تحریر: قادر خان یوسفزئی
روس اور پاکستان کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعاون کے روشن امکانات موجود ہیں تاہم مشترکہ منصوبوں کے کامیاب نفاذ میں ماسکو اور اسلام آباد کے سیاسی منظر نامے میں عالمی قوتوں کے مفادات کے برخلاف، خود مختاری کے ساتھ پالیسی سازی اور اقتصادی تعاون کے لئے ریگولیٹری فریم ورک کو بہتر بنانے کے لئے کڑی محنت اور مسلسل ارتکاز ضروری ہے روس اور پاکستان توانائی کے منصوبوں پر تعاون کو بڑھا سکتے ہیں۔ طویل مدتی منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے عزم پر عمل پیرا ہونے سے اقتصادی رابطوں کو فروغ دینے میں اہم مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کا روس کی طرف رویہ ماضی کے مقابلے میں تبدیل ہو چکا ہے، پاکستان برطانوی استعمار کا تجربہ کر چکا ہے۔
امریکہ و پاکستان کے رجحانات میں مد و جزر سے دونوں ممالک کے اداروں کی دوریاں اور پالیسیوں میں معاونت مخصوص مفادات کے تابع ہے۔ دونوں ممالک کے مفادات میں دو طرفہ تجارت سمیت برابری کی بنیاد پر تعلقات میں عدم اعتماد ی خیم نہیں ہوسکی۔ بیانات کی حد تک ایک خاص سمت کی طرف مثبت رجحان ن ضرور نظر آتا ہے لیکن عملی طور پر پاک۔ امریکی تعلقات کا موازنہ کیا جائے تو پر اعتماد بحالی کے لئے ایک طویل مدت درکار ہوگی بالخصوص پاکستان، جب روس کی جانب اپنے تعلقات کو وسعت دینے کی خواہش رکھتا ہے۔ پاکستانی ریاست امریکہ کی جانب سے عدم اعتمادی کی باعث بڑی باریکی سے روس کی جانب قدم اٹھا رہی ہے اور پاکستان گو مگوں کی اس کیفیت کو ختم کرنے کے لئے امریکہ کے تحفظات کو دور کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے تاہم دوسری طرف سے روس کے بابت امریکی پالیسی میں ایک خاص تاریخی عدم اعتماد ہے، روس کی جانب سے پاکستان کے تعمیری اور باہمی طور پر فائدہ مند تعلقات قائم کی خواہش کو بعض اوقات ایک حکمت عملی کے تحت مزید آگے بڑھنے سے روک دیا جاتا ہے دوسری جانب سے اسی حکمت عملی میں تعلقات کی نوعیت کو واشنگٹن کے ساتھ مقابلہ کی خواہش کے طور پر بھی سمجھا جاتا ہے۔
ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات تاریخی طور پر بہت مشکل رہے ہیں، پاکستان نے قیام پاکستان کے بعد امریکہ کے ساتھ قریبی فوجی، سیاسی اقتصادی تعلقات کی جانب بڑھتے ہوئے ایک جغرافیائی سیاسی انتخاب کیا تھا، اس عنصر نے بڑی حد تک سرد جنگ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان سرد تعلقات کا تعین کیا۔دو طرفہ تعلقات کا سب سے مشکل دور 1960کی دہائی کے آغاز میں پیش آیا جب امریکہ کے U-2 جاسوسی طیارے (جسے Spy on the Sky بھی کہا جاتا تھا) کو روسی SAM لانچر نے مار گرایا تھا، اس کا روٹ پاکستان کے شہر پشاور کے قریب بڈبیر کے مقام سے روسی سرزمین سے ہوتے ہوئے شمال میں ناروے تک ہوتا تھا اور اتنا اونچا اڑتا تھا کہ امریکیوں کا خیال تھا کہ روس اسے نہیں گرا سکے گا۔ اسی طرح افغانستان میں سوویت فوجوں کی موجودگی کے برسوں کے دوران پاکستان کا رجحان امریکی مفادات کو پورا کرنے میں صرف رہا۔ لیکن سرد جنگ کے دوران بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں تعمیری تعاون بھی دیکھا گیا۔ صدر ایوب خان نے1960کی دہائی کے وسط میں ماسکو کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی دو بار یو ایس ایس آ ر کا سرکاری دورہ کیا۔ سوویت یونین نے پاکستان کو T-54/55ٹینک فراہم کئے، 1970میں شہر کراچی میں بڑا میٹالر جیکل کمپلیکس بنایا، تجارتی اور اقتصادی تعلقات 1980کی مشکل میں بھی نہیں رکے۔
