تحریر:احمد بلال محبوب
8 فروری اب صرف دو ماہ کی دوری پر ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ جب انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے فنڈز کی لین دین عروج پر ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابات کے قریب سب سے زیادہ رقم خرچ کرتی ہیں۔ تو لازمی طور پر جماعتیں انتخابات سے قبل زیادہ سے زیادہ ذرائع سے رقم وصول کرنے کی کوششوں میں بھی رہتی ہیں۔
فنڈز کا مقبول ذریعہ پارٹی ٹکٹ کی درخواست کے ساتھ دی جانے والی فیس ہوتی ہے جوکہ پارٹی ٹکٹس حاصل کرنے والے امیدواروں سے وصول کی جاتی ہے۔ آنے والے انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کے پارٹی ٹکٹوں کے لیے 2 لاکھ جبکہ صوبائی اسمبلی کے ٹکٹوں کی درخواست لیے ایک لاکھ روپے کی ناقابلِ واپسی فیس مقرر کی ہے۔
توقع کی جارہی ہے کہ کم از کم ملک کی 3 بڑی سیاسی جماعتیں جیسے مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، ٹکٹ درخواستوں کی فیس سے خاطر خواہ رقم حاصل کریں گی۔ ہر سال الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ سیاسی جماعتوں کے گوشواروں کی تفصیلات میں سیاسی جماعتوں کی مجموعی آمدنی میں بڑا حصہ ٹکٹ درخواستوں کا دیکھا گیا ہے۔
مثال کے طور پر پی ٹی آئی نے 2018ء کے عام انتخابات اور بعدازاں ضمنی انتخابات میں ٹکٹ درخواستوں کی مد میں 47 کروڑ 80 لاکھ روپے جمع کیے۔ مالی سال 18-2017ء اور 19-2018ء میں یہ رقم پی ٹی آئی کی کُل آمدنی کا 45 فیصد تھی۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے مقابلے میں صرف 14 کروڑ روپے جمع کیے لیکن پارٹی نے انتخابی فیس پر بظاہر زیادہ انحصار کیا کیونکہ یہ انتخابی سال 18-2017ء میں پارٹی کی مجموعی آمدنی کا 95 فیصد تھے۔ پی پی پی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے مل کر ٹکٹ درخواستوں سے 9 کروڑ 50 لاکھ روپے جمع کیے جوکہ 18-2017ء میں ان کی کُل آمدنی کا 89 فیصد تھے۔
طویل مدتی نقطہ نظر سے بھی ٹکٹ درخواستوں کی فیس سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کیے گئے فنڈز کا ایک اہم حصہ ہے۔ گزشتہ 13 سالوں میں سیاسی جماعتوں کی کُل آمدنی میں اس فیس کا حصہ پی ٹی آئی کے لیے 19 فیصد، مسلم لیگ (ن) کے لیے 33 فیصد جبکہ پی پی پی کے لیے 64 فیصد ہے۔
2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے درخواستوں کی مد میں 59 کروڑ 60 لاکھ روپے حاصل کیے جبکہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں 12 کروڑ 40 لاکھ روپے حاصل کیے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں یہ حساب الٹ گیا اور پی ٹی آئی نے 33 کروڑ 50 لاکھ روپے جمع کیے جبکہ مسلم لیگ (ن) صرف 12 کروڑ 50 لاکھ روپے ہی جمع کرسکی۔ اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی مانگ زیادہ تھی۔ یہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو رپورٹ کیے گئے اعداد و شمار ہیں۔
یہ اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈران ’عطیات‘ اور ٹکٹ دینے کی مد میں امیدواروں سے بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ اس سے یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ کہ تقریباً تمام جماعتوں میں امیر اور امیر ترین امیدواروں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہورہا ہے۔
ٹکٹ درخواستوں کی فیس پر سیاسی جماعتوں کے انحصار سے یہ بھی وضاحت ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں نوجوان امیدواروں کی تعداد کم کیوں ہے۔ اگر نوجوان زمیندار، اشرافیہ یا صنعتی طبقے سے تعلق نہ رکھتے ہوں تو وہ پارٹی کو عطیات کی مد میں خطیر رقم دینے کی حالت میں نہیں ہوتے۔ اگرچہ مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز کا 45 فیصد نوجوان (35 سال یا اس سے کم) ووٹرز ہیں لیکن ملک کی 10 بڑی سیاسی جماعتوں میں نوجوانوں کی نمائندگی صرف 19 فیصد کے قریب ہے۔
