تحریر: اکبر حسین مخلصی
مغربی ایشیا كے موجودہ تزویراتی منظرنامے پر حاوی مقاومتی بلاک اپنی اصل میں امریکی استکبار اور اس کے یورپی اور مقامی گماشتوں کے خطے کی مستضعف اقوام پر جاری مظالم اور استحصال کے خلاف مزاحمت کا نظریاتی مکتب ہے جو تحریک کربلا کے آزادی بخش اصولوں اور خطوط پر استوار ہے۔
مکتب مقاومت کی مظلوم دوستی اور استکبار ستیزی کی روح آج فلسطین سے شام، عراق اور یمن تک پوری طاقت کے ساتھ میدان نبرد میں موجود ہے جس کے نتیجے میں ستم دیدہ ملتوں اور استکبار گزیدہ قوموں کو آزادی اور استقلال کے حصول کے لئے استقامت کے آبرومندانہ راستے کے انتخاب کا شعور اور حوصلہ مل چکا ہے۔
اس مکتب کے پرودہ سورماوں نے جہاں سیریا کو امریکا اور یورپ کے تخلیق کردہ داعش اور النصرہ فرنٹ جیسے خون آشام تکفیری جتھوں کا قبرستان بنا ڈالا وہیں مغربی ایشیا سے امریکا اور یورپ کی بساط لپیٹنے کا محاذ بھی کھولا ہے۔
شہید قاسم سلیمانی اسی مکتب مقاومت کے ایک عظیم سرخیل اور جرنیل تھے جن کی مظلوم دوستی اور استکبار ستیزی کے چرچے زبان زد عام ہیں۔
مقاومت کے اس بطلِ جلیل نے جہاں شیطان بزرگ امریکا اور اور یورپی ٹرائیکا کی اسرئیل کے ناجائز وجود کو بچانے کے لئے شام کو تختہ مشق بنانے کی شیطانی کوششوں کو ناکام بنا ڈالا وہیں مقبوضہ فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کی جدید عسکری خطوط پر سپورٹ کے ذریعے غاصب اسرئیل کے خاتمے کی کاونٹ ڈاون ایکسپڈیشن کو بھی حتمی مرحلے میں پہنچا دیا۔
جس کا ثبوت یہ ہےکہ آج مقبوضہ فلسطین میں غاصب صیہونی رجیم کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر دسیوں گوریلا آپریشنز پوری کامیابی کے ساتھ انجام پا رہے ہیں جو کہ گذشتہ دہائی کی نسبت مزاحمت کی طاقت میں پیشرفت کا ایک امید افزا ریکارڈ ہیں۔
یوں تو مقاومت کے اس عظیم سپوت کے عسکری کارناموں اور خدمات کی فہرست بہت طویل ہے لیکن تحریر کی طوالت کے خوف سے صرف ایک خصوصیت کی طرف اشارہ کرنے پر ہی اکتفا کریں گے۔
شہید قاسم سلیمانی نے عسکری تزویرات کے ایک اعلی دماغ کی حیثیت سے مقاومتی بلاک کے مرکزی ہدف پر ہی فوکس رکھا اور اس ہدف سے دھیان بٹانے کی دشمن کی تمام تر ہائبرڈ چالوں کو ناکام بنا دیا۔
مقاومتی محاذ کا مغربی ایشیا کی سطح پر مرکزی ہدف یہ ٹھہرا کہ خطے پر قائم امریکی عسکری تسلط کے خلاف مزاحمتی بلاک کے کاونٹر ایکشن کو وسعت دے کر امریکہ اور یورپ کے “مغربی ایشیا کو میدان جنگ بنائے رکھنے ” کی پالیسی کو براہ راست نشانہ بنایا جائے تا کہ انہیں خطے سے باہر نکال پھینکنے کے ہدف کو بتدریج کیا حاصل سکے اور اس سلسلے میں امریکہ اور یورپی ٹرائیکا کے اسرائیل کی حفاظت کے لئے انجام پانے والے سکیورٹی اشتراک کو بھی کثیر الجہتی مزاحمتی آپریشنز کے ذریعے ناکام بنا دیا جائے۔
شہید قاسم سلیمانی کی عسکری مجاہدت کا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مغربی ایشیا کے داخلی سیاسی اور فرقہ وارانہ تنازعات میں الجھنے کی بجائے خطِ مقاومت کے مرکزی ہدف پر اپنی توانائیوں کو مرتکز کرکے خطے میں امریکی استکبار اور یورپی استعمار کی توسیع پسندانہ عسکری جارحیت کا بھر پور مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں امریکہ کو سیریا اور عراق میں رسوا کن شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکہ نے اس رسوائی کا بدلہ لینے کے لئے شہید کو راستے سے ہٹانے کا شرمناک حد تک بزدلانہ طریقہ اپنا کر اپنی سفاکیت کا ثبوت دیا لیکن شہید کے خون نے آج پسی ہوئی ستم زدہ ملتوں کو مقاومت کے آبرومندانہ راستے پر گامزن کر دیا ہے جو عالمی استکبار کی نابودی اور غاصب اسرائیل کے خاتمے جاری رہے گا۔ مقاومت کے اس عظیم سورما کی کامیاب ڈیٹرنس نے آج امریکا کو خطے میں دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کر دیا ہے جو کہ عسکری امور کے ماہرین کی نگاہ میں امریکہ کے عسکری تسلط کی شکست و ریخت کا واضح اعلان ہے۔