تحریر: عبدالباسط خان
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ آج با ضابطہ طور پر اپنا عہدہ سنبھال لیں گے۔
وہ ایک ایسے وقت میں امریکہ کی صدارت سنبھال رہے ہیں جب عالمی سیاست مشرق وسطیٰ کے بحران سے لے کر روس-یوکرین جنگ اور چین-امریکہ دشمنی کے گرد گھوم رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ کی زیادہ توجہ اپنے ’پہلے امریکہ‘ کے نعرے پر مرکوز رہے گی۔
غزہ فائر بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل-ایران کشیدگی برقرار رہنے کا خدشہ ہے جو ٹرمپ کی توجہ کا مرکز رہے گی۔
اسی طرح واشنگٹن- بیجنگ کی جیو سٹریٹیجک کشمکش میں ٹرمپ انتظامیہ نئی دہلی کے ساتھ اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کرے گی۔
اس تناظر میں پاکستان جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہونے کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ کی ترجیحات کے حاشیے پر رہے گا۔
اگست 2021 میں افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان نے امریکی سٹریٹیجک ترجیحات میں اپنی اہمیت کھو دی۔
2018 میں ٹرمپ نے افغان عسکریت پسندوں سے لڑنے میں ناکامی پر پاکستان کی 300 ملین ڈالر کی فوجی امداد روک دی تھی۔
ٹرمپ اپنے دوسرے دور میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو چین کی نگاہ سے دیکھیں گے۔
چین کے ساتھ پاکستان کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور سٹریٹجک قربت، خاص طور پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت شروع کیے جانے والے منصوبوں پر زیادہ نظریں ہوں گی۔
امریکہ اسلام آباد کے حوالے سے میڈیا اور محکمہ خارجہ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ذریعے بلاواسطہ یا بالواسطہ دباؤ ڈالا سکتا ہے، تاکہ پاکستان کچھ منصوبوں پر نظرثانی اور دیگر کو رول بیک کرے۔
اس وقت پاکستان آئی ایم ایف سے تین سال کے لیے تقریباً سات ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام سے امداد لے رہا ہے۔
یہ فنڈ اپنے سہ ماہی جائزوں کے ذریعے پاکستان سے چین کے ساتھ موجودہ معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کرنے یا چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے دوسرے مرحلے کے تحت مستقبل کے منصوبوں کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2018 میں ٹرمپ کے اس وقت کے سیکریٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے آئی ایم ایف سے کہا تھا کہ اگر پاکستان کو دی گئی رقم چینی قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوئی تو پاکستان کا بیل آؤٹ پیکج مسترد کردیا جائے۔
اسی طرح سوشل اور مین سٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ تھنک ٹینکس کے ذریعے بی آر آئی کے منصوبوں کو قرض کے جال کی ڈپلومیسی کے طور پر دکھانے کے لیے چین مخالف پروپیگنڈہ بھی ممکنہ طور پر شروع ہو جائے گا۔
آئی ایم ایف کے معاہدے میں خلل ڈالے بغیر چین کے ساتھ اپنی اقتصادی شراکت داری کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو دباؤ سے بچنے کے لیے ایک مضبوط پالیسی پر چلنا ہو گا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا بنیادی مرکز فوجی تعلقات ہوں گے۔
اگرچہ گذشتہ چار دہائیوں کے دوران یہ تعلقات کچھ مختلف نہیں رہے کیونکہ افغانستان میں دو جنگوں کے آغاز اور خاتمے نے پاکستان امریکہ تعلقات پر گہرا اثر چھوڑا ہے لیکن ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں محدود سکیورٹی تعاون ان تعلقات کی وضاحتی خصوصیت ہو گی۔
ٹرمپ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل امریکہ کا چار پاکستانی کمپنیوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ، جن میں سرکاری نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس بھی شامل ہے، جو ملک کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام پر کام کر رہی ہیں اور دسمبر میں امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فنر کا یہ بیان کہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام پر کام کر رہے ہیں، امریکہ کے لیے ایک ’ابھرتا ہوا خطرہ‘ تھا جو واشنگٹن کے مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔
امریکہ نے جنوری میں تین ہندوستانی جوہری اداروں کو اپنی ایکسپورٹ کنٹرول لسٹ سے ہٹا دیا، جس سے امریکی اور ہندوستانی جوہری اداروں کے درمیان سویلین جوہری تعاون کو بڑھانے کی راہ ہموار ہوئی۔
بائیڈن انتظامیہ کے تحت امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ملٹری ٹو ملٹری CENTCOM دیکھ رہا تھا۔
یہ سات دہائیوں پر محیط ایک پرانا رشتہ ہے اور ٹرمپ کی ٹیم تحفظات کے باوجود پاکستان فوج کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھے گی۔
افغانستان میں داعش خراسان جیسے گروپوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان فوج ایک اہم اتحادی ثابت ہوسکتا ہے۔
داعش خراسان کی بیرون ملک سازشیں اور افغانستان سے حملے امریکہ کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔
مختصراً، امریکہ اور پاکستان کے فوجی تعلقات افغانستان میں ٹیکٹیکل اور ٹرانزیکشنل انسداد دہشت گردی تعاون کے گرد گھومیں گے۔
تاہم اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو ایک بار پھر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی) کی ’گرے لسٹ‘ میں ڈالے گی۔
ایک اور شعبہ جہاں ٹرمپ انتظامیہ پاکستان پر بلاواسطہ اور بالواسطہ دباؤ ڈالے گی وہ اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کرنا ہے۔
اقتدار سنبھالنے سے پہلے غزہ فائر بندی میں ٹرمپ کا کردار اہم ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایران کو مزید تنہا کرنے اور اسرائیل اور اس کے عرب پڑوسیوں کے درمیان دشمنی کو کم کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ سفارت کاری کی دوبارہ شروع کرے گی۔
اب تک متحدہ عرب امارات، سوڈان، مراکش اور بحرین اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔
اپنی دوسری مدت میں امریکہ تل ابیب کو سفارتی طور پر تسلیم کرانے کے لیے پاکستان سمیت دیگر ملکوں پر زیادہ سفارتی دباؤ ڈالے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کے لیے سخت اور نرم طریقہ استعمال کر سکتی ہے۔
ایک طرف یہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بدلے میں محدود مالی مراعات اور سیکورٹی تعاون کی پیشکش کر سکتا ہی تو دوسری طرف یہ پابندیوں یا آئی ایم ایف پروگرام کو بند کرنے کی دھمکیوں کا استعمال کر سکتی ہے۔ پاکستان انتظار اور دیکھو کا رویہ اپنائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی توقعات کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ عمران خان کی رہائی کے لیے کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔
زیادہ سے زیادہ یہ پی ٹی آئی کے مطالبات کے حق میں کچھ بیانات جاری کرے گی جس میں انسانی حقوق کا احترام کرتے ہوئے شفاف اور فری ٹرائل کا مطالبہ کیا جائے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ کا پاکستان کی ملکی سیاست میں گہری دلچسپی لینے کا امکان نہیں۔ البتہ ٹرمپ ایک غیر متوقع شخص ہیں جنھوں نے اپنی پہلی مدت کے دوران ٹوئٹر ڈپلومیسی پر انحصار کیا تھا، جو پی ٹی آئی کی امیدوں کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
گذشتہ چند سالوں میں امریکہ اور پاکستان نے غیر حقیقی توقعات کی بجائے موجودہ زمینی حقائق کی بنیاد پر اپنے تعلقات کی دوبارہ تشکیل نو کی ہے۔
پاکستان جانتا ہے کہ چین پر قابو پانے کے امریکہ کے طویل المدتی سٹریٹیجک مفادات انڈیا کے ساتھ منسلک ہیں جبکہ پاکستان نے بیجنگ کے ساتھ قریبی اقتصادی، سفارتی اور تزویراتی تعلقات استوار کیے ہیں۔
ان حدود کے اندر پاکستان نے جغرافیائی سیاست سے جیو اکنامکس کی طرف جانے کا شعوری طور پر فیصلہ کیا ہے اور بلاک سیاست کا حصہ بنے بغیر امریکہ اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
تاہم ٹرمپ کی دوسری صدارت پاکستان کے ارادوں کو گہرائی سے جانچے گی اور اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا یہ امریکہ چین جغرافیائی سیاسی دشمنی میں پل بنے گا یا سینڈوچ۔
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو