تحریر : عصمت اللہ شاہ مشوانی
اسلامی اور شرعی لحاظ سے کسی بھی مملکت اور ریاست کو ملکی انتظامی امور چلانے کے لیے، مستحقین کی امداد ، سڑکوں ، پلوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر ، بڑے نہروں کا انتظام ، سرحد کی حفاظت کا انتظام ، فوجیوں اور سرکاری ملازمین کو مشاہرہ دینے کے لیے اور دیگر ہمہ جہت جائز اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور ان وسائل کو پورا کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مبارک عہد اور ان کے بعد کے روشن دور میں بیت المال کا ایک مربوط نظام قائم تھا اور اس میں مختلف قسم کے اموال جمع کیے جاتے تھے، مثلاً:
1۔ “خمسِ غنائم” یعنی جو مال کفار سے بذریعہ جنگ حاصل ہو اس کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بعد باقی پانچواں حصہ۔
2۔ “مالِ ِ فییٔ” یعنی وہ مال جو بغیر کسی مسلح جدو جہد کے حاصل ہو۔
3۔ “خمسِ معادن” یعنی مختلف قسم کی کانوں سے نکلنے والی اشیاء میں سے پانچواں حصہ۔
4۔ “خمسِ رکاز ” یعنی جو قدیم خزانہ کسی زمین سے برآمد ہو ، اس کا بھی پانچواں حصہ۔
5۔ غیر مسلموں کی زمینوں سے حاصل شدہ خراج اور ان کا جزیہ اور ان سے حاصل شدہ تجارتی ٹیکس اور وہ اموال جو غیر مسلموں سے ان کی رضامندی کے ساتھ مصالحانہ طور پر حاصل ہوں۔
6۔ “ضوائع” یعنی لا وارث مال ، لاوارث شخص کی میراث وغیرہ۔
لیکن آج کے دور میں جب کہ یہ اسباب و وسائل ناپید ہوگئے ہیں تو ان ضروریات اور اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس کا نظام قائم کیا گیا ، کیوں کہ اگر حکومت ٹیکس نہ لے تو فلاحی مملکت کا سارا نظام خطرہ میں پڑ جائے گا۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ مروجہ ٹیکس کے نظام میں کئی خرابیاں ہیں ، سب سے اہم یہ ہے کہ ٹیکس کی شرح بعض مرتبہ نامنصفانہ بلکہ ظالمانہ ہوتی ہے اور یہ کہ وصولی کے بعد بے جا اسراف اور غیر مصرف میں ٹیکس کو خرچ کیا جاتا ہے ، لیکن بہرحال ٹیکس کے بہت سے جائز مصارف بھی ہیں ، اس لیے امورِ مملکت کو چلانے کی خاطر حکومت کے لیے بقدرِ ضرورت اور رعایا کی حیثیت کو مدِّ نظر رکھ کر ٹیکس لینے کی گنجائش نکلتی ہے۔
ٹیکس محصول ، محصول یا رقم کی رقم ہے جو ریاست خود مختار برادری یا سٹی کونسل کو واجب الادا ادا کی جاتی ہے۔ ٹیکس کی واجب فطرت قدرتی یا قانونی افراد پر قائم ہے۔ ان کا مقصد عوامی مالیات میں حصہ ڈالنا ، ریاست اور دیگر اداروں کے اخراجات کی مالی اعانت کے ساتھ ساتھ عوامی خدمات میں بھی حصہ ڈالنا ہے۔ عوامی خدمات میں انفراسٹرکچر (بجلی ، سڑکیں ، ہوائی اڈے ، بندرگاہیں) کی تعمیر ، صحت عامہ کی خدمات ، تعلیم ، دفاع ، سماجی تحفظ کے نظام ، بے روزگاری کا خاتما وغیرہ شامل ہیں۔
ٹیکس اُس وقت دینا چائیے اگر حکومت انتظامی امور کے لئے بقدر ضرورت اتنا ٹیکس لگائے جس کا ادا کرنا آسان ہو اور لوگوں پر اس کی وصولی میں ظلم نہ کیا جاتا ہو تو ایسے ٹیکس کا ادا کرنا لازمی ہے۔
مگر بہت ہی افسوس کہ پاکستان کا نظام عجیب ہے غریب آدمی سے تو ہر اشیا پر ٹیکس لیا جاتا ہے مگر یہاں جب امیر فرد کا ٹیکس دینا لازم ہوتا ہے وہ اپنے لیے کئی راستے نکال کر یا تو ٹیکس دیتا ہی نہیں اور اگر کبھی ٹیکس دیتا ہے تو وہ بھی پورا کبھی نہیں ہوتا کسی نا کسی طریقے سے وہ طاقتور فرد اپنا ٹیکس کم یا معاف کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ آخر اصل میں اس کی کیا وجہ ہے کیوں غریب عوام سے چھوٹی چھوٹی چیزوں (جو گھریلوں ضروریات ہوتی ہیں) پر ٹیکس لگا کر وصول کیا جاسکتا ہے اور یہاں کے امیر لوگ (سیاسی حضرات ، کاروباری حضرات ، آفیسرز حضرات) جن کو کروڑوں کا ٹیکس دینا ہوتا ہے وہ کیوں کم ٹیکس دے کر آسانی سے اس جنجٹ سے اپنے آپ کو چھوڑا لیتے ہیں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں کا نظام کرپٹ ہے۔ کرپشن کی وجہ سے ملک ترقی کی طرف نہیں بلکہ دیگر ممالک کی نسبت بہت ہی زیادہ پیچھے کی طرف سفر کررہا ہے ٹیکس دینا لازمی ہے اس کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ٹیکس لینا اور واپس صحیح استعمال کرنا بہت اہم ہے مگر اب تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس ملک کے تمام ادارے کرپٹ ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ٹیکس بہت کم وصول ہوتا ہے مگر کم وصولی کی وجہ یا لوگوں کا ٹیکس نہ دینے کی وجہ پاکستان کا کرپٹ نظام ہے۔ جو کسی نا کسی طریقے سے زیادہ ٹیکس دینے والوں کا ٹیکس کم کروانے کی کامیاب کوشش کرواتے ہیں۔ اور جب سال میں کچھ نا کچھ ٹیکس وصول ہوجاتا ہے تو یہاں جمع شدہ ٹیکس بھی کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر کبھی غلطی سے حکومت کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کرنے جاتی ہے تو اس منصوبے کی تکمیل تک چپڑاسی سے لیکر وزراء تک سب اپنی اپنی کرپشن کا حصہ ضرور لیتے ہیں جس کی وجہ سے کام ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے۔اگلے سال پر کرپشن کا بازار گرم ہوتا ہے یعنی اس طرح ایک چھوٹا کام سالوں میں پورا نہیں ہوتا اور بات واپس لوگوں پر آجاتی ہے لوگ ٹیکس ادا نہیں کرتے ، غریب تو دو وقت کی روٹی نہیں کھاتا مگر ہر اشیا کا ٹیکس ادا کرتا ہے اور جن لوگوں سے مکمل ٹیکس لینا چاہئے وہاں اس ملک کے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر اسی طرح چلتا رہا تو ہمارا پیارا ملک پاکستان دوسرے ممالک سے مزید پیچھے جاتا رہے گا اور دیگر ممالک اپنی ترقی کا سفر طے کرتے رہینگے۔