تحریر: نسیم حیدر
اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے معاملے پر وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے دوٹوک انداز میں واضح کیا ہےکہ پاکستان اپنے قومی مفادات اور فلسطینی عوام کے مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی اس بارے میں کوئی فیصلہ کرے گا۔
اس سے پہلے اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے متعلق کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ چھ یا سات مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے تاہم وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی نے اس نمائندے کو خصوصی طورپر بتایا کہ اس معاملے میں کوئی بھی فیصلہ پاکستان اور فلسطینیوں کے مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی کیا جائےگا۔
ماضی پر نظر ڈالیں تو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید قصوری نے اسرائیلی وزیر خارجہ سیلون شیلوم سے ترکیہ کے شہر استنبول میں 2005 میں ملاقات کی تھی، یہ پہلی ملاقات تھی جو میڈیا کے سامنے ہوئی اور یہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔
اس ملاقات کے بعد جاری بیان میں سیلون شیلوم نے امید ظاہر کی تھی کہ اب پاکستان اور اسرائیل کےدرمیان کھلے اور باہمی مفاد کے حامل تعلقات کا آغاز ہوگا، سیلون شیلوم نے اس وقت کے صدر مشرف کا یہ کہہ کر شکریہ بھی ادا کیا تھا کہ خطے میں امن اور ماڈرنائزیشن کے لیے وہ صدر مشرف کی اس جرات پر شکر گزار ہیں اور یہ کہ ان کوششوں سے مستقبل میں امن، سلامتی اور علاقائی تعاون بڑھے گا تاہم اس کے بعد وزرائے خارجہ یا کسی اور سطح پر ایسی ملاقاتیں میڈیا پر سامنے نہیں آئیں۔
راقم الحروف نے پاکستان کے ایک اور انتہائی سینئر سفارتکار سے یہ بات پوچھی کہ سعودی عرب کے ساتھ ایشیا اور افریقا کے چھ یا سات مسلم ممالک اگر اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے تو پاکستان کہاں کھڑا ہوگا؟ اس پر سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اتنا کہا کہ ‘ امید ہے اس بارے میں پاکستان کو کوئی فیصلہ مستقبل قریب میں نہ کرنا پڑے’۔
اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی کئی مسلم ممالک کے ایسے رہنماؤں سے ملاقات ہوئی ہے جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، سوال یہ ہے کہ یہ ملاقات ہوئی کن ممالک کے رہنماؤں سے؟
اس سوال کا جواب اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے صرف اتنا راز افشا کیا تھا کہ ان کی لیبیا کی وزیر خارجہ نجلا منگوش سے ملاقات ہوئی ہے تو نہ صرف لیبیا کی وزیر خارجہ کو عہدہ بلکہ ملک چھوڑنا پڑا، لیبیا میں مظاہرے ہوئے اور نوبت یہ آئی کہ اس ملاقات پر نجلامنگوش کے خلاف تحقیقات شروع ہوگئیں، صورتحال اس وقت کنٹرول میں آئی جب لیبیا کے وزیراعظم عبدالحامد کو یہ دوٹوک انداز میں کہنا پڑا کہ ان کی حکومت اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کر رہی۔
اس نمائندے نے ایک سینئر سفارتکار سے یہ بھی پوچھا کہ آیا اسرائیلی وزیر خارجہ کی حالیہ کچھ عرصے میں کسی پاکستانی اہلکار سے ملاقات ہوئی ہے تو انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ‘نہیں’۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں سے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے تین برس پہلے اسرائیل سے تعلقات معمول کی سطح پر لانے کا معاہدہ کیا تھا، اسی ابراہم معاہدے کے تحت سوڈان اور مراکش نے بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا، تاہم بعض وجوہات کی بنا پر مراکش کے مقابلے میں سوڈان اور اسرائیل کے تعلقات زیادہ گہرے نہیں ہو سکے۔
بشکریہ جیو نیوز