نومبر 18, 2024

پانچویں عالمی جنگ

تحریر: سید قمر نقوی

اپنی گزشتہ تحریروں میں عرض کرچکا ہوں کہ ہماری قوم تاریخی فقر کا شکار ہے.تاریخ تو دور کی بات ہمیں اپنے زمانے کا بھی علم نہیں ہے.اج ہم پانچویں عالمی جنگ میں داخل ہوچکے ہیں لیکن بدقسمتی سے پہلی دو جنگ عظیم کے علاؤہ ہمیں اس کے بارے کچھ پتہ نہیں ہے.البتہ میرا یہ گلہ عوام سے نہیں ہے بلکہ ان خواص سے ہےجو فکری حوالے سے غیروں سے فیڈ لیتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے اسے آگے منتقل کرتے ہیں.
لہذا لازم ہے کہ مختصر ان پانچوں جنگوں کا جائزہ لیا جائے تاکہ اس بنیاد پر فیوچرلوجی کی جاسکے.
1914ءسے 1919ء تک لڑی جانے والی پہلی جنگ تھی جو خود یورپ میں لڑی گئی اور عالمی صورت اختیار کر گئی.اس جنگ کے نتیجہ میں سلطنت عثمانیہ ٹوٹ گئی اور اس سے ترکی،لبنان،فلسطین،عراق،شام،یمن،سعودی عرب اور کویت جیسے ممالک نےاپنی اپنی الگ شناخت اختیار کرلی.
دوسری عالمی جنگ 1939ءسے 1945ءتک ہے.اس میں چند آئیڈیالوجیز نازی ازم،مڈرن نیشنل سوشیالزم،فاشزم،مارکسزم اور لیبرالزم کے ٹکراؤ کے نتیجہ میں 52ملین لوگ مارے گئے.البتہ ذیل میں عرض کرتا چلوں یہ ان لوگوں کیلئے سوالیہ نشان ہے کہ اسلام جوکہ انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ہے.اسکے باقی سب احکام اور مبانی کو چھوڑ کر جہاد پر اعتراض لگا کر کہتے ہیں کہ اسلام شدت پسندی کا دین ہے.
تیسری عالمی جنگ جوکہ 1945ء سے 1990ء کے دورانیہ پر مشتمل ہے.اس دوران تقریباً چھوٹی بڑی 80جنگیں لڑی گئی.جس میں مشہور جنگیں،جنگ ویتنام،جنگ شمالی کوریا،عرب اسرائیل کی لڑی جانے والی تین جنگیں،پاک بھارت جنگ،ایران عراق جنگ اور کچھ براعظم افریقہ کی جنگیں شامل ہیں.اس میں جرمنی،یمن، شمالی کوریااور ویتنام دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئے.اس تقسیم کی وجہ سے شمالی کوریا ابھی تک دوبارہ متحد نہیں ہوسکا.بالاخر آئیڈیالوجی مارکسزم جسکی نمائندگی روس کررہا تھا اسکے ٹوٹنے کے ساتھ تیسری عالمی جنگ کا بھی 1990ء میں اختتام ہوگیا.
چوتھی عالمی جنگ جس کا دورانیہ 1990ءسے 2020تک ہے.واضح رہے پہلی تین عالمی جنگیں خود یورپ میں لڑی گئی تھی لیکن چوتھی عالمی جنگ کا محور اسلام تھا.اس جنگ میں انکا اصلی پروجیکٹ اسلامی ممالک میں لیبرالزم کو رائج کرنا اور اسلام ناب کو سرے سے ہی ختم کرنا تھا.اس کیلئے جیمز بلیک ویل کی کتاب تھنڈر ان دا ڈیزرٹ کہ جسکا فارسی میں سائقہ در صحرا کے نام سے ترجمہ ہوچکا ہے قابل ملاحظہ ہے.
