جولائی 30, 2025

تحریر: زاہد حسین

گزشتہ ہفتے نجی ٹی وی چینل کی شہ سرخیاں کچھ یوں تھیں کہ ’مری میں شریف خاندان کے اجلاس میں پنجاب کی صوبائی حکومت کو توسیع دینے کی منظوری دے دی گئی ہے‘۔ یہ رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح ملک کے سب سے بڑے اور طاقتور صوبے میں حکومت کے معاملات عملی طور پر ایک خاندان کا کاروبار بن چکے ہیں۔

پاکستانی سیاست میں خاندانی تسلط کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن پنجاب میں جس قسم کی خاندانی حکمرانی رائج ہے، وہ رجعت پسند طاقت کے ڈھانچے کی کہانی بیان کرتی ہے۔ بہ ظاہر نہ صرف اہم پالیسی معاملات کے فیصلے خاندان کے افراد کی آپس میں ملاقات کے دوران کیے جاتے ہیں بلکہ حکومتی سرپرستی میں سابق وزیراعظم اور شریف خاندان کے سربراہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز جوکہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں، کسی فرقہ کے لیڈر کی طرح بن چکے ہیں جہاں وہ سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ صوبے میں زیادہ تر بڑے سرکاری ترقیاتی منصوبے دونوں میں سے کسی ایک کے نام پر ہیں۔ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے کچھ پرانے پروجیکٹس کا نام بھی وزیر اعلیٰ کے نام پر رکھنے کا اقدام کیا جارہا ہے۔

صوبائی حکومت مختلف شعبوں میں اپنی کارکردگی کو سراہتے ہوئے بڑے پیمانے پر اشتہاری مہم چلا رہی ہے جس میں وزیراعلیٰ مریم نواز کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں کی جاتی ہیں۔ جبکہ کچھ میں ان کے والد کی تصاویر بھی ہوتی ہیں۔

یہ اشتہاری مہم بہ ظاہر سرکاری اخراجات سے چلائی جارہی ہے۔ حال ہی میں صوبے میں آویزاں پوسٹرز میں وزیر اعلیٰ کو ’مادرِ ملت‘ یعنی قوم کی ماں کہا گیا۔ یہ مہم شاید صوبائی حکومت کی جانب سے اسپانسر نہ کی گئی ہو لیکن یقینی طور پر اسے حکمران جماعت نے منظم کیا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں موروثی سیاست عام ہے لیکن ملک نے شاذ و نادر ہی اتنے بڑے پیمانے پر خود نمائی دیکھی ہو۔

ایسی مہمات صرف ایسی آمرانہ طرزِ حکمرانی میں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں جس کی قانونی حیثیت مبہم ہو۔ لیکن یہ تشہیری اقدامات قلیل المدتی ہیں جو مقاصد کو پورا نہیں کر سکتے۔ اپنی جائز قانونی حیثیت اور مقبولیت کو ریاستی سرپرستی میں چلنے والی تشہیری اقدامات کے بَل پر نہیں جیتا جا سکتا۔ اس قسم کی ذاتی تشہیری مہم جو عوام کے ٹیکس کے پیسے سے ادا کی جاتی ہے، خود نمائی سے بڑھ کر ہے اور اس کے واضح سیاسی مقاصد ہیں۔

درحقیقت حکومت کے زیرِ اہتمام اشتہارات میں ذاتی تصاویر لگانا اور ایسے پروجیکٹس کو کسی حکومتی سربراہ کا نام دینا جن میں ریاستی فنڈز استعمال ہوتے ہیں، بہت سے ممالک میں غیرقانونی سمجھا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ 2022ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں نعیم صادق نے نوٹ دیا تھا کہ ’ریاست کے تنخواہ دار ملازمین، آئینی عہدے داروں اور حکومت میں سیاست دانوں کو اپنے عہدوں کو ذاتی، متعصبانہ یا مالی مفاد کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے‘۔ فیصلے کے صفحات میں مزید کہا گیا، ’پاکستان سلطنت یا جاگیر نہیں ہے جہاں عوام اپنے حکمرانوں کے آگے جھک جائیں‘۔

گمان یہی ہوتا ہے کہ ملک واقعی ایک جاگیر میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں اصولوں اور اخلاقی اقدار کا کوئی احترام نہیں۔ قابل اعتراض مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں واپس آنے والے حکمران خاندان کی اپنی پذیرائی جمہوری عمل کا مذاق اڑاتی ہے۔ اقتدار وزیر اعظم اور سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کے ہاتھوں میں ہے جبکہ ان دونوں کا تعلق شریف خاندان سے ہے۔

