تحریر: محمد ثقلین واحدی
Msaqlain1412@gmail.com
یہودیوں کی فلسطین کی جانب نقل مکانی 17 ویں صدی کے اواخر میں شروع ہو ئی برطانوی امداد سے انہوں نے فلسطین میں زرعی زمینیں خریدنا شروع کیں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام میں برطانیہ کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا کیونکہ جنگ عظیم اوّل میں جب یہودیوں نے دیکھا کہ اتحادی جنگ جیت رہے ہیں تو انھوں نے اتحادیوں خصوصاً برطانیہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام پر آمادہ کیا1917ء میں برطانیہ نے اعلان بالفور کے ذریعے یہودیوں کے لئے ایک الگ ریاست کے قیام کا وعدہ کیا یوں 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کرکے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا- برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔برطانیہ جس کی للچائی ہوئی نظریں پہلے ہی مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر تھیں اس نے اپنے مفادات کی خاطر ایک ایسی ناجائز ریاست کی داغ بیل ڈالی جو آج تک مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
بانیانِ پاکستان خصوصاً بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کے ویژن کی بدولت برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی نصیب ہوئی۔ دونوں بزرگ شخصیات نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور اسلام کو درپیش چیلنجز پر نظر رکھتی تھیں۔
مصور پاکستان علامہ محمد اقبال رح نے اپنی وفات سے صرف ایک سال قبل ایک برطانوی رہنما کو فلسطینی مسلمانوں کے حق میں ایک خط لکھا جس میں فرماتے ہیں:
“میں علالت کے باعث تفصیل سے آپ کو نہیں لکھ سکتا کہ رائل کمیشن کی رپورٹ نے میرے دل پر کیسا چرکا لگایا ہے۔ نہ یہ بتانے پر قادر ہوں کہ اس رپورٹ سے ہندوستان کے مسلمان بالخصوص اور پورے ایشیا کے مسلمان بالعموم کس قدر رنج والم کا شکار ہوئے ہیں اور ان کے غم وغصے کے جذبات آئندہ دنوں میں کیا رنگ اختیار کر سکتے ہیں۔ لیگ آف نیشنز کو چاہیے کہ بیک آواز ہو کر اس ظلم اور طغیان کے خلاف احتجاج بلند کرے اور برطانوی باشندگان کو سمجھائے کہ عربوں سے ناانصافی نہ کریں بلکہ ان وعدوں کو ایفا کریں جو گذشتہ جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے حکمرانوں نے برطانوی عوام کے نام عربوں سے کیے تھے۔ حقیقی طاقت کے نشے سے سرشار ہو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے تو تباہی سے ہمکنار ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔”
1933 میں اپنے خطاب میں علامہ اقبال رح نے فرمایا: “ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ برطانوی حکومت فلسطین اور میں جو پالیسی اختیار کر رہی ہے وہ سراسر ناانصافی اور ظلم ہے۔”
بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح رح اور آل انڈیا مسلم لیگ ہمیشہ فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتے رہے- فلسطین کی حمایت میں 1933ء سے 1946ء تک اٹھارہ قرار دادیں منظور کی گئیں- پورے برصغیر میں آل انڈیا مسلم لیگ باقاعدگی کے ساتھ یومِ فلسطین پر سیاسی سرگرمیوں کا انعقاد کرکے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتی رہی- 23مارچ، 1940ء کو قرار دادِ لاہور منظور کی گئی جو قرار دادِ پاکستان کہلاتی ہے، اس تاریخی موقع پر بھی فلسطین کے ساتھ یکجہتی کی قرار داد منظور کی گئی.
