تحریر: ڈاکٹر علی محمد جوادی
اب تک اس اپریشن کے متعلق دنیا بھر میں ایران کے موافق اور مخالف ماہرین نے اپنے حساب سے خوب تجزیہ کیا ہے لیکن پھر بھی کامل تجزیہ اور تحلیل کی ضرورت ہے تاکہ اس حملے کے پوشیدہ گوشے آشکار ہوجائیں تو نتیجتا کامیابی اور ناکامی کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔
اسرائیل کے خلاف ایران کے آپریشن وعدہ صادق کو ناکام بنانے کے لئے عالم استکبار امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اردن اور سعودی عرب سمیت 12 ممالک نے اسرائیل کی مدد کی ہے۔ مذکورہ ان ملکوں کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس 500 پیشرفتہ ترین جنگی طیاروں نے اسرئیل فضائی حدودکا دفاع کیا اور ایران سے فائر ہونے والے 170 ڈرون طیاروں اور 30 کروز میزائلوں کا مقابلہ کرنے اور مار گرانے کی حد الامکان کوشش کی۔ اس کے علاوہ اسرائیلی میزائل دیفنس سسٹم آئرن ڈوم، آرو اور فلاخن ڈیوڈ اسی طرح سے امریک ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے بحری جنگی جہازوں کا ایئر ڈیفنس سسٹم بھی پوری قوت کے ساتھ ایرانی حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے ایکٹیو ہواہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ صرف اسرائیل کے میزائل ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم کا ایک ہی دن میں حماس کے 3000 راکٹوں کو ناکارہ بنانے کا کارنامہ بتایا گیا ہے۔ ساتھہ میں اس رات خود اسرائیل بھی پوری دفاعی قوت کے ساتھ مقابلے کے لئے آمادہ تھا۔ اسرائیل کے تمام پیشرفتہ ترین طیارے ایف 35، ایف 15۔ اور ایف 16 بھی اسرائیل کے پورے فضائی حدود میں گشت کر رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں ایران نے بر آمداتی ڈرون طیارے شاہد 136، کروز میزائل اور کرتب کی صلاحیت نہ رکھنے والا 20 سالہ پرانہ شہاب 3 میزائل سے استفادہ کیا ہے۔ یعنی ایران نے برآمداتی پرانے اسلحے کو استعمال کیا ہے البتہ کچھ مقدار خیبر شکن میزائل سے بھی استفادہ کیا ہے ۔ ایران کے 170 ڈروں طیاروں اور 30 کروز میزایلوں کا مقابلہ دنیا کی پیشرفتہ ترین ٹیکنالوجی سے لیس مذکورہ ملکوں کے 500 طیاروں نے کیا ہے اور ایران کے 120 بلیسٹک میزائلوں کا مقابلہ دنیا کے مشہورترین اور پیشرفتہ ترین، امریکی، اسرائیلی، برطانوی، جرمنی اور فرانسیسی میزائل دیفنس سسٹمز کے 1000 میزائلوں نے کیا ہے۔
اس کے باوجود ایران کے متعدد بلیسٹک میزائل دنیا کے پیشرفتہ ترین ڈیفنس سسٹمز کو عبور کرنے میں کامیاب ہوے اور مقررہ ٹارگٹس کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی عسکری ترجمان کا جھوٹا دعوا کے برخلاف، خود اسرائیلی میڈیا کے مطابق 9 میزائل اور بعض دیگر کے مطابق 30 میزائل اھداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوے ہیں۔ جبکہ کہ اسرائیلی عسکری قوت کا دعوا یہ تھا کہ ان کا میزائل ڈیفنس سسٹم، ایران کے ایک ہزار میزائلوں کو ایک ساتھ ناکارہ بنانے کی صلایت رکھتا ہے لیکن پوری دنیا کے پیشرفتہ ترین ڈیفنس سسٹم سے بھی مدد لینے کے باوجود 120 ایرانی بلیسٹک میزائلوں کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ اگر ایران 1000 میزائل ایک ساتھ فائر کرتا تو پھر اسرائیل کا کیا حشر ہوجاتا، ایران کے 4 گھنٹوں پر مشتمل 27 ملین ڈالر کے حملے نے اسرئیل کو ایک ارب ڈالر کا دفاعی نقصان پہچایا، اگر پورا ایک دن ایران کاحملہ جاری رہتا تو 6 ارب ڈالر اسرائیل کا ایک دن میں دفاعی نقصان ہوجاتا اور اگر یہ حملہ ایک ھفتہ جاری رہتا تو پھر اسرائیل کا مکمل طور پر اقتصادی پھٹہ بیٹھ جاتا تھا۔
