تحریر: عمر کریم
پاکستانی نقطہ نظر سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں کے خلاف حملوں میں ملوث بلوچ عسکریت پسندوں کی ایران میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔
پاکستان کے سرحدی گاؤں میں گذشتہ ہفتے ایرانی ڈرون حملوں کے بعد پاکستان نے بھی ایران کے اندر پاکستان مخالف بلوچ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ پاکستان نے ایران میں تعینات اپنے سفیر کو واپس بلا لیا اور تمام دوطرفہ تعلقات معطل کر دیے، جس کے بعد دوطرفہ تعلقات اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان کئی دہائیوں سے دوطرفہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد پر سلامتی کی صورت حال بھی دونوں فریقوں کے درمیان مسئلہ چلی آ رہی ہے۔
پاکستانی نقطہ نظر سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں کے خلاف حملوں میں ملوث بلوچ عسکریت پسندوں کی ایران میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔
ایران کی طرف سے الزام لگایا جاتا ہے کہ پاکستان ایران مخالف بلوچ عسکریت پسند گروہوں کو پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔ ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے انڈین انٹیلی جنس اہلکار کلبھوشن یادو کی گرفتاری نے پہلے سے ہی نازک چلی آنے والی سرحدی سلامتی کی صورت حال میں نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔
دونوں فریقوں کے درمیان تنازعے کا تیسرا نکتہ شام کی خانہ جنگی میں حصہ لینے کے لیے ایران کی جانب سے پاکستان سے جنگجوؤں کی بھرتی ہے۔
زینبیون ملیشیا کے جھنڈے تلے اکٹھے کیے گئے اس گروپ کو پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے وجود میں آتا پانچواں ستون اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
اس صورت حال کے باوجود پاکستان کے سول اور فوجی حلقوں نے گذشتہ برسوں کے دوران ایران کے بارے میں مصالحانہ رویہ اختیار کیا ہے اور تنازعات پر روابط کو ترجیح دی ہے۔
اسی پالیسی کے نتیجے میں پاکستان کے آرمی چیف نے ایران اور ایرانی مسلح افواج کے سربراہ نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے سمیت انسداد دہشت گردی کے خلاف کوششیں مربوط ہوئیں۔
اس کے باوجود ایران نے دہشت گرد گروپ جیش العدل کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر پاکستان کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور متعدد مواقعوں پر پاکستان کے اندر حملے کرنے کی دھمکی دی۔
پاکستانی حکام کے پاس ایران کے اندر مختلف گروپوں کی تنظیم بلوچ راجی اجوئی سنگر (براس) سے منسلک بلوچ عسکریت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں بھی قابل اعتماد انٹیلی جنس معلومات موجود ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان نے ایران کے اندر ان عناصر کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرنے کی سرعام کبھی دھمکی نہیں دی۔
اس پس منظر میں 16 جنوری کے ڈرون حملوں نے ایران کی طرف سے اہم تبدیلی کی نشاندہی کی۔ اس بار ایرانی حکام نے کھلے عام ان حملوں کا اعتراف کیا اور پاکستان کی علاقائی خودمختاری پر کسی بھی طرح کے اثرات کو نظر انداز کیا۔
ماضی میں خفیہ کارروائیوں یا پاکستان میں متعلقہ حکام کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے کے برعکس ایران نے جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی سرحدوں کے اندر اپنی فوجی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا۔
یہ کارروائی ممکنہ طور پر اس خطرناک مفروضے پر مبنی تھی کہ پاکستان ملک کے اندر ہونے والا حملہ نظرانداز کر دے گا اور یہ کہ اس مہم جوئی پر کوئی جوابی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
پاکستان کی طرف سے پیشرفت نے ایران کے بارے میں صورت حال کو تبدیل کر دیا۔ ایرانی حملے اس وقت ہوئے جب پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات کر رہے تھے۔ افغانستان کے لیے ایرانی نمائندہ خصوصی پاکستان میں موجود تھے جہاں وہ پاکستانی حکام کے ساتھ تبادلہ خیال میں مصروف تھے اور پاکستانی بحریہ ایرانی بحریہ کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں کر رہی تھی۔
ایسے حالات میں ان حملوں کا ہونا کہ جب دونوں ممالک کے درمیان مواصلات کے بہت سے رسمی اور سفارتی ذرائع فعال تھے، پاکستانی حکام کے لیے تشویش کا باعث تھا جب کہ ان مصروفیات کے کھوکھلے پن کا اشارہ ملا۔
چونکہ ایرانی حملے نے تعلقات کے قواعد کو تبدیل کر دیا لہٰذا دونوں فریقوں کی سکیورٹی ایجنسیوں کے مابین موجودہ مفاہمت اب برقرار نہیں رہی۔ اس حملے نے پاکستان کے اندر بھی متفقہ بحث کو جنم دیا کہ قوم کو منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔
سٹریٹجک نقطہ نظر سے پاکستان کی خودمختاری کا تحفظ اولین ترجیح بن گیا، بھلے ہی پاکستان ایران کے ساتھ کوئی تنازع نہ چاہتا ہو۔ مستقبل میں ایسی کسی بھی کوشش کا راستہ روکنے کے لیے پاکستان نے ایران کے اندر حملے کیے۔
اس عمل سے دہرا مقصد حاصل کیا گیا۔ ایک تو ایران کو واضح پیغام بھیجا گیا، جب کہ بلوچستان کے اندر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں پر حملوں کے براہ راست ذمہ دار عسکریت گروپوں کے خلاف کارروائی کے پاکستان کے عزم کا بھی اعادہ کیا گیا۔
اس ہفتے پیش آنے والے واقعات نے پاکستان میں ایران کی ساکھ کو بڑا دھچکا پہنچایا ہے اور درحقیقت دوطرفہ تعلقات 1990 کی دہائی میں واپس چلے گئے۔ دوطرفہ تعلقات میں خرابی کو ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا، اگرچہ پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد دو طرفہ محاذ آرائی کا یہ سلسلہ فوری طور پر بند ہو گیا ہے۔
بشکریہ انڈیپینڈینٹ اردو