کیا یہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر ممکن ہوسکتا تھا؟ اپنی پذیرائی کی یہ مہم صرف عوامی قائدین تک نہیں بلکہ ملٹری قیادت بھی اس میں پیش پیش ہے۔ سویلین اور فوجی قیادت کے لیے اپنا تشخص بہتر بنانے کی کوششیں طاقت کے ہائبرڈ ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے ٹھوس منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔

یہ واضح ہے کہ پردے کے پیچھے حقیقی طاقت کس کے پاس ہے۔ شریف خاندان کو ثانوی کردار ادا کرنا ٹھیک لگتا ہے۔ غالباً اس لیے کیونکہ وہ انہیں پس پردہ حکمرانوں کی مدد سے ہی اقتدار میں واپس آئے ہیں۔

سب سے زیادہ شریف خاندان کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ اقتدار کی سیاست کتنی خطرناک اور غیرمستحکم ہوسکتی ہے۔ وہ ماضی میں بھی کئی بار پاکستانی سیاست کے تیزی سے بدلتے منظرنامے میں اپنا اقتدار کھو چکے ہیں۔ اس کے باوجود اقتدار کی کشش اتنی مضبوط ہے کہ وہ اپنی ہی مثال بھُلا بیٹھے ہیں۔

وہ جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوششوں میں آلہ کار بن چکے ہیں۔ ان کی اقتدار میں واپسی انتخابی عمل میں ہیرا پھیری کا نتیجہ ہے جوکہ عوامی مینڈیٹ سے محروم حکومت کی کمزوری کو بھی وضاحت کرتا ہے۔

واقعات نے قابلِ ذکر موڑ لیا اور وہ خاندان جو کبھی رسوا ہوا تھا، اس نے ایک بار پھر اقتدار کی راہداریوں میں اپنی جگہ بنا لی۔ تین بار برسرِ اقتدار آنے والے نواز شریف کو 2017ء میں سپریم کورٹ نے برطرف کردیا تھا اور ایک اور متنازع فیصلے کے ذریعے عوامی عہدہ سنبھالنے کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔ انہیں اپنی بیٹی اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ کرپشن کے متعدد الزامات میں سزا سنائی گئی۔

اقتدار سے بےدخلی کے بعد وہ اور ان کی سیاسی جماعت نے ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے نعروں سے عوام کو اپنی حمایت میں متحرک کرنے کی کوششیں کیں۔ لیکن ڈیل ہونے کے بعد تمام جمہوریت نواز اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان بازیوں کا سلسلہ تھم گیا۔ اپنی برطرفی کے بعد 4 سالوں سے بھی کم عرصے میں مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر اقتدار میں آگئی۔ عمران خان کو پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹائے جانے کے بعد بنایا گیا نیا سیٹ اپ جو پردے کے پیچھے عناصر کی وجہ سے ممکن ہوا، میں نواز شریف کے چھوٹے بھائی وزیر اعظم بنے۔

لیکن بڑے بھائی ملک واپس آنے سے پہلے انتخابی نتائج کے اعلان کا انتظار کرتے رہے۔ کچھ ہی دنوں میں عدالتوں نے ان کی سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا اور ان کی نااہلی کو ختم کر دیا گیا۔ انہیں یقین تھا کہ ان کی پارٹی انتخابات میں کلین سویپ کرے گی، اس لیے جب گنتی شروع ہوئی تو انہیں جھٹکا لگا ہوگا۔

وہ مانسہرہ کی نشست سے ہار گئے جبکہ لاہور کی نشست پر ان کی کامیابی بھی مشکوک تھی۔ وزیراعظم بننے کا ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ لیکن ان کی پارٹی کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پشت پناہی کو یقینی بنایا پھر چاہے انتخابی نتائج جو بھی ہوں۔

شریف خاندان کے زیادہ تر اراکین جنہیں پہلے سزا ہوئی اور جیل جانا پڑا، اب طاقت کے ڈھانچے کا حصہ ہیں حالانکہ نواز شریف نے پس منظر میں رہنے اور پارٹی کی قیادت کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کے پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے اور اپنے آپ کو ایک عظیم رہنما اور سربراہ کے طور پردیکھنے جانے پر ممنون دکھائی دیتے ہیں۔ جمہوریت کے عظیم چیمپیئن کو اس وقت کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کہ جب ووٹ کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہو۔

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaAOn2QFXUuXepco722Q

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

20 − 17 =