تحریر: رستم عباس
تمام بشریت ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہے۔اور ہر انسان کو خالق نے یکساں جسمانی خصوصیات عطاء کی ہیں۔لیکن انسانوں کے سوچنے سمجھنے اور واقعات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت یکساں نہیں ہے۔اس کی اپنی وجوہات ہیں جو ابھی موضوع بحث نہیں ہیں۔
انسان ایک مذہب تو عرش سے لے کر اترا ہے۔باقی جتنے مزاہب ہیں وہ انسان نے اپنے اپنے مفادات کے لیے خود تخلیق کئے ہیں۔
لیکن یہ بات میرے لیے ایک معمے سے کم نہیں ہے کہ کیا مذھب انسان کی سوچ و عمل بدل سکتا ہے۔؟؟؟
مذہب عرب زبان کا لفظ ہے۔جس کے معنی راستہ ہیں یعنی منحج یعنی طریق۔ وہ راہ جس پر چلا جائے۔اصطلاح میں مذہب اس نظریے کو کہتے ہیں جس پر افراد کایک گرو اپنی زندگی کے معمولات استوار کرتا ہے۔
کیا مذہب میں اور نظریے کوئی ایسا اثر ہوتا ہے جو اس کے مانے کے ساتھ حامل مذہب کو بدل کر رکھ دیتا ہے؟؟
کیا مذہب انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے؟؟
کیا مذہب اس بات کا ضامن ہوتا ہے کہ اس کے ماننے والا شکست خوردہ نہیں ہوگا؟؟؟
ہم اقوام عالم پر نظر دوڑائیں تو اس وقت لگ بھگ 40000 سے اوپر مزاہب ہیں۔لیکن جو سب سے بڑے مذاھب ہیں جن کے پیروکار دنیا میں سب سے زیادہ ہیں وہ عیسائیت۔اسلآم ۔یہودیت اور ہندومت ہیں۔
ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ اسلام ہمارا مذہب ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے آخری نبی ہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تمام بشریت کے لیے نبی بن کر آئے اگرچہ کافر آپ کو تسلیم نہیں کرتے۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اتنے عظیم انسان کی امت اس مقام پر نہیں ہے جہاں اس امت کو ہونا چاہیے تھا۔
جبکہ ہم دیکھتے ہیں وہ اقوام جو سرے سے کسی خدا کی بھی قائل نہیں ہیں وہ مسلمانوں کی 90فیصد سے کہیں زیادہ باشرف اور باعزت ہیں۔
آپ چائنہ کو دیکھ لیں۔کسی خدا کو نہیں مانتے لیکن سپر پاور بنے ہوئے ہیں۔
اور تو آپ چھوڑ دیں آپ اپنے ہمسایہ ملک ہندوستان کو دیکھ لیں۔ہزاروں خداؤں کے پجاری ہیں۔لیکن اس وقت وہ ہم سے بہت آگے ہیں۔
یہ ملک ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا 5لاکھ قربانیاں دیں۔
لیکن یہ نام نہاد توحید کے متوالے 25سال بھی اکٹھے نہیں رہ سکے۔1947میں بننے والا یہ ملک 1971میں دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔
جبکہ ہندوستان اس وقت سے آج تک ایک وحدت میں ہے اس میں کوئی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی۔
دوسرا بڑا حصہ مسلمانوں کا عربوں پر مشتمل ہے۔ان کا حال آپ دیکھ لیں۔اگر تیل و گیس کی دولت عربستان میں نہ ہوتی تو میں دعوے سے کہتا ہوں آج پورا عرب اپنا مذھب بدل کے یہودی یا عیسائی ہو چکا ہوتا۔
آپ دیکھ لیں اتنی ثروت و دولت ہونے کے باوجود عرب اسرائیل و امریکہ کے کے اشارے منتظر رہتے ہیں۔
امریکہ اسرائیل دونوں نے مل کر عرب مسلم فلسطین کے 7000معصوم بچے بموں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے ہیں 8سے 9ہزار خواتین قتل کر دی ہیں اور اتنے ہی جوان و بزرگ قتل کئے ہیں ۔لیکن مجال ہے کہ ان عرب کے حکمرانوں کو زرا بھی رحم آیا ہو۔
لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں وہ لوگ جو سرے سے مسلمان ہی نہیں اور وہ لوگ جو معاشرے میں کوئی زیادہ عزت کا مقام بھی نہیں رکھتے وہ سراپا احتجاج ہیں۔
لیکن عرب یعنی اردن سعودیہ۔
امارات ۔بحریں قطر۔سوائے یمن و لبنان کے ظلم کے ساتھ ہیں۔
یہاں بات واضح ہو جاتی ہے۔کہ مذہب سے وابستگی کی نوعیت انسان کے کردار و عمل پر اثر ڈالتی ہے۔
دوسرا سب سے اہم نقظہ جس کے لیے ساری تمہید بندھی ہے وہ یہ کہ
کچھ انسانی خصوصیات ہیں۔اگر کوئی انسان وہ اپنے اندر مار دے تو ایسا انسان ننگ انسانیت ہے چاہیے کسی بھی مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہو۔وہ اپنے مذہب کے لیے اپنے ملک قوم و قبیلہ کے لیے باعث ذلت و رسوائی ہے۔
یہ انسانی خصوصیات جن میں سب سے بڑی خوبی صداقت یعنی سچائی ہے
2.حریت آزاد منشی یعنی کسی کی اجارہ داری کو قبول نہ کرنا
3شجاعت بہادری
4۔مروت شخصیت کابڑا پن
5.حیاءعفت۔
ان میں ام الاخصائص حریت و آزادی ہے۔
حقیقی آزاد مرد ہی باوقار ہے اگر عرب آزاد مرد ہوتے تو آج غزہ لہو لہو نہ ہوتا۔اگر پاکستان کے عوام و حکمران آزاد مرد ہوتے تو نہ بنگلہ دیش بنتا نہ مودی کشمیر پر ظلم ڈھا سکتا تھا۔اگر پاکستانی آزاد مرد ہوتے تو پہلے انگریز کے نظام حکومت کو بدل کر اپنا نظام لاتے
ہم جو اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں ان کو ممولے کی طرح پالتے ہیں ہر چیز سے ڈراتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں کہ علم تو بہت زیادہ ہوگیا کیا حق کی خاطر ڈٹنے کی ہمت بھی ہے کہ بلکل نہیں ہے۔
کیا فیصلوں میں صداقت سے کام لیتے ہیں یا نہیں
کیا مردانگی یعنی مروت دشمن ذاتی دشمن پر احسان کرنی کی ہمت ہے کہ نہیں ہے۔
کیا کوئی حیاء عفت نام کی کوئی چیز ہمارے اندر ہے یا نہیں ہے۔
اگر یہ خو بیاں ہیں تو ہی اچھے مسلمان ہیں ورنہ کو فی شامی
سعودی اماراتی بحرینی ہیں۔انسان و مسلمان نہیں ہیں۔