پی ٹی آئی جسے نوجوانوں کی جماعت کہا جاتا ہے، اس نے پچھلے انتخابات میں صرف 129 یعنی 16 فیصد نوجوان امیدواروں کو پارٹی کی نمائندگی کرنے کا موقع دیا۔ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری جوکہ متعدد سیاسی جماعتوں کے زائدالعمر رہنماؤں پر تنقید کرتے ہیں اور نوجوانوں کو موقع دینے کا مطالبہ کرتے ہیں، ان کی جماعت نے خود 2018ء کے انتخابات میں 727 امیدواروں میں سے صرف 122 یعنی 17 فیصد سے بھی کم نوجوانوں کو نمائندگی کرنے کا موقع دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی اس سے بھی خراب رہی، 2018ء کے عام انتخابات میں اس کے 646 امیدواروں میں سے صرف 86 امیدوار یعنی 13 فیصد نوجوان تھے۔
پارٹی ممبرشپ پر سیاسی جماعتوں کا انحصار تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ پی ٹی آئی نے بتایا کہ گزشتہ 13 سالوں میں پارٹی ممبرشپ کی مد میں 2 کروڑ 10 لاکھ روپے جمع ہوئے جوکہ مجموعی آمدنی کا صفر اشاریہ 6 فیصد ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ 10 لاکھ روپے کی رقم ظاہر کی جوکہ ان کی مجموعی آمدنی کا صفر اشاریہ 9 فیصد ہے جبکہ پی پی پی 4 کروڑ 10 لاکھ روپے جمع کرکے ان دونوں جماعتوں سے قدرے بہتر رہی، یہ رقم پیپلز پارٹی کی مجموعی آمدنی کا 9 فیصد ہے۔
تاہم غیر اراکین کی جانب سے چندہ سیاسی جماعتوں کے لیے آمدنی کا ایک اور اہم ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی گزشتہ 13 سالوں میں ڈھائی ارب روپے کے عطیات وصول کرکے سرفہرست رہی۔ مسلم لیگ (ن) نےاس مد میں 64 کروڑ 10 لاکھ روپے یا کُل آمدنی کا 33 فیصد جمع کیا جبکہ پی پی پی نے ایک کروڑ 80 لاکھ روپے یعنی مجموعی آمدنی کا 4 فیصد جمع کیا۔
اگرچہ آئین کے آرٹیکل 17 کی شق 3 سیاسی جماعتوں سے اپنے فنڈنگ کے ذرائع کا محاسبہ کرنے کا تقاضا کرتی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کروائے گئے گوشوارے عام طور پر عطیہ دہندگان کی شناخت ظاہر نہیں کرتے اور ان کا ’عطیہ دہندگان‘ کے طور پر حوالہ دیا جاتا ہے۔
حیرت انگیز طور پر پی پی پی اپنے بینک ڈپازٹ پر تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ روپے کا سود کماتی ہے جوکہ 14-2013ء میں اس کی مجموعی آمدنی کا 90 فیصد تھا۔ پی پی پی کا گزشتہ 13 سالوں کا مجموعی بینک سود 10 کروڑ 60 لاکھ روپے بنتا ہے جوکہ اس کی مجموعی آمدنی کا 23 فیصد ہے۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) دونوں اس مد میں پی پی پی کے مقابلے میں کم کماتے ہیں کیونکہ ان کے بیانات کے مطابق بظاہر انہوں نے گزشتہ 13 سالوں میں سود کی مد میں جو رقم کمائی وہ بالترتیب ان کی مجموعی آمدنی کا صفر اشاریہ 49 فیصد اور ایک اشاریہ 33 فیصد ہے۔
تقریباً ہر ترقی یافتہ معاشرے میں سیاسی فنڈنگ ایک حساس موضوع تصور کیا جاتا ہے۔ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں بہت احتیاط سے مالی دستاویزات مرتب کرکے جمع کرواتی ہیں جبکہ نگرانی کرنے والے ادارے جیسے پاکستان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اتنی ہی سنجیدگی سے ان دستاویزات کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ ماضی میں الیکشن کمیشن کے پاس اس ذمہ داری کو سنجیدگی سے ادا کرنے کی نہ ہی صلاحیت تھی اور شاید الیکشن کمیشن یہ کرنا بھی نہیں چاہتا تھا۔
تاہم گزشتہ دو سالوں میں اس نے پولیٹیکل فنانس ونگ کی تنظیم نو کی ہے، عملہ بھرتی کیا ہے اور ایف بی آر جیسے ادارے کے ساتھ روابط بھی قائم کیے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ انتخابی سال 2024ء میں سیاسی مالیات کو کس سطح کی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بشکریہ ڈان اردو