تحریر: رستم عباس
رسول گرامی قدر صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم پر بہت کچھ کہا گیا ہے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔اور بہت کچھ کہا اور لکھا جائے گا۔
آپ کی ذات اور شخصیت کی حقیقت آپ کے نزدیک ترین ہستیوں پر بھی نہیں کھل سکی۔اپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کا جلال وجمال اس قدر تھا کہ آپ کے اہل بیت آپ کے عشق اور احترام میں ہی مگن رہے۔کیونکہ جس کسی کو کوئی بھی فضیلت حاصل ہے وہ رسول گرامی قدر کی ہی بدولت ہے۔جو انسان آپ سے جتنا فکری اور عملی اور ظاہری طور پر نزدیک ہوتا وہ آپ کی ذات پاک کے عشق و محبت ڈوب جاتا۔اپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ قریب آپ کی دختر سیدہ فاطمتہ الزہرہ سلام اللہ علیہا ہیں۔بی بی رسول پاک سے اتنی محبت کرتیں تھیں کہ آپ کے وصال کو برداشت نہ کر سکیں اور 70یا،90دن میں ہی آپ سے جا ملیں۔کیونکہ رسول نے خود فرمایا تھا۔
فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔
رسول گرامی قدر کی شخصیت اور انکی حقیقت تک ہم نہیں پہنچ سکتے۔ایک چیز جو ہمارے بس میں ہے وہ آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی نقل ہے۔اور اللہ نے بھی یہ حکم دیا ہے کہ آپ کا کام اتباع رسول ہے۔ہم رسول گرامی قدر کی ظاہری زندگی کا جب جائزہ لیتے ہیں تو چند باتیں ہمارے سامنے کھل کر سامنے آتی ہیں۔
یہ کہ جب نزول وحی نہیں ہوا تھا اس وقت بھی آپ نے کبھی جاہل عربوں کی سی روش نہیں اپنائی۔
آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم اپنے زمانے کی جاہلیت ۔ عربوں کی ظلم آمیز زندگی اور بتوں سے سخت بیزار تھے۔
نزول وحی اور اعلان نبوت سے پہلے آپ کا زیادہ وقت تفکر اور تدبر میں گذرتا۔
ایک دفعہ آپ نے ایک سوال کے جواب ارشاد فرمایا کہ میں بکریاں چرا رہا تھا کہ اچانک گلے کی ایک بکری گری اور مر گئیں۔
رسول گرامی قدر فرماتے ہیں کہ اس اچانک واقع نے مجھے جھنجوڑ کے رکھ دیا اور میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اس بکری کو اچانک کیا ہوا جو ابھی ابھی بلکل ٹھیک تھی دوسرے ہی لمحے یہ بےجان ہوگئی۔اپ فرماتے ہیں اس واقعے کا مجھ بہت گہرا اثر ہوا اور دنیا کی حقیقت میرے سامنے کھلتی گئ۔
آپ نے وحی سے پہلے مظلوم کی داد رسی کی۔
جب ایک شخص نے کوہ آبو قبیس پر چڑھ کر مظلومانہ فریاد کی تو وھاں عربوں نے مظلوم کی حمایت کے لیے معاہدہ کیا جسے حلف الفضول کہتے ہیں۔اپ اس معاہدے میں شریک تھے۔
آپ اعلان نبوت اور نزول وحی سے پہلے وحدت اور محبت کے داعی تھے۔کہ جب ھجرے اسود کو نصب کرنے پر آپ کے قبیلے میں اختلاف ہوا تو آپ نے ایک چادر کے زریعے سب کو ھجرے اسود اٹھا کر لانے کا کہا اور پھر آپ نے خود اسے نصب کر دیا۔
آپ نزول وحی سے پہلے ہی اپنی صداقت اور امانت داری میں مشہور تھے۔
یعنی جہالت۔ظلم حماقت۔ سے دوری اختیار کرنا یہ انسانی صفات ہیں۔ہر بشر میں ہونی چاہیے تاکہ وہ ھدایت حاصل کرنے کے قابل ہوسکے
2۔سنجیدگی فکر وتدبر۔فکر فردا
عاقبت اندیشی ۔شخصیت کا بڑاپن مظلوم کی حمایت اخوت ومحبت سچائی امانت داری یہ وہ خصائص ہیں جو ایک انسان کو اس کی حقیقی منزل تک لے جاسکتے ہیں۔
اب آتے ہیں ہم زرا دیکھیں کہ رسول اسلام حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلان نبوت کے بعد کی زندگی سے ہمیں کیا کیا سبق ملتے ہیں۔
