تحریر: محمد خان محوری
پاکستان اگر چہ اسلامی ملک ہے۔اس کے آئین و قانون کا محور قرآن وسنت اور اہلبیت علیہ السّلام کی تعلیمات اور سیرت ہیں البتہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی کا گروہی عقیدہ ،دیگرگروہوں ،طبقوں یا مسالک کےلئے نہ تو حجت ہے اور نہ ہی کوئی قانون ۔اگرچہ کسی گروہ کا عقیدہ خود اسکے پروکاروں کے لئے آئین و قانون کی حیثیت رکھ سکتا ہے لہذا یہ طفلانہ خواہش، تجاہل عارفانہ اور جہالت ہوگی کہ آپ دوسرے طبقات/مقابل گروہ یاحزب اختلاف سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے عقیدے سے دستبردار ہوتے ہوئے مدمقابل کے نظریے اور عقیدے کے سامنے سرتسلیم خم کرئے۔جبکہ یہ بھی مسلم حقیقت ہے کہ کوئی اگرشیعہ،سنی،وہابی ،ہندو،سکھ یا عیسائی العقیدہ فکر ہیں تو فقط اس لئے ہیں کہ انکے ہاں انسان،کائنات اور خدا کے درمیان باہمی تعلق پیدا کرنے اور اسے ثابت کرنے کے لئے الگ الگ پیمانے ہیں۔اگر وہ پیمانہ اور وہ دلیل جو انہیں ایک مختلف العقیدہ انسان کی حیثیت دیتا ہے ،موجود نہ ہو یا کمزور پڑ جائے یا نظر انداز کردیا جائے یا عقل و فکر کی روشنی میں رد کیا جائے تو مسلکی اور گروہی امتیاز کی تفریق ختم ہو جائے گی یوں تمام انسان ہم فکر ،ہم جماعت اور ہم مکتب بن جائیں گے ،لیکن یہ سب اس صورت میں ممکن ہے کہ جبر و قہر،ظلم و تشدد ،تلوار و ہتھیار اور طاقت کا سہارا لئے بغیر آذادی فکر،تبادلہ خیال، مسالک و مذاہب اور انکے ماخذ کا مطالعہ ،مشاہدہ اور تحلیل و تجزیہ کیا جائے نیز مقابل گروہ کے بلند فکر یا اپنے عقیدے سے غیر ہم آہنگ گفتگو اور دلیل کو اپنی توہین اور تکذیب بھی نہ سمجھا جائے۔یہ اختلاف پر مبنی باتیں نہیں جو اختلافات کو تعصب اور دشمنی کی شکل دیتی ہے بلکہ یہ وہ ذہن ہے جنہں دوسرے کی وجود کو تسلیم کرنا اور استدلالی گفتگو کے زریعے دوسرے کو قائل کرنا یا دوسرے کے سامنے قائل ہونا نہیں سکھایا گیا ہے بلکہ انہیں فقط یہی سمجھایا گیا ہے کہ اپنے عقیدے کے علاؤہ دوسرے عقائد کے حامل انسان کافر اور واجب القتل ہیں جبکہ انکا عقیدہ ،عقیدہ نہیں بلکہ فتنہ و فساد ہے۔
ناموس صحابہ و اہلیبیت ترمیمی بل اگرچہ متنازعہ بل ضرور ہیں لیکن اس بل نےاس حقیقت کو مزید روشن کردی ہے کہ آپ کتنے ہی اعلی پائے کے سیاستدان اور تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو اگر دینی اور مذہبی شعور سے خالی ہو تو فتنوں کو جنم دیتا ہے۔ناموس صحابہ ترمیمی بل کیا ہے۔۔۔؟یہ بل دراصل سیاستدانوں کی سیاسی بصیرت ،دور اندیشوں کی فہم و فراست اور ریاست کا بنیادی انسانی اور ریاستی ایشو کی حساسیت اور نزاکتوں کے بارے میں جہالت کے سوا کچھ اور نہیں۔مذہبی طبقے چیخ چیخ کر اس بل کی مخالفت کررہے ہیں کہ اس نام نہاد بل کے بعد سے پاکستان میں فرقہ واریت کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ شروع ہوگا اور جڑنوالہ جیسا افسوسناک حادثہ پیش آتے رہیں گےلیکن مجال ہے ہمارے لبرل طبقے کا جنکی زبان میں زرا بھی جنبش آئے بلکہ ہمیشہ کی طرح ہمارے ملک کے لبرل طبقے کی منافقت کا عالم یہ ہے کہ وہ آواز اٹھانے کےلئے کسی معصوم انسان کے لاش گرنے کے منتظر ہیں۔ تف ہے اس طبقے پر جو منافقت کے پردے میں انسانی ہمدردی کا ڈرامہ تو رچا لیتے ہیں لیکن اس وقت خاموشی اختیار لیتا ہے جب موت کا کنواں بن رہا ہوتا ہے یا پھانسی کا پھندا تیار ہورہاہوتا ہے۔
