تحریر: نذر حافی
پاراچنار کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا منصوبہ زیرِ تکمیل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی مانند پاراچنار کی مقامی آبادی کے تناسب کو کئی سالوں سے مسلسل تبدیل کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ اڑھائی ماہ سے جاری پاراچنار کا محاصرہ ویسے ہی نہیں، یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاراچنار کے تمام اسٹیک ہولڈرز دیوار کے ساتھ لگ چکے ہیں۔ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ افغان طالبان بارڈر کی باڑ کاٹ کر پاکستان کے اندر داخل ہوتے ہیں اور مقامی آبادیوں پر شب خون مارتے ہیں، لیکن افغانی دہشتگردوں کی جارحیت سے حکومت چشم پوشی کر رہی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ضلع کرم کی پوری انتظامیہ طالبان کیلئے سہولتکاری کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ آخر حکومتِ پاکستان اور ضلع کرم کی انتظامیہ کو پاراچنار کی ڈیموگرافی چینج کرنے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے۔؟
آخر پاکستانی حکومت، طالبان کا مقابلہ کرنے کی بجائے اپنے ہی شہریوں کو غیر مسلح کرنے اور پاراچنار سے نکالنے پر کیوں تُلی ہوئی ہے؟ ایک طرف حکومت اور طالبان کے دیرینہ مراسم ہیں اور دوسری طرف اس مسئلے کو سُنّی شیعہ لڑائی کا نام دے کر رائے عامہ کو گمراہ کیا جا رہا ہے؟ بھلا مقامی آبادی پر شب خون مارنے اور طالبان کی مدد و نصرت میں کس کا نفع و مفاد وابستہ ہے۔؟ دمِ تحریر چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر ملک بھر کے بڑے شہروں میں دھرنے جاری ہیں۔ گذشتہ روز انہوں نے نمائش چورنگی کراچی پر جاری مرکزی احتجاجی دھرنے سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، پاراچنار کے عوام کا قصور دہشتگردوں کے خلاف وطن کی حفاظت کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرم ایجنسی میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، راستوں کی بندش سے غذائی اشیاء اور ادویات کی کمی سے اموات ہو رہی ہیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ پاراچنار کے عوام کے مطالبات تسلیم ہونے تک سب لوگ اپنا ملک گیر پُرامن احتجاج جاری رکھیں۔ دوائیوں کی قلت اور غذا کی کمی کے باعث اب تک ایک سو سے زائد بچے پاراچنار میں شہید ہوچکے ہیں۔ ممتاز اہلسنت رہنماء اور کل مسالک علماء بورڈ کے چیئرمین مولانا عاصم مخدوم نے ’’صحافیوں‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے شہریوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر افسوس کہ پاراچنار میں شہری غیر محفوظ ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کے رکن قومی اسمبلی حمید حسین نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران برملا یہ انکشاف کیا ہے کہ شیعہ سنی جرگے کو آپس میں ملنے نہیں دیا جا رہا، جان بوجھ کر راستے بند کیے گئے ہیں، تاکہ لوگ بھوک پیاس سے مجبور ہوکر انہیں اسلحہ جمع کرائیں، اہم سوال یہ ہے کہ اگر اسلحہ جمع کرا دیا گیا تو کیا حکومت پاراچنار کے لوگوں کو تحفظ دے سکے گی۔؟
ایم ڈبلیو ایم کے شعبہ امورِ خارجہ کے سیکرٹری حجۃ الاسلام ڈاکٹر شفقت شیرازی نے بھی پاکستان سے باہر مقیم پاکستانیوں سے پاراچنار کے مظلوم عوام کی حمایت کیلئے احتجاج کرنے کی اپیل کی ہے۔ ایک طرف ملک بھر میں اور ملک سے باہر احتجاج کی لہر پھیلتی جا رہی ہے اور دوسری طرف حکومتی ادارے حسبِ عادت کوئٹہ سے کشمیر اور برطانیہ سے قم المقدس تک ہونے والے اس احتجاج کو نظر انداز کرتے نظر آرہے ہیں۔ لوگوں کو جتنا مایوس وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپورنے کیا، اتنا اور کسی نے نہیں کیا۔ اُن کی زیرصدارت ہونے والے صوبائی اپیکس کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، کور کمانڈر پشاور، چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اور انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخواہ کے علاوہ اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں ہونے والے مضحکہ خیز فیصلے کا لُب لباب یہی ہے کہ فی الحال تو کچھ نہیں ہوسکتا، البتہ بھاری اسلحہ ختم ہوتے ہی کُرم کے تمام زمینی راستے کھُل جائیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ کرم میں بنکرز اور بھاری اسلحہ ختم کیا جائے گا۔
عوام کی آنکھیں کھولنے کیلئے یہی نکتہ کافی ہے کہ یہی شخصیات یوں تو طالبان اور اُن کے ٹولوں سے ایک روڈ کی حفاظت نہیں کر پا رہیں، لیکن دوسری طرف طالبان کا راستہ روکنے والی مقامی آبادیوں کو غیر مسلح کرنے کا بگل بجا رہی ہیں۔ اس اجلاس سے ہر خاص و عام کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ پاراچنار کا مسئلہ کوئی شیعہ سُنّی مسئلہ نہیں بلکہ پاراچنار کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کا ایک سرکاری منصوبہ ہے۔ طالبان مخالف مقامی آبادیوں کو غیر مسلح کرنا، یعنی انہیں موت یا ہجرت میں سے ایک آپشن اختیار کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ شاید ہمارے حکمرانوں نے تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ تاریخ کا ایک مسلّمہ درس یہ ہے کہ مٹّی کی حفاظت مٹی کے بیٹے ہی کیا کرتے ہیں، پاراچنار کے محافظ پاراچنار کے جوان ہی ہیں۔ میرے سامنے اس وقت ایک طرف ایک سو سے زائد معصوم بچوں کی شہادتیں اور دوسری طرف صوبائی اپیکس کمیٹی کا بے رحم اجلاس ہے۔۔۔ اپیکس کمیٹی کے اس اجلاس کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہم پر ایسے لوگ حکومت کر رہے ہیں کہ جن کیلئے اپنے جوتوں پر پاوں رکھنے سے زیادہ انسانیت پر پاوں رکھنا آسان ہے۔