تحریر: عمر فاروق
بھارتی حکومت نے 19 صفحات پر مشتمل 40نکات کا ایک حلف نامہ میں اپنی سپریم کورٹ میں جمع کروایاہے جس میں کہاگیاہے کہ پانچ اگست 2019 کو انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد، امن اور خوشحالی کا دور شروع ہوا ہے۔ علاقے میں حالات معمول پر ہیں اور روزانہ کی ہڑتالیں اور پتھرا ئومکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔اس حلف نامے میں وزارت داخلہ نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ گذشتہ چار سالوں میں کشمیر میں نہ صرف حالات بہت بہتر ہوئے ہیں بلکہ انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں45فیصد تک کمی آئی ہے۔2019 میں ریاست کو دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے سے بہت فائدہ ہوا ہے اور حالات پہلے سے زیادہ پرسکون اور نارمل ہو گئے ہیں۔
یہ رپورٹ اس وقت جمع کروائی گئی ہے جب بھارتی سپریم کورٹ 2 اگست سے مقبوضہ کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے سے متعلق عرضی پر روزانہ سماعت کرے گی، جس میں عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا حکومت کا فیصلہ آئین کی دفعات کے مطابق تھا یا نہیں۔دراصل مودی اگلے الیکشن سے قبل مقبوضہ کشمیرکے حوالے سے اپنے فیصلے پرسپریم کورٹ سے مہرثبت کرواناچاہتاہے ۔بھارتی عدلیہ مودی اوران کے حامیوں سامنے کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے ۔اس لیے یہ کہاجارہاہے کہ بھارتی سپریم کورٹ مودی کے ناجائزاورغیرآئینی فیصلے کوقانونی غلاف پہنائے گی تاکہ اگلے الیکشن میں مودی کی جیت کاساماں ہوسکے ۔
مقبوضہ کشمیرمیں امن بھارتی دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ حریت قیادت یاجیل میں ہے یاگھروں میں نظربندہے ،صحافیوں اورانسانی حقوق کے کارکنوں اوروکلاء کے گھروں پرمسلسل چھاپے مارکرہراساں کیاجارہاہے ،مقدمات کی بھرمارکردی گئی ہے ،انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھ گئی ہیں ،غیرانسانی قوانین کانفاذکیاگیاہے جس کے تحت بھارتی مظالم کے خلاف ہڑتال کرنے والے تاجروں کی دوکانیں ذبردستی کھلوائی جاتی ہیں جوبھی انڈین مظالم کے خلاف آوازاٹھاتاہے اس کی جائیدادضبط کردی جاتی ہے ،ڈومیسائل قوانین کی تبدیلی سے آبادی کاتناسب تبدیل کیاجارہاہے ،مسلمانوں کوبے گھرکرکے ہندووں کوبسایاجارہاہے ، احتجاج کے خوف سے آئے روزانٹرنیٹ بندکردیاجاتاہے ۔پچھلے تقریبا چار سالوں میں یو اے پی اے جیسے بدنام زمانہ قوانین کا ریکارڈ سطح پر استعمال ہو رہا ہے۔سال 2019 کے بعد وادی کشمیر میں یو اے پی اے اور پبلک سیفٹی ایکٹ یعنی پی ایس اے کے تحت لوگوں کی گرفتاریوں میں اضافہ ہوا ہے۔
بھارتی حکومت کے دعووں کے برعکس مقبوضہ کشمیرمیں عوام کی زندگی مزیداجیرن ہوگئی ہے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی سال 2021 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں یو اے پی اے کے سب سے زیادہ کیس جموں و کشمیر میں درج ہوئے ہیں۔ انڈیاکی مرکزی حکومت کے زیرانتظام علاقوں میںسب سے زیادہ احتجاج جموں و کشمیر میں ہوا۔ 2021میں یہاں احتجاج کرنے والوںکے خلاف 751 کیس درج ہوئے ہیں۔
آر ٹی آئی کارکن وینکٹیش نائک کے آر ٹی آئی کے جواب میں انکشاف ہوا ہے کہ سال 2014 میں یو اے پی اے کے تحت کشمیر میں صرف 45 کیس درج ہوئے تھے۔ لیکن سال مقبوضہ کشمیرکی آئینی دفعات ختم کرنے کے بعدپہلے سال2019 میں یو اے پی اے کے تحت 255 کیس درج کیے گئے۔جموں و کشمیر پولیس کے مطابق سال 2019 سے اگست 2021 تک کشمیر میں 2300 سے زیادہ لوگوں پر یو اے پی اے نافذ کیا گیا اور اس کی دفعات کے ساتھ 1200 مقدمات درج کیے گئے۔
کشمیر میں انسانی حقوق کے مقدمات لڑنے والے کئی وکلا کا کہنا ہے کہ سال 2019 سے یہ رواج عام ہوتا جا رہا ہے کہ جو لوگ پی ایس اے ایکٹ کے تحت سزا کاٹ رہے ہیں، جیسے ہی ان کا مقدمہ ہائی کورٹ کی طرف سے منسوخ کر دیا جاتا ہے، وہیں ان پر یو اے پی اے کی دفعہ لگائی جاتی ہے اور وہ جیل میں ہی رہتے ہیں۔اس طرح جو ملزمان ایک بار پھنس جاتے ہیں ان کے لیے جیل سے باہر آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سکیورٹی ایجنسیوں نے کشمیر میں پی ایس اے اور یو اے پی اے کا ایک ساتھ استعمال شروع کر دیا ہے۔پی ایس اے قانون کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے دو سال تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ساتھ ہی، یو اے پی اے کے معاملے میں، کسی بھی شخص کو برسوں تک بغیر مقدمہ چلائے جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ یو اے پی اے کی دفعات اتنی پیچیدہ ہیں کہ ملزم کو ضمانت ملنے کے امکانات تقریبا نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بی بی سی نے اس صورتحال پراپنی تازہ رپورٹ میں کہاہے کہ سری نگر سے متصل گاندربل ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ہمیں بتایا جس چیز کو حکومت امن کہہ رہی ہے وہ لوگوں کی خاموشی ہے، وہ خاموشی جو ڈرا دھمکا کر کی گئی ہے۔ کوئی بھی جو لیفٹیننٹ گورنر راج پر بالواسطہ تنقید کرتا ہو، اس شخص کو فورا تھانے بلایا جاتا ہے۔وہ کہتے ہیں ہڑتال اور دکانیں وغیرہ بند نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حریت کے دفتر کو تالا لگا ہوا ہے۔ حریت کے رہنما آج یا تو جیلوں میں ہیں یا اتنے سالوں بعد بھی نظر بند ہیں،وہ پوچھتے ہیں کہ اگر سب کچھ نارمل ہے تو میر واعظ عمر فاروق کو نظر بند کیوں رکھا جا رہا ہے۔ ہر جگہ فوجی جوانوں کی اتنی سخت ناکہ بندی کیوں ہے؟
سری نگر کے ڈائون ٹائون علاقے میں رہنے والے ایک 28 سالہ نوجوان کا کہنا ہے کہ زمینی صورتحال وہ نہیں ہے جو مرکزی حکومت پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔وہ کہتے ہیں کشمیر کے حالات کو معمول کے مطابق تب کہا جا سکتا ہے جب سب کی سوچ ایک جیسی ہو۔ اب بھی بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ ہمیں اسیری جیسی حالت میں رکھا گیا ہے۔ بے روزگاری ہے۔ کسی بھی سڑک پر جائیں تو بڑی تعداد میں سکیورٹی فورسز موجود ہوں گی۔ سیکورٹی کے نام پر آپ کو روکا جاتا ہے، گاڑیاں روکی جاتی ہیں، ایمبولینسیں روکی جاتی ہیں۔ اگر حکومت اسے نارمل کہتی ہے تو ٹھیک ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ کوئی عام صورت حال نہیں ہے۔
مودی نے مقبوضہ کشمیرکی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے کہاتھا کہ اس سے بڑے پیمانے پرغیرملکی سرمایہ کاری آئے گی مگرچارسال کی محنت کے بعدمودی جی عالمی برادری کورام نہیں کرسکے ہیں دوبئی کے ایمارگروپ کی طرف سے سری نگر میں 60 ملین ڈالر کی لاگت سے ایک شاپنگ کمپلیکس کی تعمیرکااعلان ہواہے مگریہ صرف کاغذی کاروائی ہے ۔انڈیاجی 20سمیت کئی اہم ترین پروگرامات اورکانفرنسیں منعقدکرچکاہے مگرابھی تک کسی بھی ملک نے مقبوضہ کشمیرمیں سرمایہ کاری کی حامی نہیں بھری ہے ۔
35 سالہ اعجاز کا تعلق سرینگر سے ہے اور وہ پچھلے دو سال سے انڈیا کے شہر ممبئی میں مقیم ہیں۔ان کا کہنا ہے پہلی چیز ہوتی ہے قبول کرنا، وہ ہی نہیں ہے۔ کشمیری یہ ماننے کو ہی تیار نہیں ہیں کہ آرٹیکل 370 کا خاتمہ درست ہے۔ کشمیری اسے نہیں مانتے۔اب کشمیریوں کا انڈیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے سب ختم ہو گیا ہے۔