تحریر؛ قادر خان یوسفزئی
مشرق وسطیٰ کا جغرافیائی اور سیاسی منظرنامہ ایک انتہائی پیچیدہ اور سنگین مرحلے سے گزر رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ایران کی جوہری قوت میں پیشرفت امریکہ اور اسرائیل کے لئے تشویش کا باعث بن رہی ہے، وہاں دوسری طرف سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں ممکنہ بہتری، اسرائیل کی فوجی حکمت عملی، اور چین کی ثالثی جیسے عوامل عالمی طاقتوں کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔ ان حالات میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے لیے مشرق وسطیٰ کا موجودہ منظرنامہ ایک چیلنج بھی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں ایک اہم تبدیلی سے خطے کی سیاست میں نیا توازن قائم ہوا ہے۔ گوکہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ اور کشیدہ رہے ہیں، کیونکہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ تاہم، اب سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری کے آثار عالمی سطح پر ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ دیتے ہیں۔ چین کی ثالثی نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کی، جس سے عالمی سیاست میں ایک نیا رخ سامنے آیا۔
امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے مفادات کے لیے سب سے بڑا چیلنج سمجھا ہے، اور اسی لیے ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے خلاف ”زیادہ سے زیادہ دباؤ“ کی حکمت عملی اپنائی۔ اس حکمت عملی کا مقصد ایران پر پابندیاں عائد کرنا، اس کی اقتصادی حالت کو کمزور کرنا اور ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری روکنے پر مجبور کرنا تھا۔ تاہم، ایران نے ان پابندیوں کا سامنا کیا اور اپنے جوہری پروگرام کو مزید آگے بڑھایا، ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای اس وقت 85برس کے ہیں اور اپنی عمر کے آخری حصے میں ایران کی رنگ آف فائر کی پالیسی کے متبادل کے طور یقیناََ کچھ بڑا کرنا چاہیں گے، اس صورت میں کہ ایران مشرق وسطیٰ کے کئی اہم ممالک سے عملی طور پر باہر ہوچکا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ اور اسرائیل نے مختلف حکمت عملی اپنائیں، جن میں فوجی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔ تاہم، اس کا نتیجہ عالمی سطح پر ان طاقتوں کی پالیسیوں کی ناکامی کی صورت میں نکلا ہے، کیونکہ ایران مسلسل جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہے۔ امریکی صدر ایران کے جوہری پروگرام کے سخت مخالف ہیں تاہم اب بھی وہ ایران کے ساتھ پر امن ایٹمی پروگرام پر معاہدہ کرنے کے خواہاں بھی نظر آتے ہیں۔
سعودی عرب ہمیشہ سے فلسطینیوں کے حقوق کا مدافعت کرتا آیا ہے، اور اس نے عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی ہے۔ سعودی عرب کا موقف ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ کیے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی معمولی بھی پالیسی میں تبدیلی ممکن نہیں ہو سکتی۔ سعودی عرب کی یہ پالیسی عالمی سطح پر اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ یہ مسئلہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست کو متاثر کرتا ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ضروری ہے مشرق وسطیٰ میں جوہری پالیسیوں، سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری، اور چین کی مداخلت نے عالمی سیاست کا توازن تبدیل کر دیا ہے۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تبدیلی خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ متعدد عالمی طاقتوں کے لیے ایک چیلنج ہے،دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب اب امریکہ کے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف موقف کی بھرپور حمایت نہیں کرے گا۔ چین کی مداخلت اور سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی کے بعد، چین عالمی سطح پر ایک نیا کردار ادا کر رہا ہے، چین ایران سے 90فیصد تیل حاصل کرتا رہا ہے،جس سے امریکہ اور اسرائیل کے مفادات متاثر ہوئے۔ چین نے ایران اور سعودی تعلقات کی بہتری میں ثالث بن کر عالمی سیاست کے توازن کو تبدیل کردیا ہے، کیونکہ چین نے امریکہ کی عالمی حکمت عملی کو چیلنج کیا ہے۔
اسرائیل نے حالیہ برسوں میں اپنی فوجی حکمت عملی میں خاص طور پر ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے نمایاں تبدیلیاں کی ہیں۔ اسرائیل نے حزب اللہ کی قیادت کو لبنان میں تباہ کیا اور غزہ میں حماس کو شدید نقصان پہنچایا۔ اسرائیل کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ ایران کے اثر و رسوخ کو کمزور کرے، اور اس نے اپنی فوجی کارروائیوں کے ذریعے اس مقصد کو بادی النظر حاصل بھی کرلیا۔تاہم سعودی عرب کایہ موقف اب بھی قائم ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ کیے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات ممکن نہیں۔ سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے معاملے میں مزید لچک دکھانے کو تیار ہو، لیکن ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے عزائم کے بعد سعودی عرب نے کھل کر اپنا اصولی موقف دے کر ثابت کردیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کی قیام سے کسی طور پیچھے نہیں ہٹ رہا۔سعودی عرب نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کی ہے اور دو ریاستی حل کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی ہے۔ سعودی عرب کا موقف فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھانے کی ایک اہم مثال ہے۔ سعودی عرب کی پالیسی کے مطابق، فلسطینی ریاست کا قیام اس خطے میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے، اور سعودی عرب کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے فلسطینیوں کے حقوق کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں۔
مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری ایک بڑی جیوپولیٹیکل تبدیلی کا باعث بنی جس نے عالمی سیاست پر اثرات نمایاں کئے۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تبدیلی نہ صرف خطے کے لیے بلکہ عالمی طاقتوں کے لیے بھی ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے لیے یہ ایک چیلنج ہو گا کہ وہ سعودی عرب کے اس فیصلے کے ساتھ کس طرح اپنے مفادات کو ہم آہنگ کریں گے۔ امریکہ اور اسرائیل کو اس امرکو سمجھنا ہو گا کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بہتری نے عالمی سیاست میں ایک نیا توازن پیدا کیا ہے، جس کے اثرات صرف مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں طاقت کے توازن کو متاثر کریں گے۔ مجموعی طور پر، مشرق وسطیٰ کی سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلیاں عالمی سیکیورٹی، اقتصادی تعلقات اور سیاسی حکمت عملیوں کو متاثر کر رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کا تجزیہ کرنا عالمی طاقتوں کے لیے اہم ہے۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں سعودی عرب اور ایران کا کردار عالمی قوتوں کے عزائم کے خلاف مضبوط دیوار بن چکی ہے، اگر دونوں ممالک اتحادد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے رہیں، تو گیم چینجز بن سکتے ہیں۔