تحریر: سید اعجاز اصغر
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب نیو یارک میں ایک ڈاکو نے جاپان کے جنرل میک آرتھر کو اس کی کار پر حملہ کرکے لوٹنا چاہا میک آرتھر نے ڈاکو کو کہا کہ اگر توں واقعی انسان کا بچہ ہے تو بندوق پھینک کر مقابلہ کر اور پیسے لے جا، جب ڈاکو کو پتا چلا کہ وہ میک آرتھر ہے جن کی زیر قیادت وہ رینبو ڈویژن میں جنگ لڑ چکا ہے تو اس نے سخت معذرتیں پیش کیں اور میک آرتھر کو بغیر لوٹنے کے جانے دیا
پاکستان میں چپڑاسی سے لیکر صدر پاکستان تک صورتحال پر طائرانہ نگاہ ڈالنے کے لئے غیر ملکی سفیر اور بین الاقوامی سطح کے صحافی و تجزیہ نگار خفیہ کیمرے لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہمارے ٹوپی ڈرامے دیکھ کر ہمیں مزید رسوا کرنے کے لئے طویل مدت کے تھنک ٹینک بنا رہے، ہمارے تمام اداروں کی اخلاقی، و آئینی حالت زار دگرگوں اور ناقابل بیان ہے، جیسا کہ علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے حوالے سے جو حالیہ بیان دیا ہے اس سے نہ صرف ہمارے ملک کی بدنامی ہے بلکہ خود وکلا برادری اور سپریم کورٹ جیسے ادارے کی بھی توہین ہے، جناب علی احمد کرد اور پولیس افسران کے مابین سرینہ چوک میں مذاکرات کے دوران جو بیان کرد صاحب نے جاری کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں چھوٹے چھوٹے لوگ بیٹھے ہیں وہ ہمارے معیار کے نہیں ہم اسلام آباد ہائی کورٹ جا رہے ہیں، ہمیں جانے دو ورنہ بد مزگی کی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہو گی،
حیدرآباد میں SSP کے پروٹوکول کو ایڈووکیٹ کی گاڑی نے کراس کیا توSSP نے غصےمیں اس وکیل پر FIR کٹوا دی۔اسےجیل میں بند کیا گالم گلوچ بھی ہوئی۔وکیل نے کہا کہ اب نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہنا
بس پھر سارےوکیل SSP کےآفس کےباہر اکٹھے ہو گئےاب SSP باہر نہیں آرہا۔اور وہ گانا لگاکر احتجاج کر رہے، یہ ہے ہماری حالت جو زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کر رہی ہے، پاکستان کے علاوہ ہمارے ہمسایہ ملک جس کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ ہی کوئی رہبر ہے اس کی عزت دنیا میں ہم سے زیادہ ہے جس کا ثبوت حاضر خدمت ہے،
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے موضوع پر ورلڈ لیڈرز کانفرنس میں نریندر مودی کو سینٹر میں کھڑا کیا گیا جبکہ کینیڈا کے وزیراعظم کو ایک کونے میں جگہ دی گئی۔
یہ اہمیت مودی کو نہیں بلکہ اس کے ملک کو دی گئی ہے، انڈیا میں جمہورت کی جڑیں مضبوط رہیں، وہاں آرمی کی کبھی جرات نہ ہوسکی کہ وہ آئین توڑے یا مارشل لا لگا سکے، انڈیا میں الیکشن ہمیشہ باقاعدگی سے ہوتے رہے۔
دوسری طرف بھارت کے ساتھ آزاد ہونے والا اس کا ہمسایہ ملک، جہاں کا وزیراعظم اس کانفرنس میں مدعو تک نہیں کیا گیا، کیونکہ پاکستان کی نہ تو کوئی اہمیت ہے نہ ہی عزت۔ یہاں ہمیشہ آئین کو روندے رکھا، انسانی حقوق پامال کئے رکھے، جمہوریت کبھی قائم ہی ہونے نہ دی گئی انجام آپ کے سامنے ہے۔
یہ عزت مودی کو نہیں بلکہ اس کے اداروں کو دی گئی،
انتہائی افسوس ہے ہمارے اسٹیک ہولڈرز پر چاہے وہ بیورو کریٹس ہوں، جج صاحبان ہوں، وکلاء برادری سے تعلق رکھنے والے ہوں، یا سیاست دان ہوں ، سب ایک دوسرے پر طعن و دشنام، الزام تراشیاں، گالم گلوچ، جس لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ ہو چکا ہے، دنیا انتہائی مضحکہ خیز انداز میں ہمارا مذاق اڑا رہی ہے اور ہم فقط مال و دولت اور اقتدار کی ہوس میں درندگی کی تمام حدود پار کر چکے ہیں، کوئی کسی کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہتا، جنرل میک آرتھر کا کردار اتنا بلند تھا کہ ڈاکو کو اس کے سامنے معذرت کرنا پڑی، ہم سردار انبیاء کی امت ہونے کے باوجود ایک غیر مسلم میک آرتھر جیسا نہیں بن سکے جس کے سامنے ڈاکو آجائے تو اس ڈاکو کو لوٹنے کی ہمت نہ ہو ہم سب کا ڈوب مرنے کا مقام ہے، ہمارے ملک میں جنگل کا قانون ہے جس میں نہ وزیراعظم کی عزت ہے، نہ چیف جسٹس کا وقار ہے، نہ صدر پاکستان کی آبرو ہے، اور نہ ہی کسی وکیل، بیورو کریٹ، صحافی اور جرنیل کا احترام ہے، کیوں ؟؟؟؟؟؟؟
کسی شاعر نے یقینی طور پر ہمارے ملک کی حالت زار پر تشویش ناک انداز میں شعر پیش کیا ہے کہ
لے کے نام خدا کا اٹھو زنجیر ہلا دو مستی میں،
جنگل کا قانون ہے نافذ انسانوں کی بستی میں،