جولائی 26, 2025

تحریر: ڈاکٹر نادر عباس اعوان

تازہ ترین اندازوں کے مطابق پاکستان کی آبادی 26 کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے جس میں سے تین سے چار کروڑ شیعہ ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ تین سے چار کروڑ کتنی بڑی آبادی ہوتی ہے؟ دنیا کے 195 ممالک میں سے 140 کی آبادی چار کروڑ سے کم ہے۔ کینیڈا اور یوکرین جیسے بڑے ملکوں کی کُل آبادی بھی چار کروڑ ہے۔

اب یہ بھی دیکھیے کہ یہ ساری آبادی دیگر شیعہ اقوام کے مقابلے میں انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے میں سبقت لے رہی ہے، یا یوں کہیے کہ اگر انہیں اچھے مواقع مل جائیں تو وہ سبقت لے سکتی ہے۔ 6-7 کروڑ ایرانی شیعہ بہت پڑھے لکھے ہیں مگر ان میں سے آدھے ملحد ہو چکے ہیں۔ تقریباً دو کروڑ عراقی شیعوں کی تعلیمی حالت پتلی ہے۔ تقریباً دو کروڑ بھارتی شیعہ بھی پاکستانی شیعوں جیسے ہی ہیں۔ یمن میں ایک کروڑ کے قریب شیعہ ہیں مگر وہ جنگ میں مصروف ہیں، تعلیم وغیرہ سے زیادہ سروکار نہیں رکھتے۔ ترکی میں ایک کروڑ اور آذربائیجان میں 70 لاکھ شیعہ موجود ہیں مگر ان کے اندر شیعہ قومی سوچ موجود نہیں ہے۔ افغانستان میں تقریباً 40 لاکھ شیعہ ہیں مگر وہ پسے ہوئے ہیں۔ شام میں 40 لاکھ شیعہ ہیں مگر وہ علوی نصیری ہیں۔ سعودی عرب کے شیعہ بہت اچھے اور پڑھے لکھے ہیں مگر وہ صرف 20 سے 40 لاکھ ہیں اور اپنے ملک میں خود کو ثابت کرنے میں الجھے ہوئے ہیں۔ لبنان، تنزانیہ اور نائجیریا میں بھی تقریباً 20، 20 لاکھ کے قریب شیعہ ہیں۔ کویت میں بھی پانچ سات لاکھ شیعہ ہیں۔

ایسی صورتحال میں، دنیا کے تمام ممالک میں، جہاں مختلف اقوام کے شیعہ موجود ہیں، یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستانی شیعہ نمایاں طور پر شیعہ شناخت اور شیعہ کلچر کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسے ممالک میں زیادہ تر امام بارگاہیں اور مساجد آہستہ آہستہ پاکستانی شیعہ ہی سنبھال رہے ہیں۔

ان دو باتوں سے، یعنی پاکستان میں شیعوں کی سب سے زیادہ آبادی اور دوسرا ان کے مذہب سے گہری وابستگی سے یہ واضح ہے کہ یہ لوگ مستقبل میں شیعہ قوم کو لیڈ کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے انہیں تعلیم میں ایک انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ اسکول لیول سے لے کر یونیورسٹی لیول تک کام کرنا ہوگا۔ منطق اور تنقیدی سوچ (critical thinking) کی بنیاد پر لڑکوں اور لڑکیوں کو برابر تعلیم دینا ہوگی۔ غریب شیعہ جو بالکل اسکول جانے سے قاصر ہیں، انہیں اسکولوں میں بھیجنے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ جو یونیورسٹی کی فیس نہیں دے سکتے، ان کا انتظام کرنا ہوگا۔ اور اگر ان سب کاموں کو ایک ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے اسکالرشپ دلانے ہوں گے۔ کیونکہ جو طالب علم اسکالرشپ حاصل کر لیتا ہے وہ پھر پورے خاندان کو سنبھال لیتا ہے، چاہے وہ اسکول لیول پر ہو یا کالج لیول پر، سب کی مدد کرتا ہے۔

پاکستانی شیعوں پر سب سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے پیسے کا بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہوگا۔ میرے اندازے میں ابھی تک فقط پانچ فیصد یا اس سے بھی کم بجٹ (یعنی شیعہ قوم کی ڈونیشن) تعلیم پر خرچ ہو رہا ہے۔ ہمیں اسے بڑھا کر 20-30 فیصد تک لے کر جانا ہوگا۔ اس کے لیے ہم مختلف کام کر سکتے ہیں۔ مختلف شیعہ علاقوں میں شاندار اسکول کھول سکتے ہیں۔ یونیورسٹی میں جانے والوں کے لیے اسکالرشپ کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ یہ سب کام ملت کے ذمہ دار لوگوں کو مل جل کر کرنے چاہییں۔ صرف علماء پر سارا قصور ڈال دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ میں جن علماء سے ملتا ہوں، میں دیکھتا ہوں کہ وہ بھی کام کرنا چاہتے ہیں مگر ان کو بتانے والا کوئی نہیں ہے کہ اصل کام کیسے ہوگا۔ پڑھے لکھے شیعوں کو چاہیے کہ علماء کے ساتھ قربت اور تعلقات پیدا کریں تاکہ قوم کے پیسے کو تعلیم کی جانب مبذول کروا سکیں۔ جو لوگ ہمارے گروپ سے اسکالرشپ لیتے ہیں، ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے خاندان اور اپنے علاقے کے مومنین کی کم سے کم ضرور مدد کریں۔ فقط اپنی زندگی سنوارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ نہ ہی اپنے بہن بھائیوں کی زندگی سنوار لینے سے فرض پورا ہو جائے گا۔ ہمیں پورے معاشرے اور پوری قوم و ملت کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

اگر پاکستانی تشیع کی تعلیم پر کام کیا جائے تو یہ مستقبل میں شیعیت کی مضبوطی میں اہم ترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔

https://whatsapp.com/channel/0029VaAOn2QFXUuXepco722Q

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

three × 2 =