پاکستان دہشتگردی کی زد میں اس لئے ہیں کہ اول تو یہ کہ قانون فقط عوامی اور پارلیمانی نمائندوں کی ایما پر ہی بنائے جاتے ہیں دوم یہ کہ مجرمانہ اور فرقہ وارانہ سیاسی بیک گراؤنڈ رکھنے والے مجرمین قانون سازی کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے قانون میں دہشتگردی،انتہا پسندی ،فرقہ واریت اور انتہا پسندی سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہی نہیں ہے۔بلکہ ایسے قانون تو ملک اور سماج کے دشمنوں کو سماج دشمن عناصر کےلئے نرم گوشہ کے علاؤہ جگہ بھی فراہم کرتا ہے۔
اول الذکرنکتے کو ہم دوسرے زاویے سے یوں دیکھ سکتے ہیں ۔یوں تو ملک عزیز میں دہشت گردی،شدت پسندی یا تشدد انگیز مہم اور مہم جوئی کے روک تھام اور انسدادکےلئے ریاست اور ریاستی ادارے مختلف طریقہ کار اور حکمت عملی بناتے رہتے ہیں اور دنیا میں رائج ماڈل کو بھی اپناتے ہیں لیکن اسکے باوجود بھی ملک سے تشدد پسندی اور شدت پسندی کے خاتمے یا اس میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔۔۔۔آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے۔۔۔؟کیا دہشتگردی اور شدت پسندی میں کچھ وقت کے لئے غیر یقینی طور پرکمی اور پھر اچانک غیر معمولی طورپر اضافہ ریاستی پالیسی ہے یا ریاستی فہم وفراست کی کمی۔۔۔؟یقینا شدت پسندی کو پروان چڑھانا نہ توقومی پالیسی ہے اور نہ ہی قومی پالیسی کا حصہ یا کوئی جز ،کیونکہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے،اور دنیا کی کوئی ماں اپنے بچوں کو قتل و غارت نہیں سکھاتی ہے۔البتہ قدیم اصولوں(کنونشنل ٹیکنیک) سے تربیت یافتہ بچوں کی تربیت میں جدید زمانہ اور اس زمانے کے فکری ،نظریاتی اور تیکنیکی اصول سے ناواقفیت کی وجہ سے بچے جدید زمانے کے ساتھ متوازن اور ہم آہنگ نہیں چل سکتے ہیں کیونکہ اسکی ذہن سازی پرانے زمانے کے پرانے طریقہ کار کے مطابق ہوئی ہوتی ہے ۔لہذا پیراڈائم شفٹنگ کے دوران ہمیشہ ٹرانزیکشن پریڈ میں اتار چڑھاؤ یقنی ہے ،ایسے میں انسانوں اور انسانی اداروں کو قبل از وقت اس ٹرانزیکشن پریڈ کے دوران آنے والے علمی یا فنی کمی کا اعتراف اور ادراک رکھتے ہوئے عہد حاضر کے تربیتی اصول و قوانین کو بلا چوں چراں تسلیم کرنا ہوگا۔یعنی کہ ریاست کو یہ سمجھنی ہوگی کہ اب تک شدت پسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کا جو اصول انہوں نے اپنارکھی ہے وہ اب بنیادی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ ثانوی حیثیت سے بھی کم حیثیت رکھتی ہے۔۔۔وہ اصول اور طریقہ کار کیا تھے۔۔۔؟شدت پسندی اور انتہا پسندی وغیرہ سے نمٹنے کےلئے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشرے کے سٹریٹیجک افراد نے ہمیشہ قانون سازی،سخت سے سخت سزا بعض اوقات مجرموں اور دہشت گردوں کی جرائم پیشہ زندگی کا خاتمہ کرنے کو ہی، معاشرتی امن و سکون کا بنیادی جزو سمجھا ہے۔اگرچہ اس طریقہ کار سے وقتی طور پر مثبت نتائج ضرور ملے ہیں لیکن چونکہ اس طریقہ کار میں طویل مدت منصوبہ بندی اور پالیسی سازی نہ ہونے کی وجہ سے دہشتگردی ،شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف جیت کبھی نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی ایسے کسی فتح کا کوئی امکان ہے۔