تحریر: رستم عباس (چوتھا حصہ)
نوع انسانی روز ازل سے ہی دو نظریوں کی پیرو ہے۔انسان کی نسلیں ان دو نظریات کے تحت ہی پروان چڑھتی رہی ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان نظریات میں جدت اور وسعت آئی لیکن ان کی بنیاد جوں کی توں محفوظ رہی ہے
پہلا اور فطری نظریہ حیات وہ ہے جسے حضرت آدم اللہ کے ھاں سے لے کر زمین پر اترے تھے۔حضرت آدم عالم ملکوت کے رہائشی تھے لہذا خالق سے بخوبی واقف اور آگاہ تھے۔اور یہ جانتے تھے کہ میں کون ہوں میں کہاں سے آیا ہوں اور میرا انجام کیا ہوگا اور کس طرح کس نوعیت کا ہوگا۔بخوبی جانتے تھے۔
لیکن حضرت آدم و حضرت حواء کے ساتھ ایک اور مخلوق بھی ملاءاعلی سے زمین پر اتری۔
یہ اس طرح نہیں سوچتی تھی کہ جس طرح حضرت آدم سوچتے تھے۔اور یہ مخلوق حضرت آدم سے پہلے زمین پر موجود تھی اور اپنے پر پرزے نکال چکی تھی۔اور من مرضی کی لذت سے بخوبی آشنا تھی
یہ بھی اپنے خالق سے بخوبی آگاہ تھی ۔لیکن زمانے گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے وجود میں موجود کرشموں سے آگاہ تھی اور اپنے نفس کی نیرنگیوں لطف اندوز ہورپی تھی۔
لہذا جب تعظیم آدم کا مرحلہ آیا تو اس مخلوق کا بڑا بزرگ حضرت آدم کی تعظیم سے انکاری ہوا۔اور رب العالمین کے دربار سے نکال دیا گیا۔
یوں اس طرح دوسرے نظریے کی بنیاد پڑ گئ۔
یعنی میں میں اور میں۔میں افضل ہوں۔میرے حقوق ہیں۔میرا کیا بنےگا۔ہم نے بھی خدمات پیش کی ہیں۔
یہ دو نظریے ہیں
ایک انسان کا تسلیم و رضا رب العالمین کا سا طرز حیات ہے۔
دوسرا من مرضی کا طرز حیات ہے۔میرا جسم میری مرضی کا طرزِ زندگی ہے۔
دونوں طرز حیات میں جدت آئی ہے لیکن انکی روح نہیں بدلی۔
تاریخ انسانی میں اس من مرضی کے نظریے نے بہت فساد برپا کیا۔اولیاء اللہ کو فنا کے گھاٹ اتارا گیاہے۔معصوم لوگوں کو کچلا گیا ہے۔
حتی پیغمبر گرامی قدر کے بعد اس امت رسول پر جو آفت آئی اہل بیت علیہم السّلام کے ساتھ جو ظلم روا رکھے گئے اس کی بنیاد بھی یہ میں میں تھی۔
باقاعدہ یہ کہا گیا کہ اگر علی کو ہم حاکم مان لیں تو ہمارا کیا ہوگا۔ہم نے بھی خدمات پیش کی ہیں۔ہمارا دل نہیں مانتا۔
حتی یزید من مرضی کی بہت اعلی مثال ہے۔کہ من مرضی کو پالنے کے لیے آپ کہاں تک جاسکتے یہ ابلیسی انسانوں کو یزید نے کھل کے بتا دیا ہے۔
من مرضی کا طرز حیات ہر دور میں رہا ہے لیکن اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں۔
دور حاضر میں من مرضی کا طرز حیات سیکولر جمہوریت ہے۔
جمہوریت کیا ہے۔؟؟؟؟
ایک قانون جو لوگوں نے بنایا لوگوں کے لیے لوگوں پر لاگو ہوگا۔
یعنی میں میں اور میں۔اس میں آپ کو خدا کہیں نظر نہیں آئے گا۔
