میدان کربلا میں کھڑے ہو کر آواز بلند کرتے ہیں ’ھل من ناصر ینصرنا‘۔ ”ہے کوئی جو میری مدد کرے“۔ لیکن اس پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مولا! آپ کے تمام ساتھی، عزیز و اقارب شہید ہو گئے۔ اس حالت میں نواسہ رسول، علی علیہ السلام کے فرزند اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے لخت جگر میدان میں اکیلے کھڑے ہو کر با آواز بلند مدد کی صدا بلند کر رہے ہیں۔ جس کی آواز 2024ء میں، میں نے بھی سنی اور دیگر مسلمانوں نے بھی، خاص طور پر بنی نوع انسان نے آج کی کربلا کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں غزہ کے نہتے فلسطینی عوام، معصوم بچے بوڑھی ماوں اور عورتوں کو ذبح کیا گیا، ان کی املاک کو تباہ کیا گیا اور لشکر یزید کی طرح آج بھی اسرائیلی فوج گھروں کو تباہ کر رہی اور انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میری جنگ یزید کے ساتھ نہیں بلکہ یزیدیت کے خلاف ہے۔ آج ہمیں میدان کربلا میں حسینؑ اور حسینیت نظر آتی ہے مگر یزید نظر نہیں آ رہا تو ہماری جنگ تو یزیدیت کیخلاف ہے اور اس کو تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ آج کے یزید ’نیتن یاہو‘ نے فلسطین کے گھروں کو تہ و بالا کر کے اس سرزمین کے وارثوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ جس طرح یزیدی فوج نے امام حسینؑ کے خیمے کو آگ لگا کر انہیں بے گھر کر دیا تھا۔ امام کے معصوم بچوں جن میں چھ ماہ کا علی اصغر بھی شامل ہے، کو پانی دینے کی بجائے، تیر کے نشانے پر رکھ کر شہید کر دیا گیا۔ آج فلسطینی بچوں بچیوں اور ماوں کو ادویات کی فراہمی بند ہے۔ اسرائیل اور اس کی اتحادی حکومتیں فلسطینیوں کو خوراک پہنچانے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔

خواتین کوفہ سے کربلا، کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک تقریباً 1500 کلومیٹر کا فاصلہ خاندان رسالت کو اذیت دینے کیلئے کیا گیا تو آج کے دور میں یزیدی نظام کو اپنانے والا اسرائیلی حکمران نیتن یاہو یا اس کے حواری برطانیہ، امریکہ ہو یا  بڑی طاقتیں جو اسے سہولیات دے رہی ہیں۔ لہٰذا امام حسین علیہ السلام کی آواز’ھل من ناصر ینصرنا‘ کو آج بھی سنا جا سکتا ہے۔ آج اس آواز پر لبیک یا حسینؑ کہنے والے خواہ وہ لبنان کی حزب اللہ، شام عراق کی مزاحمتی تحریکیں، یمن کے حوثی مجاہدین کی’ انصار اللہ‘ اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہ ثبوت مہیا کر رہی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی آواز جو1400 سال پہلے میدان کربلا میں بلند ہوئی تھی، ہم آج بھی سن رہے ہیں اور ان کی مدد کیلئے آج کے حسین ؑکے حکم پر اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

four × five =