تحریر: رستم عباس
(تیسرا حصہ)
اگر ہم اس کائنات پر نظر دوڑائیں۔ زمین کو دیکھیں۔کس قدر عظیم ہنر سے خالق نے اسے تخلیق کیا ہے۔زمین پر موجود ہر شئے زمین کو مزید ڈیکوریٹ کرتی ہے۔زمین کو اللّٰہ نے حیات بخشی ہے۔زمین ایک بے جان مادہ نہیں بلکہ جاندار ہے اور اپنے اوپر موجود تمام مخلوقات کو زندگی عطاء کرتی ہے۔
زمین کو اس قدر متصادم اشیاء سے خالق کائنات نے بھرا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔پانی کے سمندر۔پانی کے دریا۔ برفانی گلیشیر نباتات جمادات کی ناختم اور انگنت اقسام۔اور ان میں موجود حیوانات۔اور زرا سر اٹھا کر فلک کا نظارہ کریں۔نیلے رنگ کا ایک عظیم حیرت کدہ آباد نظر آتا ہے۔افلاک کی وسعت سائنس کی ترقی سے مزید آشکار ہورہی ہے۔ہمارے نظام شمسی میں سورج چاند اور انگنت ستارے ہیں۔سائنس کی تحقیق کے مطابق یہ تمام عالم ایک لطیف حساس اور ریگولر قاعدے و قانون کے تحت چل رہا ہے۔مثال کے طور پر دن اور رات ایک مقررہ وقت پر آتے ہیں اور مقررہ وقت پر جاتے ہیں۔ سردی گرمی کے ایام معین ہیں۔ ایک وقت میں اندھیرہ اجاتا ہے تو اندھیرے میں چاند روشنی کا چراغ بن کے رات کے وقتوں کو پراسرار کرتا ہے۔چاند کی روشنی میں ٹھنڈک ہے۔اور 8 پہر کے بعد سورج اجاتا ہے۔سورج بھی روشن ہے۔لیکن اس کی روشنی میں حرارت ہے اور حرارت میں شدت ہے۔
سائنس کہتی ہے اگر سورج گرم نہ ہو اور سورج کی کرنیں زمین تک نہ آئیں تو اناج اور غلہ نہیں آگے گا۔اور اگر اندھیرے میں چاند کی روشنی نہ ہو تو اناج اور پھلوں میں تاثیر اور لطف نہیں رہے گا۔
اور سائنس اب یہ بھی کہتی ہے کہ اگر سورج اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نیچے آجائے تو زمین پر موجود ہر مخلوق بتدریج ختم ہوتی جائے گی۔تمام پیداور جل کر راکھ ہو جائے گی۔
اور پھر زمین کو ہر اس چیز سے بھرا گیا ہے جو انسان کی حیات کے لیے ضروری ہے۔مثال کے طور پر پانی سے ہر چیز وجود میں آئی اور پانی سے ہی حیات باقی رہ سکتی ہے اگر پانی ختم ہوجائے تو پوری جاندار مخلوق چند دنوں میں ہی ملک عدم کی راہی ہوجائے گی۔اپ دیکھ لیں زمین پر سب سے زیادہ جو چیز ہے وہ پانی ہے بلکہ اس کرہ ارض پر پانی 71, فیصد ہے اور خشکی 29فیصد ہے۔اور پھر آسمانوں سے پانی برستا ہے زمین کے نیچے پانی ہے دریاؤں سمندروں میں پانی ہے۔
اس کے علاؤہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو خالق نے انسان کی تکریم اور مہمان نوازی کے لیے بنائی ہیں۔
اگر زمین پر کھانے کے لیے گوشت اور انڈے اور مچھلی نہ بھی ہوتی تو شاید انسان پھلوں سبزیوں پر زندہ رہ سکتا تھا لیکن یہ سب چیزیں اس حکیم نے انسان کو بہترین صلاحیتوں کے پروان کے لیے مہیا کی ہیں۔
اب آجائیں پیارے دوستوں۔
جس خالق نے انسان کی سانس کو چلانے کے لیے اتنے لطیف اور حساس نظام کائنات کو خلق کیا ہے۔کہ یہ زندہ رہے اس نے سورج چاند ستارے کو منظم نظام میں پرویا کہ یہ انسان کی زندگی کے لیے مصروف عمل رہیں۔
جس کی حیوانی زندگی کے لیے خالق نے اتنے پیچیدہ اور حساس نظام بنائیں ہیں۔کیا اس اشرف المخلوقات انسان کی انسانی زندگی معاشرتی زندگی کے لیے کوئی نظام نہیں بنایا۔وہ انسان جو زمین پر اللّہ کا نائب ہے جس کے لیے روز حساب رکھا ہے۔اس کی رہنمائی کے لیے کوئی نظام حیات نہیں رکھا۔؟؟؟
اور حاکمیت اور حکومت جس کے تحت انسان نے زندگی گزارنی اس کے بارے خالق نے کوئی رہنمائی نہیں کی؟؟۔
بلکل کی ہے۔ خالق نے اپنی لاریب کتاب میں سورہ یسین میں فرمایا ہے۔
کل شیا احصیناہ فی امان مبین۔
ہم نے ہر شئے کو امام مبین کے ماتحت رکھ دیا ہے۔
آپ اس کائنات کو دکھیں مادہ کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی ایٹم ہے۔اس میں ایک امام ہے جسے نیوکلس کہتے ہیں۔اور باقی زرے اس کے گرد گھومتے ہیں۔
اس کائنات کا مرکزہ سورج کو قرار دیا اور تمام نظام شمسی سورج کے گرد گھومتا ہے۔
انسان اپنے بدن میں دیکھے کہ اس کے بدن میں بھی امام موجود ہے جسے دماغ کہتے ہیں۔
تمام عضاء جوارع اس دماغ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔دماغ کے حکم پر بدن انسانی چلتا ہے حرکت کرتا ہے کوئی عمل انسان نے انجام دینا ہے پہلے دماغ سے حکم صادر ہوتا پھر اعضاء و جوارع حرکت میں آتے ہیں۔۔
انسان کی زندگی بھی ایک محور اور مرکز کے گرد گھومتی ہے وہ محور و مرکز تقریبآ تمام انسانوں کا انکی خواہشات ہیں۔
لیکن خالق انسان نے انسان کی راہ نمائی کی ہے کہ تمہارا محور و مرکز اللّہ ہونا چاہیے۔اور اس محور ومرکز کو مخلوق کے سامنے امام کی شکل میں آشکار کیا ہے۔
کہ انسان اپنے تمام امور میں امام سے احکامات لے اور انکے مطابق معاشرتی و انسانی زندگی گزارے تاکہ لقاء اللّہ تک پہنچ سکے۔امام کو اپنی تمام صفات کا مظہر بنایا پے۔۔۔
اور وہ تمام چیزیں اس رہبر میں بھری ہیں کہ جن کو دیکھ کر انسان وہ چیزیں اپنے وجود میں بھرےگا۔جس طرح کائنات کو مزین کیا ہے اسی طرح رہبر اور امام بھی بے عیب اور مزین رکھے ہیں۔جن میں کوئی کجی اور کمزوری نہیں رکھی۔ان کو بھی خالق نے کامل بنایا ہے۔کیا محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت میں کسی کو کوئی عیب ملا۔؟؟؟کیا علی مرتضی کہ جس کا سارا زمانہ دشمن تھا کیا کسی دشمن کو بھی کوئی عیب ملا؟؟؟ زمانے نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے لیکن ان میں کوئی عیب تلاش نہیں کر سکے۔اور جنہوں نے ان کو چھوڑ کر کوئی اور امام اور رہبر بنائے ہیں۔وہ ایسے ہی ہے کہ حلال اور طیب کو چھوڑ کر حرام اور غلیظ اشیاء کو کھانا ہے۔پاک کو چھوڑ کر پلید کو کھانا ہے۔
اور اگر زمانے میں ظلمت کی اندھیری رات چھا جائے اور امامت کا سورج پردہ غیبت میں چلا جائے تو بھی خدا نے رات کو روشن رکھنے کے لیے نائب امام کا چاند بنایا ہے۔جو اپنی روشنی نہیں رکھتا وہ امامت کے سورج سے روشنی لے کر رات کے اندھیرے میں انسان کو رستا دکھاتا ہے
زمانہ غیبت امام میں اللّٰہ نے انسان کو اندھیرے میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ نہیں دیا بلکہ ولایت فقہی کی صورت ھدایت کا اہتمام کیا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