ایران نے اس حملے میں چار قسم کے اسلحے کو استعمال کیا ان میں تین پرانے تھے اور صرف ایک خیبر شکن میزائل جدید تھا جس میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لئے کرتب دیکھانے کی قابلیت تھی، ماہرین کے مطابق اس حملے میں ایرانی جدیدترین ٹیکنالوجی سے لیس اسلحہ استعمال نہیں ہواہے۔ درحقیقت ایران کا اسرائیل پر یہ حملہ، اسرائیل کو سوریہ میں ایرانی کونسلیٹ پر حملے کا جواب دینے کے علاوہ، پوری دنیا کے پیشرفتہ ترین اسلحے کی دفاعی توانائی کے مقابلے میں اپنے معمولی اسحلے کی ہجومی کارآمدی کو آزمائش کرکے استکباری قوتوں کو دیکھانا تھا اور اس آزمائش میں وہ کامیاب ہوا ہے۔ اسی لئے ایران نے پہلے ہی حملے کا اعلان کیا تھا اور اصل غافل گیری سے استفادہ نہیں کیا اور حملہ بھی اپنی ہی سر زمین سے کیا تاکہ عالمی استکبار اور اس کے علاقائی حامی پوری قوت کے ساتھ اس حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں اور ایرانی اسلحے کی ہجومی کار آمدی کا اندازہ دوست اور دشمن سب کو ہوجائے۔ اگر ایران، اسرائیل کو غفلت میں رکھ کر یہیں حملہ کرتا تو پھر آج اسرائیل کا نقشہ اورہو جاتا۔
کسی بھی کاروائی کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ اس کے مثبت اور منفی اثرات اور نتائج سے لگایا جاسکتا ہے
اسرائیل پر ایران کے حملے سے مرتب ہونے والے چند اہم اثرات اور نتائج درج ہیں۔
1۔ عسکری ماہرین کے مطابق اس حملے میں استعمال ہونے والے بعض ڈرونز صرف تصویر برداری کے لئے تھے اور حملے کے ضمن میں ایران نے پورے اسرائیل کے تمام حساس تنصیبات کی میپنگ کی ہے اور بعد والے حملے کے لئے اسانی ہوگی۔
2۔ ایران نے اسرائیل کے حساس ترین اور مخفی ترین اور محفوظ ترین فوجی ایئر بیس نواتیم کو 9 عدد میزائلوں سے نشانہ بنا کر پیغام دیا کہ اسرائیل میں کوئی بھی تنصیبات ہمارے میزائلوں سے محفوظ نہیں ہیں۔
3۔ اس حملے نے طوفان الاقصی کے اسرائیل کی شکست پذیری کو تکمیل کردیا اور اسرائیل کا شکست ناپذیر ہونے کے توھم کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا، ساتھ میں یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ اسرائیل کی بقاء امریکہ اور دیگر مغربی استکباری ممالک کی وجہ سے ہے اور ان کی مدد کے بغیر اسرائیل ایک دن بھی باقی نہیں رہ سکتا ہے۔
4۔ اس حملے سے ایران نے اسرائیل کی خطے میں شرارتوں خصوصا سوریہ یا کسی اور ملک میں ایران کے عسکری اور دپلومیٹک مراکز پر دوبارہ حملے کی جرئت کو ختم کردیا۔
5۔ اس حملے کے بعد سے ایران مغربی ایشیا میں طاقت ور ترین ملک کے طور پر سامنے آگیا ہے اگر مستقبل میں دشمن کہیں سے بھی معمولی شرارت کرے گا تو کسی کی مدد کے بغیر خود اپنی ہی سر زمین سے اس کو جواب دینے کی صلاحیت اور طاقت حاصل کر چکا ہے۔ یہیں وجہ تھی ک امریکی وزیر خارجہ بلنکن خلیج تعاون کونسل کے اجلاس میں ایران کے حملوں کا ھماھنگ دفاع کی بھیگ مانگتے ہوے نظر آئے۔
6۔ اس حملے کے بعد سے امریکہ کی طرف سے ایران کو دی جانے والی دھمکیا ختم ہوگئی، خصوصا وہ بات جو امریکہ کا ہر صدر یہ کہتا تھا کہ ایران کے خلاف ہر آپشن ٹیبل پر رکھا ہوا ہے ، اب ایران پر حملے کا آپشن ٹیبل سے اٹھا یا گیا ہے اور ایران ہمیشہ کے بیرونی حملوں سے محفوظ ملک بن گیا ہے۔
7۔ اس حملے کے بعد ایران کے اقتصاد میں مثبت اثرات مرتب ہوے ہیں، زر مبادلہ اور بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہواہے۔
8۔ وعدہ صادق آپریش کے بعد ایران میں قومی اتحاد اور اتفاق میں بھی اضافہ ہوا ہے حتی وہ افراد اور گروہ جو حکومت کے مخالف تھے ان کی زبانوں پر بھی کافی حد تک تالے لگ گئے ہیں۔
9۔ ایرانی ساختہ اسلحے کی مانگ میں اضافہ ہوچکا ہے ایران کے عسکری اطلاعات کے مطابق ایران کا ڈرون شاہد 146 اور میزائلوں کی خریداری کے لئے دنیا کے 50 ملکوں نے درخواستیں دی ہیں ۔
10۔ بین الاقوامی اداروں میں ایران کی عزت اور اہمیت میں اضافہ ہوا ہے اور ایران کو ان اداروں میں اپنا موقف منوانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
فیصلہ قارئین پر ہے کہ ایران کا اسرائیل پر حملہ کامیاب رہا یا ناکام؟