ستمبر 17, 2024

مدارس اور دہشت گردی؟

تحریر: منصور آفاق

ایک بات جو پچھلے دنوں مذہبی حلقوں کی طرف سے بہت زیادہ کہی گئی کہ ’’مدارس کےبارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی معلومات نامکمل ہیں‘‘۔ میں اس کی تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے مدارس کے متعلق جو کہا، وہ بالکل درست تھا۔ قصہ یہ ہے کہ پاکستان میں دینی مدارس کیلئے ایک باقاعدہ سرکاری ادارہ بنایا گیا، جسے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ریلی جیئس ایجوکیشن کہا جاتا ہے۔ یہ ادارہ مدارس کے نصاب تیار کرانے میں معاونت کے ساتھ دینی مدارس کی باقاعدہ رجسٹریشن کرتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تقریباً اڑتالیس فیصد سے زیادہ مدارس غیر رجسٹرڈ ہیں یعنی جن کاحکومت کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ ریاست کو نہ تو طلباء کی تعداد کا علم ہے اور نہ ہی نصاب کا۔

اس بات میں تو کوئی شک نہیں دہشت گردی میں ایک مخصوص فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک رہے ہیں۔ اس وقت بھی یہ صورتحال ہے کہ پنجاب کے سرکاری دینی مدارس، جو محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام قائم ہیں۔ بین الاقوامی ادارہ فیٹف ان کے متعلق مشکوک ہے۔ حکومت نے فیٹف کے کہنے پر اوقاف کے مدارس کی رجسٹریشن منسوخ کر دی تھی کہ ہر مدرسہ کو ازسرنو رجسٹریشن کے ذریعے اس دائرے میں لایا جا سکے۔ محکمہ اوقاف کے ان تمام مدارس کی فیٹف نگرانی کر رہا ہے اور یہ کوئی خفیہ نگرانی نہیں، نئی رجسٹریشن کے لیے جو فارم محکمہ اوقاف کی طرف سے ملک کے مختلف حصوں میں تقسیم کیے گئے ان میں فیٹف کی ہدایات کا واضح طور پر ذکر موجود ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق فیٹف نے اوقاف کے کچھ مدارس کے متعلق شواہد بھی فراہم کیے ہیں۔

پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے غیر رجسٹرڈ مدارس کا ذکر کیا ہے اوردہشت گردی کی تاریخ شاہد ہے کہ کس طرح بعض غیر رجسٹر مدرسوں سے ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھاتے رہے اور مذہب کی آڑ میں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے رہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اسے ہمیں تسلیم کرنا ہو گا۔ اس وقت ملک میں دہشت گردی کے خطرے کو ہم سب کو سمجھنا ہو گا۔ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان نے پریس ریلیز کے ذریعے جس انداز میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے میرے خیال میں علمائے کرام نے سیاق و سباق سمجھے بغیر ایک زمینی حقیقت کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی۔ علمائےکرام کو یہ سمجھنا چاہئے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ یہاں مسلمان رہتے ہیں۔ وہ مسلمان چاہے ریاستی عہدیدارہے یا اہلکار، عام شہری ہے یا اس کا تعلق خواص سے ہے۔ یہ سب ہی اتنے ہی مسلمان ہیں جتنے کہ مذہبی لوگ ہیں۔ ان سب کو اسلام سے اتنی ہی محبت ہے جتنی مذہبی طبقے کو ہے۔ پھر ریاست کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ کوئی اگر اسلام کی آڑ میں اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنےکی کوشش کرے تو ریاست اس کے خلاف کارروائی کرے۔ اس کا احتساب کرے اور اسی بات کا تذکرہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا۔

بہت سے احباب کو میری یہ بات پسند نہیں ا ٓرہی ہو گی کہ میں مدارس کو دہشت گردی کے ساتھ کیوں جوڑ رہا ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی حکومت سندھ تمام مدارس کے اساتذہ کی باقاعدہ مانیٹرنگ کراتی ہے۔ یہ کام اس وقت سے شروع ہے جب وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت سول اور فوجی قیادت پر مشتمل اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ کراچی پولیس کے مرکزی دفتر پر حملے میں ہلاک ہونے والا ایک ‘دہشت گرد دینی مدرسے میں استاد تھا جو اپنے دیگر طالب علم ساتھیوں سمیت مارا گیا تھا۔

خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کو روکنے کیلئے علی امین گنڈا پور کی صدارت میں اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں بتایا گیا کہ ابھی تک صرف تین ہزار پانچ سو اکہتر مدارس کی رجسٹریشن ہو سکی ہے اور اس پر مسلسل کام جاری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے مدارس میں تین لاکھ تیس ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں ان میں ساڑھے چار ہزار غیر ملکی طلبا شامل ہیں۔ اساتذہ کی تعداد 16000کے قریب ہےجن میں 280غیر ملکی اساتذہ ہیں۔ ضلع بنوں میں 241مدارس میں سے 66مدارس غیر رجسٹرڈ ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق محکمہ اوقاف خیبرپختونخوا کے مدارس اور مساجد کے فنڈ میں بڑے پیمانے پر کرپشن کے الزامات پر اینٹی کرپشن نے محکمہ اوقاف سے ریکارڈ طلب کر لیا۔ سترہ گریڈ کے دو افسر وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔ صوبائی وزیر اوقاف نے بھی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مبینہ کرپشن کرنے والے ملازمین کے خلاف انکوائری جاری ہے۔ دوسرے صوبوں میں بھی اینٹی کرپشن کو چاہئے کہ اوقاف کے معاملات پر دھیان دے۔ ماضی میں اسی شدت پسندی کی وجہ سے پاکستان میں دو سو کے قریب مدارس بند کیے گئے تھے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ پھر بہت سے مدارس کو بند کرنا پڑے گا۔

 

بشکریہ روزنامہ جنگ اردو

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

13 + 19 =