تحریر: نثار حسین سرباز
سوشل میڈیا میں کل چھموگڑھ گلگت میں پیش آنے والے ناخوش گوار واقعے سے متعلق لوگوں کی آراء سے لگتا ہے کہ ہمارے گلگت بلتستان کے زیادہ تر لوگ اس واقعے سے متعلق حقائق سے بالکل نا آشنا ہیں۔اور تو اور بعض نامی گرامی صحافی حضرات بھی لاعلمی کی وجہ سے اس واقعے کو کوئی اور رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کررہے ہیں۔چوں کہ میرا تعلق اسی علاقے سے ہی ہے اس لیے میں اس واقعے سے متعلق حقائق کو نسبتاً بہتر جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں۔اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ اس واقعے کے اصل محرکات اور حقائق سے قوم کو آگاہ کروں۔تاکہ قوم گمراہی کی وجہ سے اپنے چمن کو خود اپنے ہاتھوں سے اجاڑ نہ بیٹھے۔بلکہ اس کے برعکس قوم ان ہاتھوں کو پہچان لے جو اس چمن کو اجاڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور دشمن کے ان ہاتھوں کو کاٹ دے۔
مقپون داس میں سانحہ 88 ء کے دو شہداء کے مزارات واقع ہیں۔یہ مزارات "چھپو داسئی آستان” کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔لوگ کثیر تعداد میں فاتحہ خوانی کے لیے یہاں آتے رہتے ہیں۔پچھلے کئی سالوں سے اسی آستان میں مدفون شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے سالانہ مجلس امام حسین کا انعقاد کیا جاتا ہے۔پہلے پہل اس مجلس عزاء میں صرف ہیراموش کے مختلف گاؤں سے مومنین کرام کثیر تعداد میں شرکت کرتے تھے۔آہستہ آہستہ دیگر علاقوں سے بھی لوگ شریک ہونے لگے۔خصوصاً جلال آباد سے مومنین نسبتاً زیادہ تعداد میں شرکت کرنے لگے۔اس کی تین وجوہات ہیں۔پہلی وجہ یہ کہ اس مجلس میں ملک کے نامی گرامی علماء کرام مجلس پڑھنے آتے ہیں ان سے استفادہ کرنے کے لیے لوگوں کی کثیر تعداد اس مجلس میں دلچسپی لینے لگی۔دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ جلال آباد دیگر علاقوں کی نسبت مقپون داس کی قریب ترین آبادی ہے۔تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ جلال آباد میں ہیراموشیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔مذکورہ وجوہات کی بنیاد پر جلال اباد سے کثیر تعداد میں مومنین اس مجلس میں سالانہ شرکت کرتے ہیں۔جب کثیر تعداد میں مومنین چھموگڑھ سے گزرنے لگے تو اہلیان چھموگڑھ کو یہ غلط فہمی لاحق ہوگئی کہ یہ باقاعدہ جلوس یہاں سے گزر رہا ہے اور نواسہ رسول کا غم منانے اور بنت رسول کو پرسہ دینے والوں کا جلوس ان سے برداشت نہیں ہوسکا۔جب کہ یہ جلوس نہیں تھا بلکہ ایک مجلس میں شرکت کے لیے عزاداروں کا چھموگڑھ سے گزرنا تھا۔حق تو یہ تھا کہ اہلیان چھموگڑھ اپنے ہماسائیوں کو خوش آمدید کہتے اور ان کے لیے سبیلوں کا انتظام کرتے تاکہ امن امان کے لیے یہ عمل مددگار ثابت ہوتا مگر نہیں۔اہلیان چھموگڑھ نے بہت ہی تنگ دلی کا مظاہرہ کیا اور اہلبیت کے چاہنے والوں سے بغض و عناد کو ظاہر کیا۔