اور باقاعدہ اب تو یہ بات مغرب میں زبان زدعام ہے کہ human rights انسانی حقوق ہیں۔انسان کا جو دل کرتا ہے اسے کرنا چاہیے۔اگر انسان کپڑے پہنے تو ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی مرد عورت چاہیے کہ اسے لباس کی ضرورت نہیں تو کوئی بات نہیں
وہ اپنی مرضی کرے کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔
اس نظریےکا اس وقت سب سے بڑا علمبردار مغرب ہے۔مغرب نے اس ابلیسی نظرے پر اپنے معاشرے کی قدریں استوار کی ہیں۔
آپ دیکھ لیں مغربی طرز زندگی میں آپ کو خدا کہیں نہیں ملے گا۔
ان کی معاش میں انکی تعلیم میں انکے قانون میں انکے طرزِ حکومت میں کہیں خدا نہیں ہے۔
ہر شعبہ زندگی من مانی اور خواہش نفس پر استوار ہے
جبکہ دوسرا نظریہ حیات جو حضرت آدم لے کر آئے تھے۔جس کی بنیاد میں توحید تھی۔جس کی بنیاد تسلیم ورضا تھی۔جس کا محور و مرکز خالق و مالک انسان تھا وہ بھی ہر دور میں موجود رہا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ اس میں جدت ضرور آئی ہے لیکن اس کی بنیاد جوں کی توں قائم ہے۔
اس نظریے کی بنیاد بندگی خالق کائنات ہے۔لہذا اس نظریے کے پہلے نمائندے حضرت آدم ہیں اور آخری حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔اور بعد از پیغمبر پیغمبر کے جانشین ہیں۔
یہاں پر آکر شیطان جو دوسرے نظریے کابانی ہے اور انسان کا کھلا دشمن ہے ایک بہت خطرناک وار کرتا ہے۔
کہ بعداز پیغمبر امت رسول کو اللہ کے نمائندوں سے دور کرتا ہے اور جس طرح حضرت آدم کو دھوکا دیا کہ آپ گندم کھا لو اور دلائل دئیے یہاں بھی اپنے مریدوں کو دلائل دیتا ہے۔کہ دیکھو کتاب خدا تو تمہارے پاس موجود ہے اس پر عمل ہی کرنا ہے نا اور نافذ کرنا یہ کام تو میں بھی کر سکتا ہوں لہذا میں نے کہا کہ علی حاکم نہیں ہوں گے۔ہم ہوں گے۔ہم بھی تو ہیں جو جنگیں کرتے رہے ہیں زخم کھاتے رہے ہیں۔
یوں شیطان نے بڑی چلاکی سے امت محمدی کو پٹڑی سے اتار دیا۔
اور بڑا انحراف کیا۔اورکہا کہ کتاب اللہ کی اور حاکم ہمارا۔
اور خلافت کی بنیاد ڈال دی۔
یہ نظام بھی ناکام ہوا کیوں کہ خلافت یزیدیت پر انجام پزیر ہوئی۔
امامت اللّہ کا بنایا ہوا نظام حیات بشر ہے۔جس طرح نبی اللّہ بناتا ہے امام بھی اللہ بناتا ہے۔
اور زندگی کا ہر شعبہ اللہ کی طرف واپس مڑتا ہے۔اسلامی و الہی معاشرے میں تعلیم کا مرکز و محور خدا ہے۔سیاست کا مرکز خدا ہے۔معشیت الہی بنیادوں پر استوار ہوگی۔
رشتے ناتے ریہن سہن لباس خوراک میل جول دوستیاں دشمنیاں سب کا محور و مرکز خدا کی زات ہے۔۔
اور اللہ نے حضرت ابرہیم کو پہلی دفعہ نام لے کر کہا کہ ہم نے آپ کو تمام انسانیت کا امام بنایا ہے۔
اور تمام انبیاء کو اللہ نے امام کہا ہے حتی کتب الہی کو اللہ نے امام اور رحمت فرمایاہے۔
اللّہ کے نظام میں مخلوق کا کردار صرف تسلیم ورضا کا ہے اطاعت کا ہے۔
اللہ امام کیسے بناتا ہے۔؟؟؟
کیسے پتا چلے کہ اسے اللہ نے امام بنایا ہے ؟؟؟
امام خدا دو طریقوں سے بناتا ہے
ایک دفعہ نام لے کر بتا دیتا ہے کہ موسی امام ہیں۔حضرت عیسی پیغمبر و امام ہیں۔حضرت محمد پیغمبر و امام ہیں۔
لیکن ایک دفعہ اللہ نام نہیں بتاتا نشانیاں بتاتا ہے جیسے امیر المومنین حضرت علی علیہ السّلام کی دفعہ اللّہ نے قرآن میں رسول کے بعد امام و ولی کی نشانیاں بتائیں ہیں۔
فرمایا ہے۔
کہ اللّہ تمہارا ولی ہے اسکا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ولی ہے اور جو لوگ حقیقی مومن ہیں نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیے ہیں
وہ ولی و امام ہیں.
اور تاقیامت حیات انسانی کا نظام زندگی امامت کے گرد گھومتا ہے۔اور آپ دیکھ لیں اس وقت ایک امام پردہ غیبت میں موجود ہے۔جب تک دنیا قائم ہے انسانیت کو ھدایت کی ضرورت ہے۔اور ھدایت دینے والے ھادی کی ضرورت ہے۔ہر دور میں اللّٰہ کا نمائیندہ مخلوق میں موجود ہوتا ہے اگر منصوص من اللہ غائب بھی ہوں تو اللّہ امت میں سے ان شرائط پر مبنی نائب امام کو حرکت دیتا ہے وہ مخلوق کی رہنمائی کرتا ہے
وہ شرائط کیا ہیں۔
1واقعی مومن ہو.
2.نماز پڑھتا نہ ہو بلکہ نماز قائم کرتا ہو۔یعنی عبدیت خالق کو عام کرتا ہو۔
3..مخلوق خدا کی معاش کاذامن ہو یعنی رحم دل ہو۔
امامت حاکمیت خدا کی نشانی ہے اور جمہوریت اور امامت کے بغیر جو بھی طرزِ زندگی ہوگا وہ شیطان کی حاکمیت کی نشانی ہے۔
لیکن مسلمان بڑے تیز ثابت ہوئے انہوں نے دونوں کو راضی رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے تاریخ بھر میں یہ کیا ہے رسول کے بعد حاکم اپنی مرضی کا اور قانون اللّہ کی مرضی کا۔لیکن انجام پہلے ہم بتا چکے ہیں۔
اس وقت ملک پاکستان میں اور پورے عالم اسلام میں ماسوائے ایک ملک کے عملاً شیطان کا نظام چل رہا ہے۔
آپ اپنے ملک میں دیکھ لیں تعلیمی نظام معاش کا نظام سیاست کا نظام غرض ہر شعبہ زندگی غیر الہی ہے اور حاکم بھی غیر الہی اور شیطانی ہیں۔
لیکن نام اسلام کا رکھا ہوا ہے۔ائین جو بنایا ہے وہ ایسے ہے جیسے سور کے اوپر بکرے کی کھال چڑھائی ہے۔اندر سے ہے شیطان لیکن ظاہر میں مواحد لگتا ہے۔
اور مغالطہ ہے کہ جمہوریت ہی اللہ کا نظام ہے اسلام میں جمہوریت ہےکیا امام مہدی ووٹ سے امام بنے ہیں یا آکر الیکشن میں حصہ لیں گے ۔
بنی نوع انسان کی نجات اس میں ہے کہ ملاءاعلی سے تعلق مضبوط رکھے۔کیوں کہ
ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور واپس اسی طرف جانا ہے
جاری ہے۔