تحریر: رستم عباس
پیروان امامت سے مراد وہ گروہ ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت علی علیہ السّلام کی امامت و ولایت کا معتقد ہے۔اور ایک سیاسی نظام حکومت کا دعویدار ہےجس کو امامت و ولایت کہتے ہیں۔کیونکہ مکتب اہل بیت کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں کئی دفعہ اپنے بارہ جانشینوں کا اعلان کر چکے تھے۔جن میں ایک مشہور واقع آپکا خطبہ حجتہ الوداع ہے۔جس میں آپ نے حضرت علی علیہ السّلام کو آپنے بعد مولا ڈیکلیر کیا اور آنکے بعد 11اماموں کے نام بھی امت کو بتا دئیے
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد عملاً ایسا ہوا نہیں۔ امت نے اپنی مرضی سے اپنا حاکم چنا چند بڑے نام سقیفہ بنی ساعدہ میں اکھٹے ہوئے۔ اور حضرت ابوبکر کی خلافت پر بل آخر اتفاق کر لیا۔
لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اہل سنت حکومت کا کوئی واضع اور جامع نظام وضع نہیں کر سکے۔ پہلے خلیفہ کو چند لوگ منتخب کرتے ہیں۔دوسرے کو پہلے خلیفہ کسی مشورے کسی شورای کے بغیر ہی حاکم بنا دیتے ہیں۔جبکہ تیسرے خلیفہ کے لیے پھر 6رکنی شورای حضرت عمر بنا دیتے ہیں۔پھر اس کے بعد حضرت عثمان کے ساتھ کیا ہوا اور حضرت علی علیہ السّلام کس طرح حاکم بنے یہ سب جانتے ہیں۔اس کے بعد ملوکیت اور بادشاہت کا زمانہ ہے۔اس وقت پاکستان میں امامت کے پیروکار تقریبآ 4کروڑ کے لگ بھگ ہیں۔لیکن انکا نظام یعنی امامت و ولایت پر بلکل ایمان نہیں ہے۔اپ دیکھ لیں پاکستان کی ہر سیاسی جماعت میں شیعہ بڑی تعداد میں موجود ہیں اگر یہ لوگ امامت کو صرف عقیدہ رکھنے کی بجائے نظام زندگی کے طور پر لیتے تو شیعہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی اور سماجی طاقت ہوتے۔
رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا تھا ولایت علی قلعہ ہے جو اس میں آگیا وہ عذاب سے محفوظ ہے۔
عوام کا کیا رونا علماء بھی بے بصیرت اور آخرت کی بجائے عاجلہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ یعنی ادھار کی بجائے نقد پر اکتفاء کیے ہوئے ہیں۔جمہوریت کے نالے میں دوسرے طبقوں کے ساتھ یہ بھی بہہ رہے پیں۔
شیعہ کا اکثریتی فرقے سے اختلاف بھی اسی سیاسی روش سے شروع ہوتا ہے۔اور تاریخ بھر میں شیعہ نے اس عقیدے کن بھاری قیمت چکائی ہے اب تک چکا رہے ہیں۔لہزا پہلے امامت کے پیرو کو امامت کے نظام سیاسی پر ایمان لانا چاہیے جمہوریت سے دور ہونا چاہئے اور پوری قوم کو ولایت علی نظام سیاست الہی پر ایمان لانا چاہیے اور ایک رہبر اور قائد پر متفق ہو نا چاہیے۔پھر کوئی سیاسی موقف اپنائیں جتنے شیعہ سب ایک نقطے پر آجائیں کہ ولایت و امامت اسلام کا نظام سیاسی ہے اور ہم اس کے ہی پیرو ہیں کسی دوسرے نظام کس سپورٹ نہیں کریں گے آپ اسماعلیہ جو شیعہ کی ہی ایک شاخ ہے اس کا مقام اور ہم جو اثناء عشری شیعہ ہیں اپنا مقام دیکھیں کہ کون زیادہ طاقت ور ہے پرنس کریم آغا خان جب پاکستان میں آتے ہیں تو انکو وزیراعظم کا پروٹوکول دیا جاتا ہے۔اسی طرح بوہرہ شیعہ ہیں یمن کے تین امامی حوثی ہیں یہ سب سے ہم سے اثناء عشری شیعوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔اگر ایران نے عزت حاصل کی ہے تو نظام امامت کی ہی بدولت ہے۔اور اگر اسماعیلی بوہرہ حوثی باعزت ہیں تو نظام امامت کی وجہ سے
اس لیے پاکستان کے شیعوں کو بھی نظام امامت کی طرف آنا چاہیے تاکہ عزت و سر بلندی حاصل کریں۔
اور نظام امامت پوری امت مسلمہ کے لیے نجات کا باعث ہے یہ ایک فرقے کے لیے نہیں ہے نظام امامت ہی نظام اسلام ہے۔اور یہ راہ حل ہے پاکستان کی تمام مشکلات کا
اس وقت ایم ڈبلیو ایم جس سیاست کے پیچھے سربکف ہے اس سے ان کو کچھ نہیں ملنے والا پاکستان کی مقتدرہ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ عمران خان کو اقتدار نہیں دینا۔اس کی اپنی علاقائی اور عالمی وجوہات ہیں۔تو کیا بہتر نہیں آپ آپس میں تفرقے سے توبہ کریں علامہ ساجد نقوی راجہ ناصر اور دوسری تمام شیعہ جماعتیں ایک ہو جائیں اور سب مل کر اتفاق سے ایک ایجنڈا ایک قائد ایک نظام سیاسی پر متفق ہوجائیں تاکہ ملک بھی محفوظ ہو ملت بھی محفوظ ہو امام مہدی بھی خوش ہوں۔اور متحد ہو کر عالمی سازشوں کا مقابلہ کریں ۔