یہ پہلی عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کو توڑ کر کامیابی حاصل کر چکے تھے،دوسری عالمی جنگ میں دو قطبی نظام وجود میں لائے،تیسری عالمی جنگ میں روس کو توڑنے میں کامیاب ہوگئےاور چوتھی عالمی جنگ میں انکے پروجیکٹ میں اسلام کو سرے سے نابود کرنا،اسلامی ممالک کو توڑنا اور انقلاب اسلامی کو ختم کرنا شامل تھا.لیکن رہبر معظم سید علی خامنہ ائ کی اسٹراٹیجی اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی کامیاب مدیریت کی وجہ سے افغانستان،عراق،شام،یمن،سعودی عرب اور ترکی تقسیم ہونے سے بچ گئے اور امریکہ کو ذلت کے ساتھ ان مناطق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا.
پانچویں عالمی جنگ جوکہ 2020ءسے شروع ہوئی اور تقریباً 2050ء تک جاری رہے گی.یہ سافٹ وار میں بدل رہی ہے.اس میں تین ممالک کو محور بنایا گیا ہے.ایران جوکہ اس وقت اسلامی آئیڈیالوجی کی نمایندگی کررہاہے.چین سوشیل کنفسیس کی آئیڈیالوجی کے ساتھ اور روس لیبرل آرتھوڈکس کی نمائندگی کے ساتھ تینوں امریکہ و یورپ کے مقابل کھڑے ہیں.ان تینوں ممالک کے سامنے ایک ایک ایسی دیوار کھڑی کی گئی ہے جن سے کبھی یہ ہاتھ اٹھانے کو تیار نہیں ہیں.یعنی ایران کبھی فلسطین سے ہاتھ نہیں اٹھائے گا.چین کبھی تائیوان سے ہاتھ نہیں اٹھائے گا اور روس کبھی یوکرائن سے ہاتھ نہیں اٹھائے گا.پس اسی لیے یہ جنگ 2050ءتک جاری رہے گی.لہذا اس وقت یہ تینوں ممالک اپنا مشترکہ دشمن امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں اتحاد میں ہیں کیونکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے.
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تینوں ممالک ایران،چین اور روس کا مختلف آئیڈیالوجی ہونے کی وجہ سے مستقبل بعید میں کیا تعارض پیدا نہیں ہوگا؟جی بالکل اسکا امکان موجود ہے.لیکن یہ حقیقت ہے کہ روس اور چین دونوں آئیڈیالوجی کے اعتبار سے جمہوری اسلامی ایران سے بہت کمزور ہیں اور انہوں نے امریکہ اور یورپ کے سامنے مقاومت کا جذبہ ہی دراصل ایران سے لیا ہے.انہوں نے دیکھا کہ ایران ویٹو پاور ہے،نہ ہی ایٹمی طاقت ہے اور اقتصادی پابندیوں کا شکار ہونے کے باوجود امریکہ جیسی طاقت کے سامنے ڈٹ گیا ہے.اس نے دراصل انکو خود اعتمادی دی اور یہ بھی امریکہ کو آنکھیں دکھانے لگے.
اور یہی وجہ ہے اب ویسٹ سے ایسٹ کی طرف پاور شفٹنگ کا مرحلہ قریب سے قریب تر ہوتا جارہا ہے.
آخری نکتہ عرض کرتا چلوں کہ یہ جنگ اس وقت دراصل سافٹ وار ہے.اور سافٹ وار میں اصلی طاقتور وہی ہوتا ہے جو اپنی آئیڈیالوجی دوسروں کو قبول کروا پاتا ہے.لہذا اب میزائلوں کے ساتھ جہاد تبیین کی بھی اشد ضرورت ہے۔
انشاء اللہ تولید علمی پر الگ سے تحریر لکھیں گے. لیکن آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ جو علم تولید ہوچکا ہے آپ میں سے کتنے فیصد اسے صحیح سمجھ کر دوسروں تک صحیح تبیین کرسکتے ہیں؟اور یہ یعنی سافٹ وار یعنی ارادوں کی جنگ یعنی پانچویں عالمی جنگ!

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

One Response

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

20 − seventeen =