11 جولائی، 1937ء کو قائدِ اعظم محمد علی جناح رح نے ایک بیان میں فرمایا:
“فلسطین رپورٹ عربوں کے ساتھ بے حد شدید نا انصافی ظاہر کرتی ہے اور اگر برطانوی پارلیمان نے اس پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کردی تو برطانوی قوم عہد شکنی کی مرتکب ہوگی”
اسی طرح 1938 میں کراچی میں ایک کانفرنس کے دوران صدارتی خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
جہاں تک فلسطین کے المیے کا تعلق ہے جو فی الوقت جاری ہے اور انتہائی بے رحمانہ طریقے سے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کیا جارہا ہے کیونکہ وہ اپنے ملک کی آزادی کی خاطر جدوجہد میں مصروف ہیں۔
ایک اور مقام پر قائد اعظم رح نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں عرب قائدین اور ہمسایہ ریاستوں کو یوں اتنباہ کیا:
” میں محسوس کرتا ہوں کہ فلسطین کے عرب قائدین اور ان کی ہمسایہ ریاستیں معاملے سے نمٹنے کے لیے ایک ہندی کے مقابلے میں ’جو اتنے فاصلے پر بیٹھا ہے‘ کہیں زیادہ اہل ہوں گی چونکہ وہ (عرب قائدین) نہ صرف پورے طور سے اہل ہیں بلکہ موقع پر ہونے کی وجہ سے صورتِ حال کو بہتر سمجھ سکتے ہیں- لہٰذا میں اس مرحلے پر کوئی ٹھوس نوعیت کی تجویز پیش کرنے کی جسارت نہیں کروں گا بلکہ اس امر کو واضح کروں گا کہ مسلمانانِ ہند پختہ طور سے اس جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں جو عرب اپنی آزادی کے لیے چلا رہے ہیں- ان (مسلمانانِ ہند) کے محسوسات اور جذبات بار بار حکومتِ برطانیہ کو پیش کیے جاچکے ہیں—– میری رائے میں برطانیہ کو عربوں سے عہد شکنی نہیں کرنی چاہیے تھی اور بہت پہلے عربوں کو موعود (وعدہ کی گئی) آزادی دے دینی چاہیے تھی- مزید یہ بہت ظالمانہ بات تھی کہ یہودیوں کو، ان کے زیرِ اثر، بیرونی اقوام کے اشارے پر، کوڑے کرکٹ کی طرح فلسطین میں پھینک دینے کی کوشش کی جائے اور اس طرح خود یہودیوں کے لیے بھی از حد قابلِ رحم صورت حال پیدا کردی جائے جو عربوں کی سرزمین پر جائیںاور اپنے نام نہاد قومی وطن کی دلیل کے تحت وہاں قیام پذیر ہو جائیں-میں عرب قائدین کو ایک انتباہ کرسکتا ہوں کہ اگر وہ مجوزہ گول میز کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کر لیں تو وہ اپنی پسند کے نمائندے بھیجیں جو عربوں کے اعتماد اور احترام کے حامل ہوں اور یہ دیکھیں کہ کانفرنس اس کہانی کا روپ نہ دھار لے جس میں ایک بندر لڑاکا بلیوں کے درمیان انصاف کرتا ہے۔”
15 اکتوبر 1937 کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں بابائے قوم نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے برطانوی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فرمایا:
“مسئلہ فلسطین کا تمام مسلمانوں پر گہرا اثر پڑا ہے۔ حکومت برطانیہ کی پالیسی رہی ہے کہ اس نے شروع سے لے کر اب تک مسلمانوں کو دھوکا دیا اور عربوں کی اعتبار کر لینے والی فطرت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ برطانیہ نے عربوں کو مکمل آزادی دینے کے حوالے سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے بلکہ ہوا یہ کہ برطانیہ نے جھوٹے وعدے کر کے خود فائدہ اٹھایا اور بدنام زمانہ اعلان بالفور کے ذریعے خود کو ان پر مسلط کر دیا اور یہودیوں کے لیے قومی وطن بنانے کی پالیسی بنانے کے بعد برطانیہ اب فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ رائل کمیشن کی سفارشات نے اس الم ناک داستان کا آخری باب لکھ دیا ہے۔ اگر یہ نافذ کر دیا گیا تو عربوں کی اپنے آزاد وطن کی تمناؤں اور آرزوؤں کا خون ہو جائے گا۔ اب ہمیں یہ کہا جا رہا ہے کہ اصل واقعات (زمینی حقائق) پر غور کریں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ حالات پیدا کس نے کیے ۔۔۔ میں حکومت برطانیہ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر اس نے مسئلہ فلسطین کا تدبر، جرات اور دلیری وانصاف کے ساتھ فیصلہ نہ کیا تو یہ برطانیہ کی تاریخ میں ایک تازہ انقلاب کا دروزہ کھول دے گا ۔۔ مسلمانان ہند عربوں کے اس منصفانہ اور جرات مند جہاد میں ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔”
آج بھی اہلیانِ پاکستان کے دل فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پوری پاکستانی قوم جن امور پر سیسہ پلائی دیوار ہے ان میں سے ایک اہم ترین مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کی یہودی تسلط سے آزادی ہے چونکہ ظلم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور ہمارے آباء و اجداد و بانیان کا ورثہ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: سیاسیات کا کسی بھی خبر اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی Siasiyat.com پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کرانا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل Siasiyat172@gmail.com پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