آپ کسی دہشتگرد کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے تو دھکلیل سکتے ہیں لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ جیل سے آذادی کے بعد بھی دہشتگردی اور انسان دشمن سرگرمیوں سے باز رہیں گے۔۔۔۔؟یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ کسی مجرم کو انسانی آداب سکھائے جبکہ اسکے ذہن میں انسان اور انسانیت کا تصور ہی موجود نہیں۔اگر آپ ان مجرموں کو پارلیمنٹ میں جگہ دیں اور انہیں قانون سازی کی اجازت دیں تو وہ عدل و انصاف پر مبنی قانون بنا سکیں گے یا انسانی خون بہانے کو قانونی شکل دیں گے ایسے کہ جیسے فرقہ واریت پر مبنی ناموس صحابہ بل ۔۔۔؟ آپ جمہوریت میں کسی کو نظر انداز تو کرسکتے ہیں لیکن قوموں کے قومی حقوق کو نہ تو نظر انداز کرسکتے ہیں اور نہ ہی جمہوریت کی بنا پر انکے خلاف قانون سازی کرسکتے ہیں۔کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ملک کی نصف آبادی کو قانون سازی سے دور رکھتے ہوئے آپ کوئی قانون بنائے اور وہ ملک و معاشرے میں مثبت نتائج دے۔۔۔؟یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ قرآن و سنت کی بجائے جمہوری بنیادوں پر قانون سازی کرے اور کسی مسلک و مذہب کا قومی تشخص اورانسانی حقوق محفوظ ہو۔لہذا ایسے میں کسی بھی مذہبی گروہ کے قومی حقوق کی حفاظت کے لیے جلد ریاستی سطح پر مندرجہ زیل اقدامات کرنے ہوں گے۔
1۔ناموس صحابہ و اہلیبیت کو منسوخ کردیا جائے تاکہ فرقہ واریت کو قانونی حیثیت نہ مل سکے۔
(2)اسلامی نظریاتی کونسل کو ایڈوائزری کونسل کی بجائے قانون سازی میں بنیادی حیثیت دے دی جائے۔
(3)مذہبی طور پر ہونے والے کسی بھی قانون سازی کو پارلیمنٹ اور سینٹ کی بجائے اسلامی نظریاتی کونسل کی منظوری سے مشروط قرار دی جائے کیونکہ اسلامی نظریاتی کونسل ہی تمام مذہبی و مسلکی گروہوں کا متفقہ آئینی ادارہ ہے۔
(4).اسلامی نظریاتی کونسل میں آبادی کی بجائے فرقوں اور مسلکی تعداد کی بنیاد پربرابر نمائندگی دی جانی چاہیے کیونکہ جمہوریت میں اکثریت واقلیت اور حزب اختلاف کا تصور ہوتا ہے اور فیصلہ بھی جمہوری منشا کے مطابق ہوتا ہے جبکہ دینی معاملات میں جمہوریت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی کیونکہ حق و باطل کا معیار اور فیصلہ جمہوریت اور جمہوری منشاء پر نہیں ہوتا بلکہ ڈیوائین پرنسپل کے مطابق ہوتا ہے ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل میں مسالک کی جمہوریت کی بنیاد پرنمائندگی لایعنی اور دین و اسلام کے عین مطابق نہیں۔
(5).جس طرح قومی اسمبلی و سینیٹ میں مخصوص نشستیں مختص ہیں ایسے میں مسلمانوں کے بھی تمام فرقوں کے لئے نشستیں مخصوص ہوں تاکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی منظوری یا غیر منظوری سے اگر کوئی گروہ ڈرافٹ ،مذہبی بل ،قرارداد وغیرہ پاس کراتا ہے تو تمام فرقوں اور مسالک کے علماء کرام اس پر بحث اور نظرثانی کرسکیں اور آخرکار باہمی مشاورت سے کسی بل،قراداد منظور کرے یا رد کر سکےتاکہ کسی شرپسند کو فرقہ واریت کو ہوا دینے کا موقع نہ ملے۔ کسی بھی پلیٹ فارم پر تمام مسالک کو برابر نمائندگی دینے سے کسی گروہ میں پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی یوں ظاہر روشن اور باطن جرائم سے بھرپور ناموس صحابہ بل جیسا کسی کا عقیدہ کسی دوسرے کےلئے قانون بھی نہیں بن سکیں گے۔