پیغمبر اسلام کی اعلان نبوت کےبعد سب بڑا سبق جو آج کے انسان کے لیے ہے وہ ہے آللہ تبارک وتعالی کی ذات پر کامل ایمان اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر نازل ہونے والی کتاب پر کامل ایمان۔
آج کے دور کے انسان کی سب سے بڑی ذمےداری یہ ہے کہ وہ اپنے گھر اور اپنے معاشرے میں قران کے قوانین کو نافذ کرنے کی اپنی سی سعی کرے۔رسول اعظم محسن انسانیت مربی بشر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم حیات انسانی کے گزارنے کا کامل نظام لے کر آئے ہیں۔اپ نے اپنے دور میں انسان دشمن اور خدا کے دشمنوں سے مبارزا کیا انکی چالوں کو بڑے تدبر سے ناکام کیا اور پیغام الہی اور بشریت کی ھدایت کا نظام کامل کیا۔
آج اس پیغام مصطفی کو بہت سے چیلجنگز کا سامنا ہے رسول خدا کی تعلیمات کو مسخ کیا جارہا ہے۔مسلمانوں کو قرآن سے عملی طور پر دور کیا جاچکا ہے۔
محبت رسول یہ ہے کہ ہم قرآن کے مطابق اور رسول خدا کے فرمان کے مطابق اپنے خاندان اپنے معاشرے کو چلائیں۔
مغرب نے رسول خدا کی محنتوں پر پانی پھیرنے کے لیے اپنی تہزیب کو عام کیا ہے اپنی زبان کو عام کیا ہے اپنے طرز حکومت کو عام کیا ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اس وقت سارے مسلمان ملک مغربی تہذیب اپنا چکے ہیں اور تہذیب رسول کو فراموش کر چکے ہیں۔اس وجہ کیا ہے۔؟؟؟
اس کی وجہ علماء کا دنیا پرست ہونا ہے جس کہ وجہ سے دین محمدی کی جگہ دین امریکی حاکم ہو چکا ہے۔
رسول گرامی قدر نے انسانیت کو شرف عطاء کیا انسان کو خدا تک پہنچنے کا رستہ دکھایا ہے اور بہت معزز اور پاکیزہ نظام زندگی دیا جس میں انسان کی دنیا و آخرت کی فلاح ہے۔لیکن آج مغرب انسان کو ذلیل کرنے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ہمجنس بازی۔کو عام کر رہاہے۔
اسلام نے گتے کو نجس کہا ہے لیکن امریکی تہذیب کہ رہی ہے کہ ہم اصل میں کتے تھے لیکن انسان بن گئے ہیں لہذا ہم دوبارہ کتے بنیں گے سور بنیں گے یہ ہو رہا ہے مغرب عملی طور پر۔
مغربی تہذیب سے مقابلہ کرنا ہوگا بصیرت اور ہوش مندی کے ساتھ۔لیکن صد افسوس اس وقت مسلمان کے پاس صرف رسمیں رہ گیں ہیں اصل دین سے پشت کئے ہوئے ہیں۔
ہم شیعہ خود کو دیکھیں تو بہت افسوس ہوتا کہ ہم محض رسموں کے عادی ہیں۔
محرم صفر میں 2 ماہ اور 8 دن سوگ مناتے ہیں روتے ہیں۔اگرچہ یہ بھی اب صرف مخلص شیعہ ہی کرتا ہے ورنہ لنگر نیاز کے ہی پیچھے ہوتے ہیں۔لیکن جیسے ہی محرم گزرتا ہے تو مصائب فضائل کی بجائے صلی علیک یارسول اللہ وسلما یا حبیب اللہ شروع ہوجاتا ہے۔
لیکن وہ جو پیغام جو شرعیت جو طرز زندگی طرز معاشرت طرز حکومت رسول خدا بتا کر گئے نہ تو اس کا ذکر مجلسوں اور میلادوں میں ہوتا اور نہ اس پر عمل کے بارے میں کوئی دومنٹ سوچتا ہے۔
عید میلاد النبی ہو یا محرم صفر یہ ایام رسول وال رسول سے قریب ہونے کے دن ہیں۔ان ہستیوں کی معارفت حاصل کرنے کی کوشش کے دن ہیں۔اور اس رستے پر آنے کے دن ہیں جو راہ رسول گرامی قدر چھوڑ گئے تھے نہ کہ پہاڑی بناکر عام عوام کے گزرنے کے راست بند کر نے کے دن ہیں۔ یا ساری رات آسمانوں کو چھوتی سائونڈ سسٹم کی آواز میں نعتیں پڑھ کر لوگوں کا جینا حرام کرنے کے دن ہیں۔
ہمیں اپنی زندگی میں صداقت امانت ظلم سے نفرت حماقت سے دوری اور اللہ پر کامل ایمان لانا ہوگااور جو طرز حیات رسول چھوڑ گئے اس کو اپنانا ہوگا اور قرآن اہل بیت سے تمسک کرنا ہوگا ورنہ
رسول خدا قیامت کے دن اس نعت خواں امت کا گریباں پکڑ کر کہیں گے
کہ ایے میرے رب یہ وہ میری امت ہے جس نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔۔