تحریر: سید قمر نقوی
طول تاریخ میں حق وباطل کی جنگ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی.لیکن مہم یہ ہے کہ ہم نے درست جگہ اور درست وقت پر تشخیص دینا ہے کہ ہم کس طرف ہیں.
اور پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی معاشرہ میں سب مومن نہیں ہوسکتے،پہلے تاریخ اسلام میں ایسا ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ ظہور امام تک ایسا ہوگا.لیکن جب حق کا غلبہ ہوجاتا ہے تو باطل مجبور ہوتا ہے کہ خود کو حق والوں کے ساتھ ہم آہنگ کرے اور اسی سے نفاق کی ابتدا ہوجاتی ہے.لیکن جب باطل غلبہ پالے وہاں حق والا گروہ بعض جگہ پر تقیہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے.اور تاریخ گواہ ہے صدر اسلام میں ایسا ہی ہوا ہے.اس مختصر مقدمہ کے بعد ہم اپنی اصلی بات کی طرف آتے ہیں.
کہا جاتا ہے کہ تاریخ بشریت کا بہترین معلم ہے.لیکن اگر ہم تاریخ کو برای تاریخ ہی پڑھتے رہے تو شائد کوئی بڑا نتیجہ نہیں لے پائیں گے.اس لیے ہمیں بصیرت کیلئے تاریخ کو اسٹراٹیجک نگاہ سے دیکھنا پڑے گا.
اگر ہم انبیاء اور آئمہ کی عظیم نہضت کا جائزہ لیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی چند سالہ حکومت(اور وہ بھی ایک چھوٹے سے منطقہ پر) اورحضرت یوسف علیہ السلام کا وزیربننے کے علاؤہ صرف امام علی علیہ السلام کی ساڑھے چار سالہ دور حکومت نظر آتا ہے.رسول خدا کی رحلت کے بعد جو انحراف اسلام میں پیدا ہوا اور امام کی پچیس سالہ خاموشی یہ تاریخ میں واضح ہے.لیکن ہم اس نکتہ کی طرف توجہ کریں کہ امام کی حکومت ساڑھے چار سال سے زیادہ کیوں نہ چل سکی اور اسکے بعد کیوں کوئی امام حکومت تشکیل نہ پاسکا اور امام مہدی سلام اللہ علیہا کو غیبت کبریٰ میں جانا پڑا؟
اس میں تین طرح کی فکر مؤثر ہے اور ہم حتمی اسکو پہچانے ورنہ ناگزیر تاریخ کو دہرائیں گے.
ناکثین:یہ گروہ پہلے درجہ کا انقلابی تھا.انہوں نے امام سے عہد باندھا تھا.انہوں نے امام کی حکومت کی تشکیل کیلئے بہت جدوجہد کی تھی.لیکن جب حکومت تشکیل پاگئی اور انکو عہدہ انکے تقاضا کے مطابق نہ ملے تو انہوں نے امام کے خلاف بغاوت کردی.اس میں عبرت یہ ہے کہ یہ خطرہ تاریخ میں ہر تحریک کو لاحق ہے.ایک تحریک کا اصل امتحان کامیابی کے بعد شروع ہوتا ہے کیونکہ اسکے بعد ایک تو نفاق بڑھتا ہے اور دوسرا قدرت کی منتقلی ایک ایسا حساس مسئلہ ہے کہ اگر افراد میں تقوا اور بصیرت نہ ہوتو وفاداریاں تبدیل ہوجاتی ہیں. آج کے دوست کل کے دشمن اور آج کے انقلابی کل زد انقلابی بن جاتے ہیں. اور یہاں سے امام وقت کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں.
قاسطین: یہ ناکثین کے برعکس ایسا گروہ تھا کہ انہوں نے اصلا امام سے عہد ہی نہیں باندھا تھا.یہ حضرت عثمان کے خون کے انتقام کا بہانہ بناکر امام کے ساتھ جنگ پر اٹھ کھڑے ہوئے.جنگ صفین شروع ہوئی،جناب مالک دشمن کی آخری صفحوں تک پہنچ چکا تھا اور کامیابی یقینی تھی.یہاں پر معاویہ کے اسٹراجسٹ عمروعاص ایک چال کے تحت قرآن کو نیزوں پر لے آیا.یہ ایسی خطرناک اسٹراٹیجی تھی کہ اس نے امام کی فوج میں تردد پیدا کردیا.ایک گروہ فریب کھا گیا.ایک گروہ جنگ کا موافق اور ایک گروہ مخالف ہو گیا.یہاں پر پہلا اور اہم جنگی اصول وحدت اور تمرکز ہی مخدوش ہو گیا.اور یہ جنگ سائیکالوجی وار میں بدل گئی.کیونکہ فوج میں تردد پیدا ہوچکا تھا اور یہ جنگ اب سافٹ وار میں داخل ہوچکی تھی.اس لیئے یہاں اب مالک اشتر کی تلوار نہیں بلکہ جناب عمار کی زبان چاہیے تھی جوکہ وہ اس وقت تک شہید ہوچکے تھے.
اگر اس وقت یہ کند ذہن جناب مالک اشتر کو واپس نہ بلواتے تو اسکے بعد قعود و سباط ہوتا اور نہ ہی سانحہ کربلا برپا ہوتا،جسکے نتیجہ میں غیبت کبریٰ بھی نہ ہوتی اور آج بشر کی تقدیر ہی کچھ اور ہوتی.
سپاہ کا تردد کا شکار ہونا ایک ایسا ڈومینو اشتباہ تھا کہ یہ یکہ بعد دیگرے دوسرے بہت سارے اشتباہات کا پیش خیمہ ثابت ہوا.اسکے بعد جنگ کو متوقف کرنا پڑا .اور جب ڈپلومیسی کا مرحلہ آیا توعمروعاص کے ساتھ مذاکرات کیلئے ایک نہایت ہی بدبین اور کج فکر شخص موسی اشعری کا انتخاب کیا گیا جو امام علی علیہ السلام کی خلافت کے خاتمے کا سبب بنا.
عبرت یہاں پر ہے کہ جب بھی ایک معرکہ سافٹ وار کی شکل اختیار کر جائے وہاں پر امام وقت آین عمار کی صدا لگاتا ہے.اور یہ ایک تاریخی سنت ہے کہ جب تک کردار عمار کی کمی ہوگی امام وقت کو آین عمار کی صدا لگانی پڑے گی.باقی ہم پر ہے کہ ہم نے وقت کے امام کے بازوں مظبوط کرنے ہیں یا تاریخ کو دوبارہ دہرانا ہے.
مارقین:یہ گروہ کاملا ولایت پزیر اور ولی کے ہمراہ ہوتا ہے لیکن یہ بعض جگہ محسوس کرتے ہیں کہ ولی کی رفتار بہت کند ہے اس لیے انکو انسے آگے نکنا چاہیے.اور انکا یہ آگے نکنا دین سے ہی آگے نکلنے کا سبب بن جاتا ہے اور نتیجہ خوارج کی صورت میں نکلتا ہے.
یہ گروہ جب صفین سے واپس پلٹا تو پولیٹکل ڈپریشن کا شکار ہوچکا تھا.انہوں نے تجزیہ و تحلیل کرنا شروع کیا کہ ہم تو امیر شام کو شکست دے رہے تھے تو پھر اچانک یہ بازی کیسے پلٹ گئی؟انکو قرآن نیزوں پر اٹھانے کی چال سمجھ آئ اور نہ ہی موسی اشعری جیسے شخص کو انتخاب کرنے کی غلطی بلکہ انہوں نے کہا حضرت علی علیہ السلام کو خلیفہ ماننا ہی اشتباہ تھا.اللہ کے علاؤہ کوئی حاکم نہیں پس علی کو توبہ کرنی چاہئے.یہ ایک منطقہ میں جمع ہوگئے اور شورش شروع کردی.امام نے ابن عباس کو انکے پاس مذاکرات کیلئے بھیجا تو انکے چند سوال اس طرح کے تھے۔
مثلا معاہدہ لکھتے وقت آپ نے اپنے نام کے ساتھ امیرالمومنین نہیں لکھا پس آپ خود کو امیرالمومنین نہیں سمجھتے تو ہم کیوں سمجھیں؟امام نے یہاں پر انکو رسول خدا کا مشرکین سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ یاد دلایا کہ کیسے مشرکین نے رسول خدا کا نام نہ لکھنے دیا.انکا دوسرا سوال یہ تھا کہ
آپ نے موسی اشعری اور عمر وعاص کو کیوں کہا کہ اگر معاویہ حق پر ہے تو اسکی اور اگر میں حق پرہوں تو میری تائید کریں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپکو اپنی امامت میں شک تھا.
امام مشروعیت خدا سے لیتا ہے لیکن حکومت کیلئے لوگوں کی مقبولیت لازم ہے.
یہ ایسا گروہ تھا جو حق کی تلاش میں تھا لیکن اس تک نہ پہنچ سکا.
پس تاریخ درس دیتی ہے کہ جب تک حق وباطل رہیں گے امام وقت کو بھی ہر دور میں ان تین گروہوں سے سامنا کرنا پڑ سکتا ہے.لیکن ہم تاریخی عبرت بننے سے بچنے کیلئے اپنی جگہ تلاش کریں کہ کہاں پر کھڑے ہیں.