یہاں ان لوگوں کے لیے جو اس علاقے کی جغرافیہ سے واقف نہیں ہیں ان کے لیے بہت اہم نکتہ ہے۔ وہ یہ کہ چھموگڑھ مقپون داس اور جلال آباد کے بیچ میں واقعہ ہے۔جلال آباد والے چھموگڑھ سے گزر کر مقپون داس جاتے ہیں اور مجلس کے بعد چھموگڑھ سے ہوتے ہوئے جلال آباد آتے ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں یہاں اسی دن چھموگڑھ کے بھائیوں نے انتہائی تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عزاداروں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں جس کی وجہ سے حالات خراب ہوگئے۔مگر انتظامیہ کی مداخلت کی وجہ سے کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوا۔ڈی سی گلگت کی ذاتی کوششوں سے اس مجلس کے لیے جلال آباد سے آنے جانے والوں کے لیے کچھ اصول و ضوابط طے کیے گئے ۔یعنی جلال آباد کے عزاداروں پر کچھ پابندیاں عائد کی گئیں۔اس سلسلے میں جلال آباد والوں سے کہا گیا کہ آپ لوگ جلوس کی شکل میں چھموگڑھ سے نہ گزریں بلکہ ایک ایک دو دو ہوکر گزر جائیں۔اس کے علاوہ نعرہ بازی اور علم اٹھانے پر بھی پابندی لگائی گئی ۔نعرہ بازی میں کون سے نعرے ہوتے تھے یا علم کس کا اٹھایا جاتا تھا؟علم عباس ء کا اور نعرے حسینیت زندہ باد ، یذیدیت مردہ باد۔
جب میں نے گزشتہ سال اس معاہدے کے بارے میں سنا تو مجھے بہت تعجب ہواکہ چھموگڑھ کے مسلمان بھائیوں کو ان نعروں سے اور علم عباس سے کیسے عناد ہوسکتا ہے؟؟ بحر حال جلال اباد والوں نے اپنے ہمسائیوں کا دل رکھنے اور ان کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے نعرے لگانے،علم اٹھانے اور جلوس کی صورت میں چھموگڑھ سے گزرنا ترک کیا اور خاموشی کے ساتھ ایک ایک دودو ہوکر مقپون داس پہنچتے رہے اور مجلس میں شرکت کرتے رہے۔
کل بھی جلال آباد سے رسول خدا کے نواسے کے عزادار اسی طرح ہی امن و امان کے ساتھ معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے مجلس حسین میں شریک ہوئے۔جاتے ہوئے کوئی مشکل پیش نہیں آئی مگر واپس آتے ہوئے یہ نا خوشگوار واقعہ پیش آیا۔شاید جاتے ہوئے چھموگڑھ کے بھائیوں کا جذبہ ایمانی ماند پڑھ گیا تھا جس کو امام جمعہ نے جمعے کے خطبے میں تروتازہ کردیا۔جس کے نتیجے میں سینکڑوں نمازی نہتے چار عزاداروں پر ٹوٹ پڑے ۔
عینی شاہدین اور زخمیوں کے مطابق دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار نوجوان مقپون داس سے واپس آتے ہوئے دیگر عزاداروں سے پہلے چھموگڑھ کے احاطے میں داخل ہوئے۔یہ نہتے عزادار بالکل خاموشی سے جلال اباد کی طرف رواں دواں تھے کہ چھموگڑھ کے علاقے میں نماز جمعہ پڑھ کر نکلے ہوئے مسلمان بھائیوں نے ان پر بلا وجہ پتھراو کیا۔بس یہی پتھراوکرنے والے اور کروانے ولے اس واقعے کے اصل زمہ دار ہیں۔ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی ہونی چاہیے ۔ بحرحال یہ چاروں عزادار بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر واپس ہیراموش کی طرف چلے گئے اور مجلس سے جلال آباد کی طرف انے والوں سے مل گئے۔
عینی شاہدین کے مطابق پولیس والوں نے بچ بچاؤ کروانے کی کوشش بھی کی اور مقپون داس سے انے والے مزید عزاداروں کو چھموگڑھ میں داخل ہونے نہیں دیا تاکہ کوئی ناخوش گوار واقعہ نہ ہوجائے۔یہاں ایک حیرت انگیز چیز دیکھی گئی کہ جب نمازی اپنے نواسہ رسول کے عزاداروں پر پتھراؤ کررہے تھے اسی وقت پنجاب رینجر کے جوان مبینہ طور پر وہاں موجود تھے۔لیکن حیرت انگیز طور پر رینجر کے جوان تماشہ دیکھتے رہے اور حملہ آورں کو روکنے اور ان بچوں کی جان بچانے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی۔یہ مجرمانہ غفلت ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ادارے کے زمہ داروں کو اس غفلت پر سخت نوٹس لینا چاہیے۔
