نومبر 24, 2024

نماوں سے ہوشیار

تحریر: علی سردار سراج

سب سے پہلے آپ کو الجھن سے نکالنے کے لئے موضوع میں موجود ” نماوں” کی وضاحت کرتے ہیں پھر اصل بات کی طرف آتے ہیں ۔

“نماوں” کسی زبان کا لفظ نہیں ہے بلکہ تنوع کی خاطر ” نما” سے جمع بنایا گیا ہے ۔

نما جو فارسی اور اردو زبان میں کسی اسم کے ساتھ لاحقے کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔

جیسے،عالم سے عالم نما۔ مظلوم سے مظلوم نما۔ ۔۔۔ یعنی جو دیکھنے میں ایسا ہے حقیقت میں نہیں ۔

اس کو اگر آج کی زبان میں ایکٹر اور اداکار کہیں تو زیادہ نزدیک ہے ۔

لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اداکار کسی دوسرے کی جگہ رول پلے کرتے ہوئے یہ بتا دیتا ہے” کہ میں صرف ایک اداکار ہوں” لیکن “نما” کبھی بھی اپنی اصلیت اور حقیقت نہیں بتاتا ہے۔

بلکہ کبھی کبھار اس کو بھی یہی یقین ہوتا ہے کہ وہ اس فیلڈ میں ماہر ہے نہ کسی کا نما۔

ہر فیلڈ کا آدمی اپنے فیلڈ میں داخل ہونے والے “نما “کو بہت اچھے انداز میں جانتا ہے لہذا وہ اس قسم کے لوگوں کو دیکھ کر سب سے زیادہ کرب و اذیت میں مبتلا ہوتا ہے ۔

لیکن عوام پھر بھی اس کے پیچھے جاتے ہیں جو” نما” ہیں اس میں عوامی کی سادگی اور “نما “کی اداکاری کا بڑا کردار ہوتا ہے ۔

کچھ لوگ واقعا عالم ہوتے ہیں اور کچھ عالم نما، کچھ واقعا ڈاکٹر اور معالج ہوتے ہیں اور کچھ ڈاکٹر نما ۔ ۔۔ غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں ایک حقیقی کردار ہے اور ایک اس کا بدل جو ہمیں گمراہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں دیتا ہے ۔

ان لوگوں کا جوش و خروش بالخصوص اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب کوئی ہیجانی کیفیت کا سما ہوتا ہے ۔

ملک میں جب اقتصادی مسائل ہوں تو یہی لوگ عوام کو چونا لگاتے ہیں ۔

صحت عامہ کا کوئی مسئلہ ہو تو ان ڈاکٹر اور حکیم نما لوگوں کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ اور سیاسی مسائل ہوں تو جعلی سیاستدان اور تجزیہ نگار گلی کوچوں میں دکانیں لگاتے ہیں ۔

ایام عزا میں منبروں پر ناچنے والے بندروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔ اور تبلیغ کے ایام میں اسلام کے حروف تہجی سے بھی نا بلد مبلغین کی ایک خاصی تعداد بوریا بستر اٹھا کر نگر نگر ظاہر ہوتی ہے۔

اور آج کل ڈگریاں ہاتھ میں لے کر ہر فن مولا، کے مدعی دانشور نما لوگوں کی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے ۔

ان کی دوسروں سے خاص بات یہ ہے کہ دوسرے صرف ایک فیلڈ میں ظاہر ہوتے ہیں، لیکن یہ زندگی کے ہر شعبے پر اظہار خیال کرتے ہیں ۔

سیاست پر بات کرتے ہوئے آپ کو یوں لگے گا کہ اس کا سیاست میں نہ فقط علمی تخصص بلکہ پوری عمر عملی سیاست میں گزری ہوگی۔

دفاعی اور امنیتی مسائل، میڈیکل کا شعبہ ۔۔۔ آپ جس شعبے میں بات کریں گے یہ سلونی کے دعویدار نظر آئیں گے ۔

اور سب سے مظلوم شعبہ شاید دین اور دین شناسی کا شعبہ ہے جس پر بات کرنے کے لئے دادا پر دادا سے یا کسی بھی جگے سے سنی ہوئی ہر طرح کی دین سے منصوب غلط اور صحیح کا کوئی مکس اچار ہاتھ آئے تو سب کچھ ہے۔

چونکہ دینی مسائل ہماری فردی اور اجتماعی زندگی میں عملی شکل میں موجود ہونے کی وجہ سے یہ مکس اچار تقریبا سب سے زیادہ آسانی سے میسر ہوتا ہے۔

لہذا ہوشیار رہیں کہ ہم زندگی کے کسی بھی شعبے میں ان لوگوں کے ہاتھ نہ چڑھ جائیں، بالخصوص دین کے شعبے میں کیوں کہ دین کا شعبہ جتنا عمومی ہے اتنا اہم بھی ہے۔

کیونکہ اس سے ہماری حقیقی سعادت کا تعلق ہے۔

لہذا خود بھی اور دوسروں کو بھی یہ نصیحت کریں کہ اپنے اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر دیں فہمی پر کام کریں اور جس مسئلے میں درست علم و آگاہی نہ ہو اس میں اظہار نظر سے گریز کریں ۔

امام معصوم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ” لا أدري نصف العلم ”

عدم علم کا اظہار نصف علم ہے۔

اور اسی طرح اصول کافی میں امام باقر علیہ السلام نے پیغمبر اکرم کا یہ فرمان مبارک بیان فرمایا بے ۔

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللّهِ(علیه السلام) قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّهِ(صلی الله علیه و آله وسلم) مَنْ عَمِلَ عَلَي غَيْرِ عِلْمٍ كَانَ مَا يُفْسِدُ أَكْثَرَ مِمّا يُصْلِحُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بغیر علم کے عمل کرے وہ ٹھیک کرنے سے زیادہ خراب کرے گا۔

اللہ تعالی دین میں بصیرت اور عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔

بندے کا ہدف معاشرے میں موجود ایک تلخ حقیقت کی طرف نشاندہی ہے کسی بھی شخص کی توہین اور تحقیر نہیں ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

14 − thirteen =