تحریر: رستم عباس
پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو اپنے وجود میں آنے کے بعد سے ہی جان لیوا بحرانوں کا شکار ہے۔ریاست پاکستان کا بیانیہ کیا ہے یہ آج تک طے نہیں ہوا۔بیانیہ سے مراد ریاست کا تشخص ہے کہ یہ کس قسم کی ریاست ہے۔یہاں کس قسم کا قانون ہوگا۔وغیرہ وغیرہ۔
1948میں مولویوں کی تحریک کی وجہ سے اقتدارِ اعلیٰ کا فیصلہ ہوا کہ وہ اللہ کے پاس ہے۔نیچے جس کے پاس مرضی ہو۔اس کی پرواہ نہیں ہے۔جناح صاحب بہت جلد وفات پاگئے۔پیچھے جو لوگ بچے ان میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ ریاست کو چلا سکیں۔سکندر مرزا کی ہوس اقتدار نے ملکی سیاست کو بے ہودہ مذاق بنادیا۔لہذا فوج نے موقع غنیمت جانا اورایوب خان نے مارشل لاء نافذ کردیا۔اسکے بعد کیا ہوا؟؟؟ ملک دولخت ہوا.بھٹو وزیراعظم ہوئے لیکن ان کو بھی اپنے پیش روؤں کی طرح ریاست کو فٹ بال بنا کر کھیلنے کا شوق تھا۔لہذا خوب کھیلتے رہے۔ان کا کھیل فوج کو پسند نہ آیا لہذا پھر ایک اور جنرل آیا ضیاء الحق اس نے اسلام کا لبادہ اوڑھا اور اس ملک میں ایک نئی عفریت متعارف کروائی
یہ عفریت طالبان کہلاتی ہے۔انہوں نے اس عفریت کو پالا پوسا اس نے انڈے دیئے بچے دیے۔یہ بلا اتنی زرخیز تھی کہ پوری دنیا میں اس کے پیدا کئے ہوئے دہشت گرد بچوں نے تباہی پھیلائی ہے۔القاعدہ داعش انہیں طالبان سے ہی پیدا ہوئے ہیں۔
ضیاء دور میں شدت پسندی کو ریاستی پالیسی کے تحت استعمال کیا گیا ایم کیو ایم۔ لشکر جھنگوی۔سپاہ صحابہ۔طالبان۔یہ سب گروہ بنائے گئے اور ایک نام نہاد اسلامی جہاد کی فضاء بنائی اور گھر گھر یہ ماحول بنایا گیا۔
ضیاء الحق تو مر کھپ گیا لیکن اس کے بنائے ہوئے یہ لشکر آج تک اس ملک کو ویران کر رہے ہیں۔پھر ضیاء کے بعد 11سال سیاسی مداری ملک میں تماشہ لگاتے رہے پھر خیر سے جنرل مشرف اپنا ٹیلنٹ دکھانے کے لیے وارد ہوئے اور یوں 8سال وہ حاکم رہے۔پھر آج تک کیا ہوا یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے
اس سارے کھیل میں جو چیز تباہ ہوئی وہ ملک کی معیشت اور معاشرت ہے۔سیاسی ناپائیداری اور سیاست دانوں کی آپس کی لڑائی اور ناکارہ نظام حکومت نے اس ملک کو اس وقت جاں بہ لب کر دیا ہے۔25کروڑ افراد پر مشتمل یہ ملک بہت سنگین معاشی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔پاکستان پر لگ بھگ 150ارب ڈالر کا قرض ہے جو اس نے ملکی اور غیر ملکی اداروں کا دینا ہے۔اور آیندہ تین سالوں میں پاکستان نے75ارب ڈالر عالمی اداروں کو واپس کرنے ہیں۔جبکہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت 4یا 5ارب ڈالر بھی نہیں ہیں۔ایسے میں ہمارے مقدس ادارے نے ملک بچانے کا فیصلہ کیا ہے۔اور ایک دفعہ پھر عرب حکمرانوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا ہے۔اور عربوں نے بھی پاکستان کی بھرپور مدد کا وعدہ کیا ہے۔ بشرطیکہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے اور باقاعدہ سفارت خانے کھولے جائیں۔ تو بن سلمان پاکستان کو 75ارب ڈالر دے گا۔متحدہ عرب امارات پاکستان کو بھرپور سپورٹ کرے گا۔
ایسے میں یہ بات تو طے ہے کہ اب یہ کام ہونا ہی ہونا ہے۔لیکن وہ جو اسلام کے نام پر عفریت پالی تھی اس کا کیا ہو گا۔ان اسلامی تنظیموں کا کیا ہو گا طالبان کا کیا ہو گا خادم رضوی کا کیا ہوگا یہ لوگ تو ملک جام کر دیں گے دھرنے دیں گے۔
لہذا اس پر ڈیل ہوئی ہے باقاعدہ ڈیل کہ آپ شیعوں کو دیوار سے لگا دیں۔ان کو بلآخر کافر قرار دے دیں عزاداری بند کروا دیں۔
یزید جیسوں کی حرمت پیدا کریں۔ ہم نہیں بولیں گے۔
توہین صحابہ بل اس کی ایک کڑی ہے۔
رہ گیا فضل الرحمان تو ان کو حکومت ملے گی وزارتیں ملیں گیں وہ کیوں بولیں گے۔
لہذا شیعہ کو اب ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور ہر سیاسی پارٹی سے علیحدہ ہوکر کسی ایک مرد مومن عالم باعمل اور بابصیرت قائد کا دامن ہوگا۔نظام خدا پر متحد ہو کر فتنہ تکفیریت سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
اور نظام امامت کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی
ورنہ داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