تحریر: ایس ایم شاہ
پاکستان میں بے گناہ مسلمان شہریوں کے قتل عام میں مسلکی شدت پسند ٹولے کا کلیدی کردار رہا ہے۔ آمر ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور میں اس کا آغاز ہوا۔ جہاد افغانستان کے نام پر اسٹبلشمنٹ کی زیرپرستی سرکاری نمک خوار مولویوں کے ذریعے افغانستان میں امریکا اور روس کی جنگ کو جہاد افغانستان کا نام دیا گیا۔ مجاہدین کے نام پر تربیت یافتہ جنگجو افغانستان بھیجے گئے۔ یہ جنگ ختم ہوتے ہی دہشتگرد دستے بے مصرف رہ گئے۔ پھر انھوں نے ملک کے اندر مسجدوں میں گھس کر نہتے نمازیوں کو اور امام بارگاہوں میں گھس کر بے گناہ عزاداروں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ مارکیٹوں میں خودکش دھماکے کرکے بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگے۔ پھر ملک کے اندر ہی اسی دہشتگرد ٹولے کی ایک مذہبی جماعت تشکیل پائی۔ جس کا نام “انجمن سپاہ صحابہ” رکھا گیا۔ اس کا سربراہ بدنام زمانہ دہشتگرد مولانا اعظم طارق بن گیا۔آہستہ آہستہ دہشتگردوں کے اس سرغنے نے ملکی پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کرلی۔ پھر وہ اتنا جری ہوگیا کہ 1999میں ناموس صحابہ بل مقتدر ایوان میں اسی بدنام زمانہ دہشتگرد نے پیش کیا۔ پھر اس کی ہلاکت کے بعد یہ بل ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگیا۔ بعدازاں 2020 میں عمران خان کے دور حکومت میں پرویز الٰہی کی سرپرستی میں پنجاب اسمبلی سے یہ بل پاس ہوا لیکن ان کے ناپاک عزائم بھی خاک میں مل گئے اور آج کل وہ بھی اپنا مکافات عمل بھگت رہا ہے۔ اب جولائی 2023 میں پی ڈی ایم حکومتی اراکین ملک کو معاشی طور پر تباہی کے دہانے تک پہنچا کر، مہنگاہی کو بے لگام چھوڑ کر، بیروزگاری کو بام عروج تک پہنچا کر، گندم، بجلی اور تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے کی حد تک پہنچا کر، اپنے اپنے بلوں میں گھستے وقت یہ بل پاس کرکے گئے ہیں۔
ہر مسلمان جہاں اہل بیت کا احترام کرتے ہیں وہیں صحابہ کرام کا احترام بھی اپنے اوپر لازم گردانتے ہیں۔ حضرت سلمان فارسی کے بارے میں فرمان رسول “سلمان منا اہل البیت” کو جھٹلا سکتا ہے؟ حضرت ابوذر غفاری کے بارے میں “روئے زمین پر ابوزر جیسا حق گو کوئی نہیں” اس سے کون انکار کر سکتا ہے؟ حضرت عمار یاسر کے ایثار و فداکاری کو کون نادیدہ قرار دے سکتا ہے؟ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اس بل کو پیش کرنے کی ضرورت ہی پیش کیوں آئی؟ صحابہ کی تعریف کیا ہے؟ ناموس صحابہ کا معیار ہی کیا ہے؟ پاکستانی آئین میں یہ شق مندرج ہے کہ ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں بنے گا جو قرآن و حدیث سے متصادم ہو۔ آخر قرآن کی وہ کونسی آیت ہے جو ناموس صحابہ بل کی توثیق کرتی ہو؟ وہ کونسی حدیث رسول ہے جو اس عمل کے لیے جواز فراہم کرے؟