اب یہاں پر کچھ اہم نکات ہیں جن پر سوچنا اور تجزیہ و تحلیل کرنا ہم سب کا فریضہ ہے اور حکومت وقت کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کے اداروں کا بھی فرض ہے کہ شفاف تحقیقات کے ذریعے مجرموں کو سخت سے سخت سزا دیں۔جن لوگوں نے ان نہتے عزاداروں پر پتھراو کیا ہے،ان کی موٹر سائکلیں جلائی ہیں وہ لوگ امن و امان اور اس علاقے کے دشمن ہیں۔ان مجرموں کو اور ان کے پیچھے جو لوگ ہیں ان سب کو نشان عبرت بنانا چاہیے۔یہاں انتہائی تعجب کی بات یہ ہے کہ چھموگڑھ کے تمام باشعور بھائی:-علمائے کرام،معتبران اور علاقے کے عمائیدین کیسے اس فعل قبیح کی حمایت کرسکتے ہیں۔ایسے شرپسند عناصر کو تو عبرت کا نشان بنانا چاہیے لیکن افسوس ہم فرقہ وارانہ تعصب میں ان لوگوں کو بھی تحفظ دیتے ہیں جو ہمارے ہی آشیاں کو اجاڑنے کا موجب بنتے ہیں۔
جب عزاداروں کو یرغمال بنانے اور چار عزادار بچوں کو زخمی کرنے کی خبر جلال آباد میں پہنچ گئی تو جلال آباد میں سنسنی پھیلنا فطری امر تھا۔یہاں کے تمام لوگ انتہائی طیش میں چھموگڑھ کی طرف پیش قدمی کرنے لگے۔ادھر سے ہیراموش جانے والے عزاداروں کے قافلے بھی واپس عالم برج میں اگئے اور وہاں دھرنے پر بیٹھ گئے۔یوں حالات کشیدہ ہوگئے اور بات یہاں تک پہنچی کہ ایک شخص کی جان چلی گئی اور کئی لوگ زخمی ہوگئے۔
یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جلال آباد کے لوگ پر امن طریقے سے اپنے حدود میں قیام پذیر تھے۔ہیراموش کی طرف سے آنے والے عالم برج پر موجود تھے۔کوئی بھی چھموگڑھ میں موجود نہیں تھا تو چھموگڑھ میں فائرنگ کن کے مابین ہورہی تھی؟؟اور ملک نامی شخص کس کی گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا جب کہ کوئی بھی عزادار چھموگڑھ میں موجود نہیں تھا۔یہاں پر ایک بات یقینی ہے اور ذرائع کا کہنا یہ ہے کہ چھموگڑھ کے شرپسند عناصر نے سکیورٹی پر معمور جوانوں پر گلیوں سے مبینہ طور پر فائرنگ کررہے تھے۔نتیجے میں جوابی فائرنگ کی گئی ہوگی جس کے نتیجے میں مذکوہ شخص اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا ۔یا یہ بھی احتمال ظاہر کیا جاتا ہے کہ شرپسندوں نے خود ہربن سے تعلق رکھنے والے شخص کو گولی ماری ہو تاکہ کوہستان کے لوگوں کو پھر سے دہشتگردی کرنے پر آمادہ کیا جائے اور قراقرم ہائی وے کو پھر سے غیر محفوظ بنایا جائے۔
میں موقعے پر موجود تھا اور کئی گھنٹوں تک وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں بذات خود سنتا رہا۔یہ فائرنگ یقیناً سکیورٹی اہلکاروں اور چھموگڑھ والوں کے مابین ہی ہورہی تھی۔ دونوں طرف سے سکیورٹی اہلکار ہی عزاداروں کو چھموگڑھ کے حدود میں داخل ہونے نہیں دیتے تھے جس کے نتیجے میں جلال آباد یا ہیراموش کا کوئی بندہ چھموگڑھ میں موجود ہی نہیں تھا۔تو قتل جلال آباد والوں کے ہاتھوں کیسے ہوگیا؟بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا ہے۔
