تحریر: عاصمہ شیرازی
پُرانے وقتوں کی کہانیوں میں تھا کہ صبح صادق شہر میں داخل ہونے والے پہلے شخص کے ہاتھ مملکت کی باگ دوڑ تھما دی جائے گی۔ یہ منادی فیصلہ سازی نہ ہونے کی صورت تھی یا قسمت آزمانے کے لیے بہر کیف دونوں صورتوں میں قسمت کا ہما اَن دیکھے شخص کے سر بیٹھتا تھا اور بعد کے فیصلے ثابت کرتے تھے کہ وہ ایک فیصلہ کس قدر جاندار تھا۔
نگران وزیراعظم کی تعیناتی کا فیصلہ بلاشبہ آنے والے فیصلوں کی خبر دے رہا ہے۔ فیصلے کسی اور کے، قلم کسی اور کا اور دستخط کسی اور کے؟
نگران وزیراعظم کی تعیناتی کاہے کا سرپرائز ہے؟ ایسا کیا ہوا ہے جس کی توقع نہ تھی۔ کیا یہ غیر متوقع ہے کہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ راجہ ریاض اور شہباز شریف کے ہاتھوں ہوا ہے؟ یا یہ کہ یہ فیصلہ خود اُن کے لیے بھی توقع کے خلاف تھا؟ بات مقتدرہ کے اختیار کی نہیں، سیاسی خانوادے کے انحصار کی ہے۔
حیرانگی کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر ایسا کیا کام ہے جو انوارالحق کاکڑ نہ کر سکیں گے جو عمران خان اور شہباز شریف نے نہیں کیا؟ کاکڑ صاحب اسٹیبلشمینٹ کے حامی ہیں تو اس وقت اسٹیبلشمینٹ مخالف کون ہے؟ ن لیگ خوش ہے تو تحریک انصاف بھی غیر مطمئن نہیں، پیپلز پارٹی چُپ ہے تو جے یو آئی ایف خاموش اور اے این پی راضی۔۔۔ صرف بی این پی مینگل ٹھہرے پانی میں پتھر مار رہی ہے۔
کاکڑ صاحب میں وہ سب کچھ ہے جو باقیوں میں بھی تھا۔ جملہ اوصاف کچھ بڑھ کر یہ ہیں کہ خوش اخلاق، پڑھے لکھے اور متوسط طبقے سے بھی ہیں۔ آخر کوئی متوسط طبقے سے بھی وزیراعظم بن ہی گیا بھلے ’نگران‘ ہی سہی۔
مینگل صاحب کا اعتراض کہ نون لیگ نے مشاورت نہیں کی اور اسٹیبلشمینٹ کا ’مہرہ‘ اوپر لا بٹھایا جبکہ چُپ چُپ سی پیپلز پارٹی دبے لفظوں میں خودکلامی کر رہی ہے کہ ہم نے تو اتفاق نہ ہونے کے بعد معاملہ ن لیگ کے سپرد کیا تھا، نہیں معلوم تھا کہ ن لیگ کاکڑ صاحب کو منتخب کرے گی۔
ن لیگ کے زعما اپنی جگہ پریشان، خواہ خواہ ایک ہفتہ ڈار صاحب کو خواب میں بھی وزیراعظم دیکھتے رہے اور میاں صاحب کی ’ڈٹ‘ جانے والی ضد کے قصے بیان کرتے رہے، جلیل عباس جیلانی ملاقات کے بعد الگ پُراعتماد۔
اسلام آباد کے چائے خانوں، بیٹھکوں اور آستانوں پر الگ ہجوم مگر قرعہ فال وہیں سے آیا جہاں کی مہر کے بعد سب کی مُنہ پر مہر لگ گئی۔ ن لیگ خوش کہ بلآخر قرعے میں اُن کی حاجت بھی رکھ لی گئی۔
قائد ایوان یعنی وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی طویل نشستیں، دکھاوے کی مشاورت اور نظارے کے اہتمام۔ راجہ صاحب بھی ’اِندر‘ اور شہباز صاحب بھی صاحبِ پرواز۔۔۔ سب اپنی اپنی جگہ راضی مگر پنڈی لے گیا بازی۔
مسلم لیگ نواز کے تقریباً تمام حامی ششدر ہیں کہ ن لیگ نے نظریہ ضرورت کے تحت سینیٹر انوار الحق کاکڑ کی تعیناتی کا فیصلہ کیا یا نظریہ سہولت کے تحت کیونکہ پیش منظر میں بظاہر بلوچستان کی نشستیں اور ممکنہ اتحاد کی جھلک نظر آرہی ہے۔
یوں بھی بلوچستان کا سیاسی مستقبل ہمیشہ محفوظ ہاتھوں میں ہی رہا ہے نہ صرف یہ بلکہ ’باپ‘ کی ضمانت کے بغیر حکومتِ پاکستان کا تحفظ بھی اب ناممکن نظر آتا ہے۔
جانے اختر مینگل صاحب سرپرائز کیوں ہوئے حالانکہ وہ ن لیگ کے پرانے واقف کار ہیں۔ بہرحال اُن کا شکوہ اپنی جگہ کہ بلوچستان میں اُن کی سیاست کے دروازے بند جبکہ اسٹیبلشمینٹ کی حامی جماعت کے لیے دروازے پختہ کر دیے گئے ہیں۔
نگران وزیراعظم کاکڑ صاحب نہیں کوئی اور بھی آ جاتے تو بھی سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ن لیگ نے یہی پالیسی اختیار کرنا تھی تو پانچ سال پہلے کر لی ہوتی۔ ن لیگ سیاست کے گرداب میں اُسی محور پر آ پہنچی ہے جہاں مصلحت کے نام پر سیاسی مفاد حاصل کیا جاتا ہے؟ شاید مسلم لیگ نواز کی جمہوریت پسندی کا پیمانہ ختم ہو چکا یا ووٹ کو عزت دے دے کر تھک گئے۔
گزشتہ چند ہفتوں کی قانون سازی اور فیصلوں نے سیاست کو وہیں لاکھڑا کیا، جہاں تیس سال پہلے تھی، نا چہرے بدلے ہیں نا سیاست کا انداز۔۔۔ کوئی کیوں کر حساب لگائے گا کہ کیا کھویا اور کیا پایا۔
بشکریہ بی بی سی اردو