آپ ان شدت پسند مولویوں سے ہی استفسار کیجئے تو معلوم ہوگا کہ نہ یہ لوگ صحابہ کی تعریف پر اتفاق رکھتے ہیں نہ صحابیت کے معیار پر اتفاق نظر رکھتے ہیں اور نہ ہی صحابہ کے مصادیق پر متفق ہیں۔ کیونکہ یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ بہت سارے کرپٹ، بدکردار اور جھوٹے افراد نے بھی صحابیت کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ اب کھرے کھوٹے میں تمیز کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ “150جعلی اصحاب” کے نام سے محقق زماں علامہ مرتضی عسکری نے چشم کشا حقائق پر مشتمل مستند حوالوں کے ساتھ کتاب بھی لکھی ہے۔ بالفرض اگر کوئی انڈین جاسوس پاک فوج کی وردی میں آئے تو کیا وہ پاکستانی فوجی کہلائے گا؟ کیا اس کی ملامت اور توہین پاک فوج کی توہین شمار ہوگی؟ ہم اس کا احترام کریں گے یا اسے نشان عبرت بنائیں گے؟ عین یہی صورتحال صحابہ کے حوالے سے بھی ہے۔ صحابہ کرام کا احترام ہر مسلمان اپنا اخلاقی فریضہ گردانتا ہے۔ انصار و مہاجرین نے اپنی ہستی اسلام کی راہ میں لٹا دی، اپنا گھر بار اسلام کی خاطر قربان کر دیا اور اسلام کی خاطر کافی جنگیں لڑیں لیکن اس پاکیزہ نام کا سہارا لیکر جن بدکردار افراد نے صحابیت کا روپ دھار لیا ہے ان کی بدکرداری پر تنقید کرنے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے۔ یہ بل سراسر آزادی اظہار رائے کی کھلی مخالفت، دہشتگرد گروہوں کو کھلی چھوٹ دے کر منظر عام پر لانے کی گھناؤنی سازش، 1988ء میں ضیاء الحق کے دور کی مانند فرقہ واریت کی آگ لگا کر گلی کوچوں کو خون کی ندیوں میں بدلنے کی خطرناک سازش اور ڈکٹیٹروں کو صحابیت کا لبادہ پہنا کر تحفظ فراہم کرکے جمہوریت پر شب خون مار کر آمریت کو پروان چڑھانے کی ناکام کوشش ہے۔
شکر ہے آئین پاکستان 1973میں ذوالفقار علی بھٹو نے یہ شق شامل کرکے تنگ نظر شدت پسند ٹولے کو من مانی کرنے سے روک لیا تھا کہ ملک کے اندر تمام شہریوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ ورنہ یہی ٹولے ناموس ن لیگ، ناموس جے یو آئی، ناموس پی پی اور ناموس پی ٹی آئی جیسے بل بھی اسمبلی میں لے آتے۔
گزشتہ 25 سالوں سے طالبانی، داعشی ذہنیت کے دہشتگردوں کے ذریعے سے یہ بل پاس کرانے کی ہر ممکن کوشش جاری رہی ہے۔ ان شاء اللہ گزشتہ دفعات کی مانند اس دفعہ بھی ان تکفیری عناصر کو ناکامی کا سامنا ہوگا، ان کے ناپاک عزائم خاک میں مل جائیں گے۔ کیونکہ ان کا مقصد اسلامی مقدسات کی حفاظت ہرگز نہیں بلکہ اعظم طارق دہشتگرد کے ناکام مشن کو دوبارہ زندہ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بل کے پاس ہوتے پر معاویہ اعظم اور اورنگزیب فاروقی نے مٹھائیاں تقسیم کی ہیں کیونکہ اس بل کے ذریعے تاریخ کے ڈکٹیٹروں کی ملوکیت اور ان کے مظالم پر صحابیت کا پردہ ڈال کر ان کی کارستانیوں کی پردہ پوشی کرنا اور حسینت کو کمزور کرکے یزیدیت کو پروان چڑھانا ہے۔ اس بل سے مسلکی شدت پسندی میں اضافہ ہوگا، تاریخ کے بدنام زمانہ افراد کو صحابیت کا لبادہ اوڑھنے کا موقع فراہم ہوگا، جمہوریت کی شکست اور ملوکیت کی جیت ہوگی۔ آئے روز آپس کے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں پر بھی گستاخ صحابہ کا دفعہ لگا کر بے گناہ شہریوں کو پابند سلاسل کیا جائے گا۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بل کو فی الفور معطل کرکے ملک کو ایک بہت بڑے بحران سے بچایا جائے۔ ورنہ فرقہ واریت کی آگ میں جُھلس کر سب خاکستر بن جائیں گے۔