جلال آباد اور چھموگڑھ والے سال بھر اچھے ہمسائیوں کی طرح رہتے ہیں۔آپس میں لین دین کرتے ہیں۔ایک دوسروں کے علاقوں سے بحفاظت گزرتے ہیں۔حتیٰ کہ ایک دوسروں کے غم اور خوشی میں بھی شریک ہوتے ہیں۔مگر نہ معلوم صرف اسی دن ان کو کیا ہوجاتا ہے؟؟ اسی دن ہی چھموگڑھ والے جلال آباد والوں کے خون کے پیاسے کیوں ہوجاتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ کوئی اور ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہو۔مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ چھموگڑھ کے چند شر پسند عناصر استعمال ہوتے ہیں اور باقی عوم جہالت کی وجہ سے شر پسندوں کا ساتھ دیتی ہے۔جس طرح قراقرم یونی ورسٹی میں یوم حسین میں چند بکاو مال شرپسند استعمال ہوتے ہیں اور باقی اہل سنت کمیونٹی کو آڑ بناکر یوم حسین منانے نہیں دیا جاتا ہے۔جب کہ اہل سنت برادری عاشقان رسول پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک عاشق رسول سنی مسلمان کو اس کے بنی کے نواسے کے دن سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے۔
ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ کچھ شرپسندوں کی شرپسندی سے اور باقی لوگوں کا ان کی حمایت کرنے سے معاشرے میں کتنی بدامنی پیدا ہوجاتی ہے۔امن ہم سب کی ضرورت ہے اور بدامنی سے سب کے گھر اجڑتے ہیں۔بد امنی کسی کے مفاد میں نہیں ہے لہٰذا ہم سب کو چاہیے کہ دہشتگردوں اور شرپسندوں سے لاتعلقی کا اظہار کریں اور ہر وقت امن و امان کے قیام کو یقینی بنائیں۔
آخر میں میں اہلیان چھموگڑھ سے بالخصوص اور گلگت بلتستان کے اہل سنت بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ انکھیں بند کرکے اس قسم کے شرپسندوں کی حمایت نہ کریں اور نہ ہی خاموشی اختیار کریں۔آپ سے میں یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ کم از کم ان شرپسندوں سے جنھوں نے نہتے مسافر عزاداروں پر بلاوجہ پتھراو کیا اور پورے علاقے کے امن و امان کی فضاء کو خراب کیا ان سے پوچھ لیں گے کہ بلاوجہ پتھر کیوں مارے؟؟
چھموگڑھ ہر طرح کی برائیوں کی جڑ ہے۔یہاں چوری چکاری،سمگلنگ اور منشیات کا کاروبار عام ہے۔اج تک اس سلسلے کی کسی گاڑی پر چھموگڑھ والے حملہ آور نہیں ہوئے۔اس وقت آپ کی دینی غیرت کہاں مرجاتی ہے؟؟کیا آپ کی دینی غیرت صرف آپ کے نبی کے نواسے کے خلاف ہی جاگ جاتی ہے؟؟
جلال اباد والے ہی میوزک اور ڈھول ڈھماکے کے ساتھ چھموگڑھ سے بار ہا گزرتے ہیں۔اس وقت تو آپ پھول برساتے ہو۔مگر وہی جلال آباد والے حسین کا نوحہ سنتے ہوئے آتے ہیں تو کون سی قیامت آجاتی ہے؟؟ہم خوب سمجھتے ہیں کہ کون سی قیامت تمھارے سر پر ٹوٹتی ہے۔یہ تمھارے آقاؤں کو امام حسین کی عزاداری ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے۔ تم تو بس مہرے ہو اور آقا کو خوش کرنے لے لیے یہ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہو۔مگر تم اور تمھارے آقا دونوں یاد رکھنا کہ امام حسین کی عزاداری جہاں دبائی جاتی ہے وہاں کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے۔