روس پاکستانی سرزمین میں بڑے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر عمل درآمد میں دلچسپی رکھتا ہے۔ 233 ملین سے زیادہ کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پاکستان توانائی اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کا شکار ہے۔ روسی ماہرین کو توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں پر عمل درآمد کا وسیع تجربہ ہے۔ آج روس دو منصوبے سب سے زیادہ دلچسپی کے حامل ہیں۔ پہلا پاکستان اسٹیل ملز کے اسٹیل پلانٹ کی جدید کاری سے متعلق ہے اس کی ممکنہ جدید کاری پر کئی سالوں سے بات چیت جاری ہے۔ دوسرا منصوبہ نارتھ-ساؤتھ گیس پائپ لائن کی تعمیر ہے، جو کراچی شہر میں ایل این جی ٹرمینلز سے لے کر لاہور تک پھیلے گی، اس منصوبے کو روس کی طرف سے لاگو کرنے کے لئے، ایک تعمیراتی کنسورشیم بنایا گیا تھا، لیکن اس کے شرکاء کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پچھلی دو دہائیوں میں روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے معروضی شرائط ابھری ہیں، جس کی وجہ پاکستان نے بین الاقوامی ایجنڈے اور تجارت میں سرمایہ کاری میدانوں میں یوریشین پالیسی میں تبدیلیوں پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ چین اور امریکی کشیدگی کا فائدہ بھارت نے اٹھایا۔ روس اور امریکہ سے نمایاں فائدے حاصل کئے لیکن یہ بھی ثابت ہوا کہ بھارت قابل بھروسہ ملک نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے مفادات کے لئے مساوی کردار ادا کرنے کے بجائے مفادات کے حصول کے لئے چانکیہ سیاست کی اور عسکری سیاسی تعلقات میں دونوں ممالک سیفائدہ بھی اٹھایا۔ روس اور چین ایک دوسرے کے جتنے قریب ہوئے اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے، چین کے ساتھ روس کے دیرینہ دوستانہ تعلقات نے پاکستان کے لئے بھی مواقع پیدا کئے اور روس نے بھارت کے علاوہ پاکستان کی جانب دوبارہ توجہ مرکوز کی۔ روس جانتا ہے کہ پاکستان، امریکی کے ساتھ قیام پاکستان کے وقت سے ایک مخصوص زوایئے کی وجہ سے جڑا ہوا ہے۔ وہ امریکہ سے اپنے تعلقات ختم نہیں کر سکتا اور تعلقات کو خراب بھی نہیں کرنا چاہتا، یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ چار و ناچار تسلیم کرنا ہوگا کہ امریکہ، پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت میں سرد مہری کو طول عرصے تک قائم نہیں کر سکتا پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر امریکہ کے لئے آسان نہیں کہ وہ پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کر سکے۔
پاکستان کے کردار میں بھی نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ اگر سرد جنگ کے دوران اسلام آباد کو خطے میں مغربی (امریکی) پالیسی کا موصل سمجھا جاتا تھا تو آج یہ یوریشیا میں بیجنگ کا اسٹریجک پارٹنر بھی ہے، حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کا مشترکہ اقدام بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کا منصوبہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) ہے جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی)کے تحت سے بڑا منصوبہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے امریکہ سے تجارتی اور اقتصادی تعلقات اب بھی اہم ہیں۔ افغانستان سے انخلا کے باوجود امریکہ کا پاکستان کے ساتھ جڑے رہنا آج بھی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان روس سے کئی امید افزا شعبوں کی ترقی میں باہمی تعاون کر سکتے ہیں۔ موخر الذ کر ابھی تک تیزی سے ترقی نہیں ہو رہی لیکن تعلقات میں بہتری کے کافی امکانات ہیں اور مستقبل میں یہ پاکستان میں روسی فیڈریشن کی ’سافٹ پاور‘ کو مضبوط کرنے کی بنیاد کے طور پر کام کر سکتا ہے۔